مرشد اور عمر و عیار میں فرق تلاش کریں


بچپن سے کچھ اس قسم کے ماورائی جملے ہمیں ازبر ہوتے ہیں کہ جو مرشد کامل ہوتا ہے وہ کچھ اس قسم کی ماورائی خصوصیات کا سرچشمہ ہوتا ہے مثلاً

تمام ہوس و حرص سے آزاد ہو جاتا ہے۔
نفسانی غلاظتوں اور کدورتوں سے خلاصی پا جاتا ہے۔
دنیاوی لذتوں، آسائشوں اور ہر قسم کے بکھیڑوں سے ناآشنا ہو جاتا ہے۔
سادگی و فقر کا استعارہ بن جاتا ہے۔
دنیاوی تمکنت و جاہ و دولت سے پیچھا چھڑانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔
ایسے بندے کی دعائیں بانجھ زمینوں میں ہریالی اور دکھی دلوں میں آس و امید کے الاؤ روشن کر دیتی ہیں۔
اس قسم کا بندہ تمام قسم کے دنیاوی خوف سے آزاد ہو جاتا ہے۔

مگر نگاہوں کو انتظار آج تک ہے کہ اس قسم کے نایاب اور چنیدہ مہان کہاں پائے جاتے ہیں؟ ہم نے تو ہر جگہ ہوس زر اور ہوس اقتدار میں لتھڑے پارسا ہی دیکھے ہیں اور یہ تماشا شب و روز دیکھتے آرہے ہیں کہ جو قرب خداوندی کا دعویٰ رکھتے ہیں ان کے عالیشان محلوں میں رزق و دولت کی فراوانی رہتی ہے جبکہ ان کے آستانوں سے چپکے یا امید لگائے بیٹھے لوگ دو وقت کی روٹی کو ترستے رہتے ہیں، سوچتے ہیں کہ کیا دونوں کا مالک ایک ہی ہے یا مختلف؟

اگر مالکان مساجد و مدارس اور آستانوں کا خدا بھی وہی ہے جو سڑکوں چوراہوں پہ شودروں کی طرح زندگی گزارنے والے عوام کا ہے تو پھر طرز زندگی و معاشرت میں اتنا تضاد کیوں؟

آستانوں اور محراب و ممبر والوں کے وارے نیارے جبکہ انہی مقدس آماج گاہوں پر باقاعدگی سے حاضری دینے والوں کے مقدر میں اتنی تاریکی کیوں؟ سننے میں تو اس قسم کی باتیں بہت ہی دلکش لگتی ہیں اور کانوں میں ایک میٹھا سا رس گھول دیتی ہیں کہ

”جو مرشد کامل ہوتا ہے وہ ہر طرح کی دنیاوی غلاظتوں اور پلیدگی سے نجات پا لیتا ہے اور اسے دنیاوی لذتوں میں کوئی دلچسپی نہیں رہتی بلکہ وہ اپنے جمع شدہ مال کو بھی مستحقین میں بانٹ دیتا ہے ظاہر ہے جب طلب ہی نہ رہی تو جمع شدہ مال کی کیا حیثیت“ ؟ سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا حقیقت میں ایسا ممکن ہے اور اس طرح کی مخلوق کہاں پائی جاتی ہے؟

ہمارے علاقہ میں ایک صوفی صاحب ہوا کرتے تھے جنہیں ان کے مریدین ”صوفی کامل“ کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے، یہ ان دنوں کی باتیں ہیں جب ہمیں بھی کسی ”کامل“ کی تلاش تھی انہی چکروں میں کم از کم آٹھ یا دس کاملین سے ملنے کا اتفاق ہوا سب جگہوں سے ناکام لوٹنے کے بعد آخر میں قرعہ فال انہی صوفی کامل کے نام نکلا تھا۔ مگر کچھ بھی مختلف برآمد نہ ہوا سوائے ذرا سی مختلف قسم کی رنگ بازی کے، باقی سب پچھلوں کا ہی تسلسل تھا۔ صوفی صاحب کے پاس اس دور میں وہ سب کچھ تھا جس سے آج بھی لاکھوں لوگ محروم ہیں۔ سسرال والے انگلینڈ آباد تھے، برادر نسبتی جب کبھی اصرار کرتے کہ

صوفی صاحب آپ بھی ہمارے پاس انگلینڈ منتقل ہو جائیں سپانسر کر دیں گے تو جواب میں انتہائی کراہت و نفرت سے کہا کرتے تھے کہ
“وہاں کافر و مشرک بستے ہیں مجھے ایسے پلید لوگوں سے دور ہی رکھیں۔”

مگر جو بتانے والی بات ہے وہ انتہائی دلچسپ اور غور طلب ہے، موصوف نے دو حج اور تین عمروں کی سعادت حاصل کر رکھی تھی اپنے خرچے پر نہیں بلکہ برادر نسبتی انگلینڈ سے رقم بھجوایا کرتے تھے۔ دوست احباب نے ایک بار دریافت کر ہی لیا کہ “صوفی صاحب جب سرزمین انگلینڈ کافروں اور ناپاک لوگوں کی آماجگاہ ہے تو وہاں کی آمدن کیسے پاک یا حلال ہو سکتی ہے؟ آپ نے تو اسی آمدن سے حج و عمرے ادا فرمائے ہیں؟”

صوفی صاحب کی پرہیزگاری پر مبنی لوجک و پارسائی ملاحظہ فرمائیں۔ فرمانے لگے “جب برادر نسبتی مجھے انگلینڈ سے پیسے بھیجتے ہیں تو میں وہی پیسے کسی مالدار زمیندار سے ایکسچینج کر کے وائٹ یا پاک کروا لیتا ہوں، مطلب انگلینڈ والی آمدن کسی زمیندار کے پاس چلی جاتی ہے اور اس کی آمدن میرے پاس آ جاتی ہے۔”

وہ ان چکر بازیوں کے جواز میں علماء کے مختلف فتاویٰ بھی دکھایا کرتے تھے جس میں اس قسم کی گنجائش موجود ہوتی تھی۔ آنکھوں دیکھا احوال بتانے کا مقصد یہ ہے کہ صاحبان تقوی یا قرب قدرت کا دعوی رکھنے والے ہماری سوچ سے بھی زیادہ شاطر اور چالاک ہوتے ہیں اور موقع کی مناسبت سے اور من چاہی کے حساب سے ”چیری پک“ کرلیتے ہیں اور کسی کو کانوں کان بھنک بھی نہیں لگنے دیتے۔ اب اسے چالاکیاں سمجھیں یا ہماری کم علمی یا ضعیف الاعتقادی کہیں مگر ہم نے تو بڑے بڑے ڈگری والوں یا بظاہر پڑھے لکھے لوگوں کو اس قسم کے شعبدہ بازوں کے آگے سرنگوں پایا ہے۔

بہت سے آکسفورڈین کو انہی راہوں کا اسیر پایا ہے، حال ہی میں ہمارے ایک سابق وزیراعظم بھی انہی روحانی راہداریوں کی غلام گردشوں میں الجھے رہے اور بعد میں عقدہ کھلا کہ دنیا سے بے اعتنائی یا جی نہ لگانے کا درس دینے والے مرشد پورے کا پورا توشہ خانہ ہی لے اڑے، ڈائمنڈ کے درجنوں ہار، انگوٹھیاں اور درجنوں مہنگے ترین پلاٹ اور گاڑیاں علاوہ ازیں ہیں۔ سوچتا ہوں عمرو عیار اور مرشد میں کیا قدر مشترک ہوتا ہے؟ عمر و عیار کے پاس ایک زنبیل ہوتی تھی جس میں سے وہ جو چاہتا تھا نکال دیا کرتا تھا اگرچہ حقیقت میں ایسا ممکن نہیں ہوتا سب شعبدہ بازی اور ہاتھ کا کمال ہوتا ہے، بالکل اسی طرح سے ہمیں بھی یہ لگتا ہے کہ مرشد کی روحانی زنبیل ہر وقت خزانوں سے بھری رہتی ہے اور اپنی دعاؤں یا قرب کی وجہ سے دوسروں کو بھی نوازتا رہتا ہے۔ سب عقیدتوں کا شاخسانہ ہے اور عقیدتوں میں سرنگوں ہونے کی وجہ سے ایک بہت بڑی حقیقت ہماری نظروں سے اوجھل رہتی ہے کہ مرشد کی روحانی زنبیل ہمارے نذرانوں سے ہری بھری رہتی ہے اور اس کی سپلائی لائن ہماری جیب سے جڑی ہوتی ہے۔

اس سے بڑی قابل غور بات یہ ہے کہ مرشد کی مشہوری میں مرشد کا کردار زیرو یا نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے سب مریدین کا کیا دھرا ہوتا ہے جو ان کے متعلق روحانی قصہ خوانیاں کر کے انہیں اوتاری مچان پر پہنچا دیتے ہیں، حقیقت میں تو ہم جیسے ہی ہوتے ہیں صرف ٹیگ کا فرق ہوتا ہے۔ عقیدت کی عینک اتار کر دیکھیں گے تو منظر بالکل صاف ہو جائے گا اور عقیدت کی اسموک سکرین ہٹنے پر کہانی کھل جائے گی کہ جو ”قربت“ کا چکر ہے وہ دنیا داری کے گرد ہی گھومتا رہتا ہے۔ اسی لئے تو یہ ہمارے روحانی مہان دنیا سے لاتعلق ہوتے ہوئے بھی دنیا کو بڑے ٹھاٹ سے انجوائے کر رہے ہوتے ہیں، ایسی عالیشان دنیا جہاں ہم جیسے گنہگاروں کا گزر بھی ناممکن ہے۔ اگر دعاؤں میں اثر ہوتا تو طارق جمیل کا گڑ گڑا کے رونا اس قوم و ملک کا مقدر سنوار دیتا، اگر واقعی یہ لوگ دنیاوی خوف سے آ زاد ہوتے تو کبھی بندوقوں کے سائے میں گھر سے نہ نکلتے اور ایک مشہور روحانی ہستی کے فرمانبردار و تابعدار مرید کی رہائش گاہ کے کے شیشے بلٹ پروف نہ ہوتے۔
نگاہیں ڈھونڈتی رہیں ایسے دنیا اچاٹ مہانوں کو، ہم نے تو ہر ایک کو عمرو عیار ہی پایا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments