پاکستانی عوام اب شریف خاندان کو کچھ نہیں دے سکتے!


اسحاق ڈار گھٹنوں کے بل آ گئے لیکن غلطی ماننے یا عہدہ چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ رشتے داری کی بنیاد پر سیاست میں ماہر معاشیات بننے والے اسحاق ڈار اس وقت ملک پر سب سے بڑا بوجھ ہیں۔ انہوں نے گزشتہ چند ماہ کے دوران آئی ایم ایف کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلی۔ اسی وجہ سے وہ عالمی مالیاتی حلقوں میں اپنا اعتبار کھو چکے ہیں۔

کسی وزیر خزانہ کی اس سے بڑی ناکامی کیا ہوگی کہ وہ جو دعوے کرتے ہوئے وزارت کا عہدہ سنبھالے، ان میں بری طرح ناکام ہو جائے، پھر مخالف سیاسی جماعت کو ملکی معاشی حالت پر مذاکرہ کی دعوت دے کر گلو خلاصی کروانے کی کوشش کرے۔ مریم نواز نے گزشتہ روز لاہور پہنچ کر اسحاق ڈار کو مکمل سیاسی حمایت فراہم کرنے کی ہے۔ لیکن ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گرتی ہوئی قیمت، پیٹرولیم مصنوعات میں اچانک اضافہ اور ہفتہ عشرہ کے اندر نئے اضافہ کی پیشگوئیاں اور آئی ایم ایف کے ایک ارب ڈالر کے لئے 200 سے 300 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کی تیاریاں اسحاق ڈار کی ناکامی کا اعلان نامہ ہے۔ برملا کہا جاسکتا ہے کہ وہ اس عہدے کے اہل نہیں ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے آئندہ چند روز میں اگر اس حوالے سے اقدام نہ کیا تو پارٹی کی رہی سہی سیاسی حیثیت بھی ختم ہو جائے گی۔ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے نام پر اگر دس بارہ لوگ قومی اسمبلی کے رکن بننے میں کامیاب ہو بھی گئے تو یہ ایک ایسی پارٹی کا المناک انجام ہو گا جس نے ملکی سیاست کے ایک مرحلے میں مزاحمت بھی کی اور کچھ اچھے اصولوں کے لئے ثابت قدم رہنے کا مظاہرہ بھی کیا۔

اسحاق ڈار ایک ڈالر کو 200 روپے کے نیچے لانے کا اعلان کرتے ہوئے وزیر خزانہ بنے تھے۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ وہ آئی ایم ایف سے ڈیل کرنا جانتے ہیں، اس لئے کسی کو اس بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ کہتے ہوئے اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف سے طے پانے والے معاہدے سے انحراف کیا، ڈالر کی قیمت کو پابند کرنے کی کوشش کی گئی اور پیٹرولیم مصنوعات میں کمی کا اعلان کیا یا انہیں بڑھنے نہیں دیا گیا۔ یہ سارے اقدامات معاشی لحاظ سے تباہ کن، عاقبت نا اندیشی پر مبنی اور ملکی معیشت کو تیزی سے تباہی کی طرف لے جانے کا سبب بنے۔ اب اسحاق ڈار اللہ کو اس صورت حال کا ذمہ دار بنانا چاہتے ہیں کہ اس کی مرضی سے ملک بنا تھا، اب وہی آئے اور اسے بچا لے۔ کسی وزیر کا اس سے بڑا اعتراف شکست آج تک سننے میں نہیں آیا لیکن اس ناکامی کی گونج نہ نواز شریف کے کانوں تک پہنچتی ہے اور مریم نواز کو اس کا ادراک ہے کہ اسحاق ڈار کی ناکام اور غیرحقیقی پالیسیوں نے ملکی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ ان پر اعتبار کرنے کا کوئی جواز موجود نہیں ہے۔ پھر کوئی سیاسی لیڈر کیسے محض سیاسی وابستگی کی بنیاد پر ایسے ناکام وزیر خزانہ کو ’اثاثہ‘ قرار دے کر عوام کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔

اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف کے حوالے سے وہی طریقہ اختیار کیا جو اس سے پہلے سابق وزیر اعظم عمران خان کرچکے تھے۔ عالمی مالیاتی ادارے سے کیے گئے معاہدے کے برعکس پیٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتیں کم کردی گئیں اور بجٹ سیشن تک انہیں منجمد کرنے کا اعلان بھی کیا گیا۔ عمران خان کا یہ فیصلہ خالصتاً سیاسی تھا۔ وہ قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کا سامنا کر رہے تھے اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے آئی ایم ایف کو للکار کر درحقیقت کو وہ عوامی مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے تاکہ بادشاہ گر ان کا تخت گرانے میں جلدی نہ کریں۔ وہ اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے۔

اس تجربہ کے باوجود اسحاق ڈار نے چند ماہ کے بعد بالکل انہیں مقاصد کے لئے وہی طریقہ اختیار کیا جو عمران خان نے کیا تھا۔ یعنی نون لیگ کی سیاسی مقبولیت کو سہارا دینے کے لئے آئی ایم ایف سے تقاضا کیا جانے لگا کہ وہ اپنی شرائط نرم کردے۔ اس دوران ملک کو شدید سیلاب کی تباہ کاری کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ لہذا اسے بھی عذر کے طور پر استعمال کیا جانے لگا لیکن اس سب مہینوں میں اسحاق ڈار یہ اندازہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے کہ ملکی معاشی حالات ہی نہیں عالمی مالیاتی اداروں کا رویہ بھی اب پہلے جیسا نہیں ہے۔ اب امریکہ کو کسی پراکسی وار میں پاکستان کی ضرورت نہیں ہے۔ اس بگاڑ کا یہ نتیجہ نکلا کہ بعد از خرابی بسیار اسی راستے پر واپس آنا پڑا جو مفتاح اسماعیل کے دور وزارت میں طے کیا گیا تھا۔

اس دوران ڈالر کی کئی شرحیں مقرر ہونے کے باعث ترسیلات زر میں شدید کمی واقع ہوئی۔ صرف اسی مد میں پاکستان کو کم از کم پانچ سے سات ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ اس کے علاوہ بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے کی جانے والی درآمدات میں رکاوٹ کے باعث ایک طرف ملک میں انرجی کا بحران بڑھنے لگا تو دوسری طرف برآمدات پر منفی اثر مرتب ہونے لگا۔ اسحاق ڈار کو قبول کرنا چاہیے کہ اس قومی نقصان کی ذمہ داری صرف ان کی نا اہلی اور کم فہمی پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے چند ماہ کے دوران صرف ملکی معیشت ہی تباہ نہیں کی بلکہ مسلم لیگ (ن) کے لئے مسائل و مصائب کا پہاڑ کھڑا کر دیا ہے۔ حکومت یا پارٹی کے کسی ترجمان کے پاس آئی ایم ایف کا ایک ارب ڈالر لینے کے لئے کیے جانے والے سخت مالی اقدامات کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ قومی اسمبلی کی تین درجن کے لگ بھگ نشستوں کے علاوہ پنجاب اور خیبر پختون خوا کے انتخابات سر پر کھڑے ہیں۔ موجودہ حالات میں مسلم لیگ (ن) کو خاص طور سے عوام کا سامنا کرنے میں شدید مشکل کا سامنا ہو گا۔

یہ بھی دلچسپ صورت حال ہے کہ یوں تو اتحادی حکومت میں دس گیارہ سیاسی گروہ شامل ہیں لیکن حکومت کی ناکامیوں کی ساری قیمت صرف مسلم لیگ (ن) ادا کر رہی ہے۔ اگر عام تفہیم میں اسے سمجھنے کی کوشش کی جائے تو اس کی دو ہی وجوہات سمجھ آئیں گی۔ ایک شہباز شریف کو بہر صورت زندگی میں ایک بار وزیر اعظم بننا تھا۔ انہیں یہ موقع اسی وقت مل سکتا تھا جب نواز شریف ملک سے باہر تھے اور سیاست سے نا اہل تھے۔ دوسری بڑی وجہ اسحاق ڈار اور ان جیسے پارٹی کے نام پر مفاد اٹھانے والے عناصر ہیں۔ اسحاق ڈار نے وزیر بن کر مسائل حل کرنے کا جھانسہ دیا اور اپنے خلاف مقدمے بھی ختم کروا لئے، جائیداد بھی بحال کروا لی اور بنکوں میں منجمد اثاثے بھی واپس لے لیے لیکن اس کے بدلے انہوں نے پاکستان یا نون لیگ کو شدید پریشانی کے سوا کچھ نہیں دیا۔

نواز شریف اور شہباز شریف کے پاس اس صورت حال سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ وہ فوری طور سے اسحاق ڈار سے نجات حاصل کریں اور نئے مالی اقدامات کے تحت جو محاصل اور ٹیکس عائد کیے جانے والے ہیں، ان کا بوجھ بالواسطہ ٹیکسوں کی صورت میں عوام کو منتقل نہ کیا جائے بلکہ اس امیر طبقہ سے براہ راست وصول کیا جائے جس نے پاکستان بننے کے بعد سے اس ملک کو دولت کمانے کا ذریعہ بنایا ہے لیکن قومی خزانے میں حصہ ادا کرنے میں ہمیشہ بخل سے کام لیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) مریم نواز کی شعلہ بیانی سے اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہوگی۔ نواز شریف اگر واقعی پارٹی کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں تو عدالتوں سے ’ہتھ جوڑی‘ کا انتظار کیے بغیر ملک واپس آئیں اور اپنے طور پر چند اہم سیاسی فیصلوں کا اعلان کریں اور شہباز شریف حکومت کو مجبور کریں کہ وہ ان پر سو فیصد عمل کر کے لیگی قیادت پر عوام کا اعتماد بحال کرے۔ یہ اقدامات درج زیل ہوسکتے ہیں :

1۔ نئے محاصل کے لئے کوئی ایسا میکنزم تلاش کیا جائے کہ ویلتھ ٹیکس، قیمتی جائیداد پر ٹیکس یا اسی قسم کے دیگر ٹیکس لگا کر ملک کے امیر ترین طبقہ کو فوری طور سے 500 سے ایک ہزار ارب روپے تک قومی معیشت میں شامل کرنے پر مجبور کیا جائے۔ یہ فیصلے مسلط کرتے ہوئے سیاسی ضرورتوں، تعلق داری اور اثر و رسوخ ماننے سے انکار کیا جائے۔

2۔ پی آئی اے، اسٹیل مل اور ایسے ہی چند ایسے قومی ’اثاثوں‘ کو فوری طور سے نجی شعبہ کے حوالے کیا جائے تاکہ ان پر صرف ہونے والے کئی سو ارب روپے بچائے جا سکیں۔

3۔ ملک میں اجناس اور خاص طور سے گندم کی تقسیم و ترسیل میں منافع خوری کرنے والا نظام ختم کیا جائے اور سرکاری اور مارکیٹ ریٹ کے درمیان موجود فرق کو اپنی جیب میں ڈالنے والے عناصر کا سختی سے قلع قمع کیا جائے تاکہ کم از کم گندم اسی نرخ عوام تک پہنچ سکے جس پر حکومت اسے فراہم کرتی ہے۔

4۔ پراپرٹی کے کاروبار کی تطہیر کے لئے فوری طور سے اعلیٰ سطحی کمیٹی بنائی جائے اور چند ہفتوں کے دوران ٹھوس اور موثر فیصلے کر کے اس شعبہ کو حاصل مراعات کا خاتمہ کیا جائے۔ اس شعبہ میں منافع خوری کے رجحان نے ایک طرف ملکی سرمایہ منجمد کر دیا ہے تو دوسری طرف یہ شعبہ کالے دھن کا سب سے بڑا مرکز بنا ہوا ہے۔

5۔ تاجروں یا ٹریڈرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لئے سیاسی مفاہمت کی بجائے قومی حمیت و ضرورت کے نام پر فیصلے کیے جائیں اور انہیں کسی لحاظ کے بغیر نافذ کروانے کا اقدام کیا جائے۔

6۔ زرعی شعبہ کو ٹیکس سے چھوٹ اور بعض برآمدی شعبوں کو سبسڈی کے نام پر کھربوں روپے کی فراہمی ختم کرنے کے لئے فوری فیصلے کیے جائیں اور انہیں نافذ کرنے کا شفاف میکنزم بنایا جائے۔

7۔ عسکری، سول بیورو کریسی اور سیاسی جماعتوں کے ارکان پر مشتمل ایسی با اختیار کمیٹی بنائی جائے جو فوری طور سے ملکی دفاعی صلاحیت پر مفاہمت کے بغیر دفاعی اخراجات میں کمی کے لئے تجاویز تیار کرے۔ ان میں عسکری اداروں کی صنعتوں، تعمیراتی منصوبوں اور تنخواہ و سہولتوں کے سوا غیر ضروری مراعات دینے کا از سر نو جائزہ لیا جائے۔

نواز شریف اگر یہ اعلانات کرنے کا حوصلہ کرسکیں اور ان میں سے بعض فیصلوں پر عملی اقدامات ہوتے بھی دکھائی دینے لگیں تو انہیں یقین کرنا چاہیے کہ کسی ’الیکٹ ایبل‘ کی حمایت اور کسی گروہ کی تائید کے باوجود عوام کی کثیر تعداد پارٹی کو ووٹ دینے پر آمادہ ہوگی۔ لیکن اگر نون لیگ نے دشنام طرازی، اقربا پروری اور ناقص قوت فیصلہ کا مظاہرہ جاری رکھا تو بہتر ہو گا کہ نواز شریف کے علاوہ خاندان کے دیگر لوگ بھی ملک سے باہر اپنی پناہ گاہوں میں لوٹ جائیں اور پاکستان کو بھول جائیں۔ اگر وہ پاکستان کو کچھ نہیں دے سکتے تو پاکستانی عوام کے پاس بھی اب شریف خاندان کو دینے کے لئے کچھ نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments