اسحاق ڈار اس قوم کو معاف کردو!


عدالت نے فواد چوہدری کو ضمانت پر رہا کیا تو اسلام آباد پولیس نے رات گئے عوامی مسلم لیگ کے صدر شیخ رشید کو گرفتار کر لیا۔ انہیں آصف زرداری پر عمران خان کے قتل کی سازش کرنے کا بیان دینے پر پکڑا گیا ہے۔ انہیں دو روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے بھی کر دیا گیا ہے۔ اس دوران ایف آئی اے نے لاہور ائرپورٹ سے عمران خان کے حامی صحافی و اینکر پرسن عمران ریاض کو گرفتار کر لیا ہے۔ پھر بھی دعوی ہے کہ اس ملک میں جمہوریت اور قرآن و سنت کا نظام نافذ کرنا ہی حکومت وقت کا سب سے بڑا مقصد ہے۔

آصف زرداری پر اپنے قتل کی سازش کرنے اور دہشت گردوں سے رابطہ کرنے کا الزام عمران خان نے ایک ٹی وی بیان میں براہ راست عائد کیا تھا۔ انہوں نے اپنے بیان کی تائید میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا اور دو روز بعد اصرار بھی کیا کہ وہ اپنے بیان پر قائم ہیں۔ آصف زرداری اب اس بیان پر عمران خان کو قانونی نوٹس بھی بھجوا چکے ہیں۔ شیخ رشید نے ایک تابعدار حامی کی طرح آصف زرداری پر عمران خان کے الزام کو دہرا کر درحقیقت ’حق نمک‘ ادا کرنے اور تحریک انصاف کے چئیر مین سے وفاداری کا اظہار کرنے کی ’معصومانہ‘ کوشش کی تھی۔

سیاسی یا انتظامی مجبوریوں کی وجہ سے وفاقی حکومت عمران خان پر تو ہاتھ ڈالنے سے گھبرا رہی ہے لیکن ان کے حامیوں میں دوسرے درجے کے لیڈروں کو نفرت پھیلانے یا اداروں پر الزام لگانے جیسے بے معنی الزامات کے تحت گرفتار کر کے سیاسی ماحول میں اشتعال ضرور پیدا کر رہی ہے۔ شہباز شریف کی حکومت کے تازہ ترین اقدامات سے ثابت ہوتا ہے کہ برسر اقتدار پارٹیوں نے دہائیوں تک سیاست میں جھک مارنے کے باوجود نہ تو جمہوریت کو قبول کیا ہے اور نہ ہی بنیادی آزادیوں کے احترام کا رویہ اختیار کیا ہے۔ ایسے ماحول میں حکومت میں کوئی بھی ہو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

تحریک انصاف کے دور میں نواز لیگ کے لیڈروں کے علاوہ اس پارٹی کے حامی سمجھے جانے والے صحافیوں کو ہراساں کیا جاتا رہا ہے۔ اب وہی کام شہباز حکومت کر رہی ہے۔ عمران خان اسے بنیادی آزادیوں کا قتل عام قرار دے کر صدر مملکت سے ’مسلح افواج کے سپریم کمانڈر‘ کے طور پر صورت حال کا نوٹس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تو دوسری طرف وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا دعویٰ ہے کہ جس نے جرم کیا ہے، اسے اس کا جواب تو دینا پڑے گا۔

یہ ملک رانا ثنا اللہ اور اس قبیل کے لیڈروں کی ذاتی دشمنیوں کا انتقام لینے میں ضائع کیا جا رہا ہے۔ اس صورت حال میں کیا کوئی ذی ہوش یہ سوچ سکتا ہے کہ یہ وہی ملک ہے، جو پائی پائی کو محتاج ہے اور آئندہ چند ماہ کے دوران نو دس ارب ڈالر قرض کی اقساط ادا کرنے کے لئے اس وقت اسلام آباد میں موجود آئی ایم ایف کے وفد کو یہ یقین دلانے میں مصروف ہے کہ ان کے سب تقاضے اور شرائط منظور کی جائیں گی، بس کسی طرح ہمیں ’معاشی صحت‘ کا سرٹیفکیٹ عطا کر دیا جائے تاکہ اس کی بنیاد پر دوسرے ممالک اور اداروں سے مالی وسائل جمع کر کے کسی طرح ’ڈیفالٹ‘ سے بچا جائے۔

معاشی تباہی کی اس انتہا پر پہنچی ہوئی حکومت کے زیر انتظام ادارے بھی اگر گھٹیا سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے بے معنی گرفتاریوں اور بیان بازی سے اجتناب نہیں کر سکتے تو یہ جان لینا چاہیے کہ ملک کے حکمران عوام میں مشکلات اور ملکی مسائل کے بارے میں گلو گیر آواز اور دکھ بھرے انداز میں جو بیان بازی کرتے ہیں، وہ اداکاری کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یہ اشرافیہ صرف اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ملک پر مسلط ہے اور اپنی کسی غلطی کو تسلیم کرنے کے کی بجائے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا کر عوام کے سامنے دن رات تماشا رچایا جاتا ہے۔ کیا اس ملک کے سیاست دان واقعی عقل سے اس حد تک پیدل ہیں کہ وہ یہ بھی سمجھنے سے قاصر ہیں کہ عوام ان سب پرفریب باتوں کو بخوبی سمجھتے ہیں لیکن انہیں معاشی مجبوریوں اور حالات کی زنجیروں میں یوں باندھ دیا گیا ہے کہ اب وہ احتجاج کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔ کوئی مزدور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لئے دیہاڑی لگائے گا یا کسی پارٹی کا بینر اٹھا کر کسی لانگ مارچ یا دھرنے میں شریک ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ برسوں میں جتنے بھی سیاسی احتجاج، لانگ مارچ یا دھرنے دیکھنے میں آئے ہیں ان میں دولت اور سیاسی و سماجی اثر و رسوخ کی وجہ سے جمع کیے ہوئے لوگ ہی شامل ہوتے رہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان ہوں، بلاول بھٹو زرداری ہوں، مریم نواز ہوں یا احتجاج کے ’بادشاہ‘ عمران خان ہوں، عوامی طاقت کا کوئی بھرپور مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے۔ وجہ اس کی سادہ ہے کہ عوام سیاست دانوں کی عیاریوں سے آگاہ ہیں اور اقتدار کے کھیل میں ان کے معاون بننا نہیں چاہتے۔ لیکن حیف سیاست دان عوامی رویہ میں رونما ہونے والی یہ سادہ سی تبدیلی بھی نوٹ نہیں کرسکے۔

بڑے سے بڑا لیڈر یا پارٹی احتجاج کے لئے دور دراز علاقوں سے مفت ٹرانسپورٹ میں مفت طعام کی سہولت کے وعدے پر لوگوں کو جمع کرتا ہے۔ اس وقت ملک میں ایک بھی ایسا لیڈر نہیں جو اپنی کال پر کسی ایک شہر میں بھی چند ہزار لوگ جمع کر لینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ لیکن ان کی تقریریں اور باتیں سنی جائیں تو سونامی سے لے کر عرش ہلا دینے تک کی صلاحیت کا دعویٰ کرتے پائے جائیں گے۔ لیکن جس دن مجبور و بے کس عوام کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا تو وہ کسی ایک پارٹی کے جھنڈے یا لیڈر کی معیت میں نہیں ہو گا بلکہ وہ ان سب کا پیچھا کر رہا ہو گا۔ اور یہ لیڈر اپنے جھوٹے بیانات اور احمقانہ فیصلوں سمیت عوام سے منہ چھپاتے پھررہے ہوں گے۔

اب اپنے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا معاملہ ہی دیکھ لیجیے۔ چار ماہ پہلے وزارت خزانہ کا چارج سنبھالنے کے بعد انہوں نے جو بھیانک غلطیاں کیں، ان پر ندامت و شرمندگی کا ایک لفظ تک سننے میں نہیں آیا۔ اسحاق ڈار، نواز شریف کا سمدھی ہونے کی وجہ سے اس وقت 23 کروڑ عوام کی مالی قسمت کے والی وارث بنے ہوئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے پاس کوئی ایسا جواز نہیں ہے کہ وہ یہ بتا سکے کہ مفتاح اسماعیل کو اچانک ہٹا کر اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ بنانے کی کیا ضرورت تھی؟ اسحاق ڈار نے وزیر خزانہ بن کر کیا کیا؟

جعلی ہتھکنڈوں سے روپے کی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کی کوشش کی یعنی ڈالر کی قیمت کم رکھنے کے لئے مارکیٹ پر دباؤ ڈالا۔ اس کے نتیجے میں ایک تو آئی ایم ایف سے کیا ہوا معاہدہ خطرے میں پڑ گیا تو دوسری طرف ڈالر کی متعدد شرحیں مقرر ہونے کی وجہ سے معاشی بحران شدید ہوا۔ اس کے علاوہ اسحاق ڈار نے ’میں آئی ایم ایف سے نمٹنا جانتا ہوں‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے پیٹرولیم مصنوعات اور گیس وغیرہ کی قیمتوں کو منڈی کے بھاؤ پر دینے کی بجائے سبسڈی کا سلسلہ جاری رکھنے پر اصرار کیا۔ یوں آئی ایم ایف سے معاہدہ تعطل کا شکار ہوا اور عالمی ادارے نے طے شدہ معاہدے کی شرائط پوری نہ ہونے پر قرض کی مزید قسط ادا کرنے سے انکار کر دیا۔

اسحاق ڈار جب کشکول لے کر سعودی عرب، امارات یا چین کے پاس گئے تو انہوں نے بھی آئی ایم ایف سے معاہدہ پورا کرنے سے پہلے کوئی امداد دینے سے صاف انکار کر دیا۔ چار ماہ کی ہزیمت کے بعد اب وہی اسحاق ڈار اسی ’مہارت‘ کے ساتھ آئی ایم ایف کو یقین دلا رہے ہیں کہ بس آپ نواں جائزہ مکمل کریں، ہمیں ساری شرطیں منظور ہیں۔

ماہرین کے محتاط اندازوں کے مطابق اسحاق ڈار کی عاقبت نا اندیشی کی وجہ سے ملک کو ان چار ماہ میں ترسیلات زر، برآمدات اور درآمدات میں مشکلات کی وجہ سے کم از کم چھ ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ درحقیقت یہ نقصان اس سے کہیں زیادہ ہے۔ البتہ سب سے بڑا نقصان مالی خسارے سے زیادہ بطور مملکت و ریاست پاکستان کی شہرت و ساکھ کو پہنچا ہے۔ شہباز شریف نے یہ دعوے کرتے ہوئے حکومت سنبھالی تھی کہ سابقہ حکومت نے عالمی اداروں اور دوست ممالک کے ساتھ کیے ہوئے وعدے پورے نہ کر کے ملکی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ لیکن وہ اس سوال کا جواب دینے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ جو نقصان ان کے اپنے وزیر خزانہ نے ملکی معیشت و ساکھ کو پہنچایا ہے، اس پر کس کا گریبان پکڑا جائے؟ آخر کب تک عمران خان پر الزامات لگا کر اپنی کوتاہیوں کو چھپایا جاسکتا ہے۔

اس پر مستزاد اب ہمارے ’محبوب‘ وزیر خزانہ ملک سے سودی نظام ختم کرنے کا مقدس مشن لے کر میدان میں اترے ہیں۔ کراچی میں منعقد ہونے والی نیشنل اسلامک اکنامک کانفرنس میں ویڈیو لنک سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ ’پاکستان میں اسلامی نظامِ معیشت کا کام میرے دل کے قریب ہے۔ خواہش ہے کہ ملک سے جلد سودی نظام کا خاتمہ ہو۔ ہمیں اللہ سے توبہ کرنی چاہیے، ہم بہت کمزور ہیں۔ سودی نظام کو فروغ دے کر اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ نہیں لڑ سکتے۔ ہم سرنڈر کریں اور کوشش کریں۔ اللہ برکت دے گا‘ ۔

اسحاق ڈار کو اگر سودی نظام کے خلاف ’جہاد‘ کرنا ہے تو وہ ایک ایسے عہدے سے کیوں چمٹے ہوئے ہیں جس میں انہیں ملک کے نام نہاد ’سودی نظام‘ کا دفاع کرنا پڑتا ہے۔ کیا آئی ایم ایف کے وفد سے بات چیت کے دوران ’سود نہیں دیں گے‘ کا نعرہ بھی ان کی ورکنگ شیٹ پر لکھا ہوتا ہے؟ اسحاق ڈار کا خیال ہے کہ اپنی فاش معاشی غلطیوں، سنگین نقصان دہ فیصلوں سے انہوں نے عوام کو شدید مہنگائی کا جو تحفہ دیا ہے، وہ مذہب کی آڑ میں اپنے اس گناہ کا مداوا کر سکتے ہیں۔ یہ افسوسناک رویہ ہے۔ سودی یا غیر سودی نظام کے معاملہ کو جب ایک ایسے وقت میں سیاسی مباحث کا حصہ بنانے کی کوشش کی جائے گی جب مذہبی شدت پسندی کی وجہ سے روزانہ کی بنیاد پر دہشت گردی کے واقعات رونما ہو رہے ہوں، تو ایسی گفتگو کی ہلاکت خیزی کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

اسحاق ڈار بڑے شوق سے ملک میں سودی نظام لانے کی جد و جہد کریں لیکن وہ یہ کام ذاتی حیثیت میں کریں۔ ملک کی وزارت خزانہ کے سربراہ کے طور پر انہیں اس نظام کے خلاف بولنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے جس کے دفاع کے علاوہ اسے مستحکم کرنے کی ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ کی کوشش اسی ذمہ داری کا ایک نمونہ ہے۔ شہباز شریف اپنی کم حوصلگی اور نواز شریف رشتے داری کی وجہ سے شاید اسحاق ڈار کو برطرف نہیں کریں گے لیکن وہ خود سودی نظام کے خلاف جس مشن کا اعلان کر رہے ہیں، اس کا تقاضا ہے کہ وہ یہ عہدہ چھوڑیں تاکہ وہ اللہ کو منہ دکھانے کے قابل ہو سکیں۔ یوں ایک نا اہل، ناعاقبت اندیش اور مفاد پرست وزیر خزانہ سے عوام کی جان بھی چھوٹ جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2771 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments