خدا ہر ملک کو ایک اسحاق ڈار بخشے


wusat ullah khan وسعت اللہ خان

مجھ جیسوں کو خوش فہمی تھی کہ پٹرول اور ڈیزل پر یک دم پینتیس روپے بڑھانے کا اعلان اسحق  ڈار کے بجائے کوئی نیا وزیرِ خزانہ کرے گا۔ مگر بھائی اسحاق نے تو ماتھے سے پسینہ پوچھنے کی اداکاری تک نہیں کی اور ایک ماہر قصاب کی طرح چہرے کی سپاٹئیت برقرار رکھتے ہوئے آئی ایم ایف کا تھمایا ہوا بگدہ ایک بار پھر کروڑوں ادھ موؤں کی گردن پر چلا دیا۔

کشکولی مجبوری تو سمجھ میں آتی ہے۔ مگر فالتو کی نمک پاشی کی عادت عقل سے بالا ہے۔

وہی مریم نواز جنھوں نے اپنی ہی جماعت سے تعلق رکھنے والے وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کو ایک ناکام وزیر ثابت کرنے کا کوئی موقع نہیں گنوایا۔ انھی مریم نواز نے آئی ایم ایف کو تڑی لگا کے پاؤں پکڑنے والے لندن سے نازل شدہ اسحاق ڈار کو سراہتے ہوئے قوم سے اپیل کی ہے کہ سب ڈار صاحب کی حمایت کریں، کہ وہ اس ملک کو معاشی گرداب سے نکال لیں گے، انشااللہ!

خاندانی نزاکتوں نے نہ صرف پارٹی بلکہ معیشت کی بھی بقول شخصے واٹ لگا دی ہے۔ یہی ہونا کرنا چار ماہ پہلے بھی کیا جا سکتا تھا۔

مگر اس پورے عرصے میں بھائی اسحاق کے ٹارزن بننے کا شوق معاشی بے یقینی کی صورت میں چھ ارب ڈالر کے برابر نقصان کے طور پر اس ملک کو ہی بھگتنا پڑا۔

مگر وزیرِ اعظم میں اتنی جرات نہیں کہ وہ رائے ونڈ اور پاکستان کو الگ الگ کر کے خاندانی و سمدھیانی زنجیریں توڑ کے حقیقی فیصلے کر سکیں۔

اگر اسحاق ڈار کا نام مفتاح اسماعیل ہوتا تو انھیں برطرف ہوئے آج تین دن گزر چکے ہوتے۔ کیونکہ تین دن پہلے ہی آپ نے فرمایا تھا کہ پاکستان اللہ نے بنایا ہے اور اللہ ہی چلائے گا۔

شاید اسی لیے پچھلے آٹھ ماہ سے وزیرِ اعظم جس ملک کا دورہ کرتے ہیں یا جس بین الاقوامی امدادی کانفرنس میں جاتے ہیں وہاں سے بس ایک ہی طرح کی آوازیں آتی ہیں: ’اللہ کے نام پر دے دو بابا۔ معاف کرو بابا۔‘

اب تک حکومت کا دو نکاتی معاشی پلان ہی سامنے آیا ہے۔ اول جو کچھ بھی گند گھولا گیا ہے وہ عمران خانی حکومت کے پونے چار سال میں گھولا گیا ہے۔ دوم اسے صاف کرنے کی ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن مداخلت اللہ کو ہی کرنا پڑے گی۔ کیونکہ اسی نے یہ ملک بنایا ہے۔

ویسے تو بھائی اسحاق، شہباز شریف، زرداری، عمران خان، پرویز الہی وغیرہ  وغیرہ کو بھی اللہ نے ہی بنایا ہے۔ مگر یہ سب قوم کو بنا رہے ہیں۔ کیا کِیا جائے۔

دن میں تارے دکھانے والے یہ سب کے سب ہماری آنکھوں کے تارے ہیں۔ چونکہ یہ سب ہمارے ہیں اس لیے یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ ’تینوں لوے مولا۔‘

اور جو اس سکرپٹ کا مصنف، پروڈیوسر اور ہدایت کار ہے اس نے عین اس وقت اس سیاسی فلم سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا ہے جب کوئی بھی تقسیم کار یہ فلم اٹھانے کو تیار نہیں۔

مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ جرنیلوں، ججوں، کابینہ واسیوں اور قائدِ حزبِ اختلاف کا کچن ان دنوں کیسے چل رہا ہے۔

ان کے لیے سبزی، دال اور آٹا کون خریدتا ہے۔ میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ روٹی پچیس سے تیس روپے کی ہو گئی ہے۔ دال کی پلیٹ ایک سو بیس سے ڈیڑھ سو کے درمیان ہے۔

جو مزدور دال جیسی پرتعیش ڈش افورڈ نہیں کر سکتا وہ ایک روٹی، ایک ٹماٹر، دو ہری مرچیں اور ایک درمیانے سائز کی پیاز اسی سے سو روپے میں خرید کے پانی پی لیتا ہے۔

اور جو یہ بھی نہیں کر پا رہا وہ کسی پُل یا فٹ پاتھ پر خواتین و بچوں سمیت کھڑا ہو کے آتی جاتی گاڑیوں کو امید آلود نگاہوں سے تکتا رہتا ہے۔

سلام ہے اس سکیورٹی گارڈ کو جس کی تنخواہ آج بھی پندرہ سے بیس ہزار روپے ہے۔ ڈیوٹی بارہ گھنٹے کی ہے اور پیٹ بھرنے کو کسی خیراتی ادارے یا لنگر کی غذائی قطار۔

اس نے اب تک چوری، ڈاکے یا بندوق سیدھی کرنے کے بارے میں نہیں سوچا۔ شاید یہی انسان اس دور کا ولی ہے۔ سلام سلام سلام۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments