نعرۂ تکبیر کی گونج میں پہلے دستور کی منظوری


دستور ساز اسمبلی نے ستمبر 1954 ء کے اجلاس میں بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی رپورٹ منظور کر لی اور وزیراعظم بوگرہ نے توقع ظاہر کی کہ دستور 25 دسمبر کو نافذ ہو جائے گا جو قائداعظم کا یوم پیدائش ہے۔ اس کے ساتھ غیرمعمولی عجلت میں 1935 ء کے ایکٹ میں ترمیم کر کے اعلیٰ عدالتوں کو رٹ جاری کرنے کے اختیارات تفویض کر دیے گئے۔ اس ایکٹ میں یہ ترمیم بھی کی گئی کہ گورنر جنرل کابینہ کے مشورے کا پابند ہو گا اور کابینہ اجتماعی طور پر مقننہ کے سامنے جواب دہ ہو گی۔

طے شدہ منصوبے کے تحت، یہ ترامیم چند ہی گھنٹوں کے اندر اندر اسپیکر کے دستخطوں کے بعد سرکاری گزٹ میں شائع بھی کر دی گئیں۔ گورنر جنرل غلام محمد اپنے اختیارات کے محدود ہو جانے پر بہت سیخ پا ہوئے اور انہوں نے 24 ؍اکتوبر کو پورے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی اور اعلان کیا کہ دستور ساز اسمبلی عوام کا اعتماد کھو چکی ہے، اس لیے وہ تحلیل کر دی گئی ہے۔ یوں انتہائی غیرآئینی اقدام کے باعث ایک اچھا دستور نافذ ہونے سے رہ گیا اور دستور سازی کا عمل نت نئی مشکلات سے دوچار اور ملکی سالمیت پر اثرانداز ہوتا گیا۔

گورنر جنرل نے ”باصلاحیت افراد“ (Talented Persons) پر مشتمل کابینہ وزیراعظم بوگرہ کی سربراہی میں تشکیل دی جس میں کمانڈر ان چیف جنرل ایوب خاں کو دفاع اور میجر جنرل سکندر مرزا کو داخلہ کے قلم دان سونپ دیے گئے۔ ان کے علاوہ صوبہ سرحد سے ڈاکٹر خان اور مشرقی پاکستان سے جناب سہروردی بھی وزیر بنائے گئے۔ سہروردی صاحب کو قانون کا قلم دان سونپا گیا اور انہوں نے فوری طور پر آئین کا ڈرافٹ تیار کرنا شروع کر دیا۔ اسپیکر قومی اسمبلی مولوی تمیزالدین خان نے گورنر جنرل کے اقدام کو سندھ چیف کورٹ میں چیلنج کر دیا جس نے گورنر جنرل کے اقدام کو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے اسپیکر قومی اسمبلی کو اپنے منصبی فرائض ادا کرتے رہنے کا حکم صادر کیا۔

اس فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت نے فیڈرل کورٹ میں اپیل دائر کی۔ وفاقی عدالت کے پانچ رکنی بینچ، جس کے سربراہ چیف جسٹس محمد منیر تھے، اس نے ایک کے مقابلے میں چار کی اکثریت سے ٹیکنیکل گراؤنڈ پر حکومت کے اقدام کو جائز قرار دے دیا۔ فاضل جسٹس اے آر کارنیلیس نے ایک انتہائی مدلل اختلافی نوٹ لکھا جس کے آگے چاروں معزز جج صاحبان کے دلائل بہت ہی کمزور محسوس ہوئے۔

دستور ساز اسمبلی کی تحلیل کے مقدمے میں فیڈرل کورٹ نے فیصلہ دیا کہ دستور ساز اسمبلی جو بل منظور کرتی آئی ہے، اسے قانون بننے کے لیے گورنر جنرل کے دستخط لازمی تھے۔ اس فیصلے کی رو سے 46 قوانین کالعدم قرار پائے جنہیں گورنر جنرل کی منظوری (Assent) حاصل نہیں تھی، چنانچہ درجنوں قوانین کے یک لخت کالعدم ہونے سے ہولناک خلا پیدا ہو گیا۔ ان میں وہ قوانین بھی شامل تھے جن کے تحت راولپنڈی سازش کیس کے ملزموں کو سزائیں ہوئی تھیں اور وہ بھی جن کی رو سے سید ابوالاعلیٰ مودودی کی سزائے موت عمرقید میں تبدیل ہوئی تھی۔

یوں لگ رہا تھا جیسے پورا نظام حکومت منہدم ہو جائے گا۔ اس انتہائی خطرناک صورت حال سے نمٹنے کے لیے گورنر جنرل نے آرڈیننس کے ذریعے 35 عدد قوانین بحال کر دیے، مگر اس کے خلاف فیڈرل کورٹ نے رولنگ دی کہ صرف منتخب دستور ساز اسمبلی ہی کالعدم قوانین کی موثر بہ ماضی منظوری دے سکتی ہے، چنانچہ اس پر بہت سنگین بحران اٹھ کھڑا ہوا اور چیف جسٹس محمد منیر نے تباہی کے گڑھے کو عبور کرنے کے لیے ”نظریۂ ضرورت“ ایجاد کیا جس سے فوجی قیادت کو بار بار دستور منسوخ کرنے کا سہارا ملتا رہا۔

فیڈرل کورٹ کے حکم پر نئی دستور ساز اسمبلی وجود میں آئی جس میں مشرقی بنگال کی دو بہت مقبول سیاسی شخصیتیں منتخب ہو کر آئیں۔ جناب حسین شہید سہروردی اور مولوی فضل الحق۔ اسی کے ایوان میں مسلم لیگ کی 26 نشستیں تھیں جو سب سے بڑی جماعت ہونے کے باوجود قطعی اکثریت سے محروم رہی۔ دوسری جماعتوں میں کرشک سرامک نے 16 ؍اور عوامی لیگ نے 13 نشستیں جیت لیں جبکہ چھوٹے چھوٹے گروپس کے ایک، دو، تین اور چار نمائندے بھی آ گئے۔

اس صورت حال میں ایک مخلوط حکومت ہی بن سکتی تھی۔ پہلی کوشش میں مسلم لیگ اور کرشک سرامک نے مخلوط حکومت بنائی جس کے چودھری محمد علی وزیراعظم چنے گئے۔ مولوی اے کے فضل الحق اور وزیراعظم کی شبانہ روز کاوشوں سے دونوں بازوؤں کے سیاست دانوں کے مابین اس امر پر سمجھوتہ ہو گیا کہ ایک ایوانی مقننہ میں دونوں بازوؤں کی نمائندگی مساوی ہو گی۔ آئین سازی کے نقطۂ نظر سے یہ بہت بڑا بریک تھرو تھا، کیونکہ اب تک دستور سازی میں تاخیر اس لیے بھی ہو رہی تھی کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے مابین نشستوں کا تناسب طے نہیں ہو پا رہا تھا، کیونکہ ایک بازو کی آبادی زیادہ تھی جبکہ دوسرے بازو کا رقبہ اور انتظامی اور فوجی وسائل زیادہ تھے۔

مشرقی پاکستان نے بڑے ایثار کا مظاہرہ کیا تھا جس کی بہت قدر کی جانی چاہیے تھی۔ اس وقت وزیراعظم چودھری محمد علی دستور سازی کے عمل کو جلد سے جلد پایۂ تکمیل تک پہنچانے پر خصوصی توجہ دے رہے تھے۔ مشرقی پاکستان کے قائدین کے تعاون سے آئین کی تدوین میں تیزی آ گئی تھی۔ حسن اتفاق سے 1956 ء میں فروری کا مہینہ 29 دن کا تھا اور دستور ساز اسمبلی کا اجلاس مہینہ ختم ہونے سے چند منٹ پہلے تک جاری رہا۔ تب اسپیکر نے اعلان کیا کہ دستور پاس ہو گیا ہے۔

اس اعلان کا ارکان نے نعرۂ تکبیر اللہ اکبر کے ولولہ انگیز نعروں سے خیرمقدم کیا۔ سہروردی اور عوامی لیگ نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا، لیکن چھ ماہ بعد ہی انہوں نے اسی آئین کے تحت وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا اور اسے نہایت اچھا دستور قرار دیا۔ اسپیکر صاحب نے مسودے پر دستخط ثبت کیے اور آئین 23 مارچ 1956 ء کو نافذ ہو گیا۔ اسی تاریخ کو قرارداد لاہور منظور ہوئی تھی۔ عوام کے اندر فقید المثال جوش و خروش پایا جاتا تھا کہ ان کا ملک ڈومینین کے درجے سے بلند ہو کر ”اسلامی جمہوریہ“ کے رتبے پر فائز ہو گیا ہے اور تاج برطانیہ سے مکمل طور پر چھٹکارا پا چکا ہے۔ اس حیات افروز موقع پر پوری قوم اپنے خالق حقیقی کا شکر بجا لائی تھی۔ (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments