خالد سہیل، سارہ علی اور عارف عبدالمتین


یہ سن 2016 کی بات ہے جب میں نے ہم سب پر ڈاکٹر خالد سہیل کو پڑھنا شروع کیا ان کی تحریروں کے اچھوتے موضوعات اور ان کے سادہ لیکن مدلل انداز تحریر نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا، ڈاکٹر صاحب کی تحریریں ہندوستانی تھالی کی طرح ہوتی ہیں جس میں نفسیات، فلسفہ، موسیقی، ادب، زندگی، جدوجہد ہر چیز کا فلیور موجود ہوتا ہے لیکن میرے لیے حیران کن بات ان تحریروں میں لکھے گی خیالات سے میری ذہنی ہم آہنگی تھی مجھے یوں لگتا تھا کہ کسی نے میرے خیالات کو لفظوں میں ڈھال دیا ہے اور دوسری اہم چیز تشنگی کا احساس تھا ہر کالم پڑھ کے لگتا کہ ابھی ڈاکٹر صاحب کو اور لکھنا چاہیے تھا کہ اس مضمون پر ان کی گرفت بہت مضبوط ہے اس لیے خیال آتا کہ اگر میں ان سے مل کر بات کر سجوں تو شاید یہ تشنگی دور ہو سکے۔

ان کے ایک مضمون جو فیملی آف ہارٹ کے نام سے تھا اس نے مجھے بہت متاثر کیا کہ فیملی کا یہ کانسپیٹ کے یہ صرف بلڈ ریلیشن سے ممکن ہے میرے لیے خاصا مایوس کن ہے، اس کا یہ خیال کے آپ اپنی مرضی کا خاندان اپنی ذات کی ارتقاء کے مطابق تشکیل دے سکتے ہیں میرے لیے بہت پرکشش تھا، کہ میں انسانی شعور کی ارتقاء پر یقین رکھتی ہوں اور اس نظریے کی قائل ہوں کہ عمر کے ساتھ انسانی ذہن اور سوچ میں تبدیلی آتی ہے اور ضروری نہیں کہ جو فیصلے، رشتے اور، دوستیاں ہمیں بیس سال کی عمر میں ٹھیک لگیں وہ ساری عمر ٹھیک لگیں اس لیے ہر انسان کے پاس اتنی اسپیس ہونی چاہیے کہ وہ اپنے اردگرد اپنی مرضی کے لوگوں کو اکٹھا کر سکے۔

اس لیے جب کینیڈا امیگریشن کا فیصلہ کیا تو ایک ذہن میں خیال تھا کہ ”ارے وہاں تو ڈاکٹر خالد سہیل بھی رہتے ہیں“ ، جیسے جب میں جہاز سے اتروں گی تو ڈاکٹر صاحب پیرسن ائرپورٹ پر مجھے رسیو کرنے کے لیے کھڑے ہوں گے۔ کینیڈا آ کر کچھ عرصہ بوکھلائی بوکھلائی پھرتی رہی کہ ہر چیز اجنبی تھی اور اور اس عرصے میں میں ایسے ذاتی حادثے سے گزری کہ میرا زمین اور آسمان دونوں سے یقین ختم ہو گیا۔ لیکن اس دوران بھی میں ڈاکٹر صاحب کے مضامین پڑھتی رہی کہ شاید یہ پڑھنے کی عادت ہے جس نے مجھے ہر مشکل سے نکلنے میں مدد کی ہے اور ایک دن ان کو بغیر سوچے سمجھے میسنجر پر میسج کر دیا، کیا کہنا ہے یا کیا بات کرنی ہے یہ بعد میں سوچوں گی اور اس لیے بھی کیا کہنا ہے کہ بارے میں فکر مند نہیں تھی کیونکہ سو فیصد یقین تھا کہ جواب نہیں آئے گا۔

اگر آپ نے میڈیسن پڑھی ہو تو آپ اچھے سے جانتے ہیں کہ ایک ماہر نفسیات کی نارتھ امریکہ میں کیا اہمیت ہوتی ہے اور طرح یہ کہ وہ ایک نامور ادیب بھی ہو تو آپ کو یقین ہو جاتا ہے کہ جواب کبھی نہیں آئے گا خاص کر اگر آپ پاکستان سے تعلق رکھتے ہوں کیونکہ پاکستان میں ذرا سی شہرت لوگوں کا دماغ خراب کر دیتی ہے۔

لیکن حیران کن بات ہوئی، نہ صرف جواب آیا بلکہ ساتھ میں انتہائی متانت سے اپنا تعارف کرانے کا کہا گیا اور کچھ تعارفی کلمات کے بعد میسج آیا کہ آپ سے تو ملنا چاہیے میرے لیے یہ بہت حیران کن تھا آج کل تو کسی کے پاس چند ڈالر آ جائیں تو وہ اپنے آپ کو ڈونلڈ ٹرپ سمجھنے لگتا ہے۔ اب دوسری طرف میں تھی انتہائی محتاط اور انگریزی ہالی ووڈ فلموں کے بعد ماہر نفسیات کے بارے میں میرا بڑے ہی ڈرامیٹک خیالات رکھنے والی، اس لیے میری طرف سے انکار کر دیا گیا لیکن ڈاکٹر صاحب کی مستقل مزاجی نے مجھے ان سے ملنے پر انتہائی سوچ و چار کے بعد قائل کر لیا ہم میرے گھر کے قریب ٹم ہارٹن میں ملے۔

جب میں دروازے سے اندر داخل ہوئی تو سامنے ڈاکٹر صاحب کو دیکھا وہ مجھے دیکھ کر کھڑے ہو گئے میرے لیے یہ بہت خوشگوار حیرت کا باعث بنا کہ آج کل مرد خواتین نے برابری کے نام پر سب سے پہلے تہذیب کا خاتمہ کیا ہے اور بدتمیزی کا ایک طوفان برپا ہے، میرے لیے یہ ایک خوشگوار عمل اس لیے بھی تھا کہ اس میں مجھے اپنے والد اور تایا کی جھلک نظر آئی کہ وہ ہمیشہ خواتین کا بہت احترام کرتے ہیں۔

بات چیت کے دوران انہوں نے مجھے اپنی گرین زون فلاسفی کے بارے میں بتایا اور اس کی کتابیں دیں اس کے بعد انہوں نے میرے سے میرے ادبی رجحانات اور زندگی کا پوچھا اور اپنی زندگی اور ادبی سفر کا ذکر کیا۔ جس میں سب سے پہلا اور اہم حوالہ ان کے چچا عارف عبدالمتین کا تھا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کے چچا نے ان کی ادبی زندگی میں اہم کردار ادا کیا اور جب بھی انہوں نے اپنے چچا سے مشورہ مانگا تو وہ ان کے ساتھ انتہائی عزت سے پیش آئے اور سنجیدگی سے ان کی بات سنی۔

اسی طرح ڈاکٹر صاحب نے اپنے مستقبل کے حوالے سے اپنے چچا سے جو پشاور آئے ہوئے تھے مشورہ کیا تو وہ ان کا پشاور کے گرینز ہوٹل لے گئے اور چائے کہ ساتھ ڈاکٹر صاحب کے پسندیدہ کریم رولز اور پیٹیز چیزیں منگوائیں اور بہت انہماک سے ڈاکٹر صاحب کی سب باتیں سنیں اور ان کی سوچ اور ادبی خیالات کو گہرائی سے جانچا اور ان کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کسی سیکولر ملک میں جانے کا مشورہ دیا اور اس مشورے نے ڈاکٹر صاحب کو کینیڈا پہنچا دیا۔

اردو کو ایک انتہائی نفیس اور آل راؤنڈر ادیب اور نفسیات کے شعبے کو ایک انسان دوست ماہر نفسیات دیا۔ اس بات نے میرے اور ڈاکٹر صاحب کی دوستی کی بنیاد رکھی کیونکہ مجھے ان کے چچا میں اپنے تایا پروفیسر برکت علی نظر آئے، جب بھی کسی بھی بات میں ان سے مشورہ مانگا تو انہوں نے کبھی جنس یا عمر کی بنیاد پر میری بات کو رد نہیں کیا بلکہ بہت عزت سے سکون سے سنا اور مشورہ دیا بلکہ کئی بار مشورہ میرے والد اور تایا نے لیا کہ گھر کے تمام کاموں میں بچوں کی رائے بھی اسی طرح وہ دونوں لیتے اور ان کی بات کو اہمیت دیتے جیسے بڑوں کی، ان کی بات سن کر مجھے لگا کہ میں گھر واپس آ گئی ہوں۔

اس کے ساتھ ڈاکٹر صاحب نے مجھے اگلی بات جو کی وہ یہ تھی کے ”میں نوجوان لکھاریوں کی حوصلہ افزائی اس لیے کرتا ہوں کہ یہ میرے چچا کا میرے پر قرض ہے کہ ان کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی نے میرے لیے راستے کھولے ویسے ہی میں نئے لکھنے والوں کے لیے راستے کھولنا چاہتا ہوں“ ، اور میرے لیے یہ ایک اعلی کردار انسان کی نشانی ہے جو کسی سے حاسد نہیں بلکہ مسکرا کے نئے آنے والوں کو راستہ دیکھا رہا ہے میں پاکستان میں کئی ایسے بت دیکھ کر آئی تھی جو اپنی اپنی فیلڈ میں خدائی کے دعوی دار تھے اور ہر نئے آنے والے سے خون کا نذرانہ طلب کرتے اور اس کی راہ میں پتھر اٹکاتے کہ ان کو نہ اپنی کامیابی پر اور نہ ہی اپنی شخصیت پر اعتماد ہے لیکن یہ چیز ڈاکٹر خالد سہیل میں نہیں اور ان کو یہ اپنے چچا سے وراثت میں ملی۔

جب میں نے ان سے اپنے والد اور تایا کا ذکر کیا اور بتایا کہ وہ دونوں استاد ہیں ان کے ادبی رجحانات کا ذکر کیا تو انہوں نے نے مجھے بتایا کہ ان کے والد اور چچا بھی پروفیسر تھے اور ایک دوسرے کی بہت عزت کرتے تھے اور دونوں بھائیوں میں کوئی حسد یا جلن نہیں تھا تو اس پر میرے دل نے کینیڈا سے ہزاروں میل دور اپنے ابو ڈاکٹر کرامت علی اور اپنے تایا برکت علی کے درمیان محبت اور احترام کے رشتے کو یاد کیا کہ وہ دونوں آپس میں بات کرتے ہوئے بھی آپ کا استعمال کرتے اور ایک دوسرے کا جب نام لیتے تو صاحب کے لفظ کا اضافہ کرتے، ڈاکٹر صاحب کے والد اور چچا کی باتیں سنتے وقت میرے والد اور تایا میری آنکھوں کے آگے تھے اور ایسا رشتہ دو انسانوں میں اس وقت ممکن ہے جب وہ دونوں انسان اپنی ذات میں مکمل، اپنی شخصیت میں پراعتماد اور اپنے خیالات اور آئیڈیالوجی میں اس قدر واضح ہوں کہ ان کا دل پرسکون اور ذات میں انکساری اور قناعت آ جائے، وہ اپنے آپ سے خوش اور مطمئن ہوں، خود عارف صاحب کی زبان میں

صرف ایک ثبوت اپنی وفا کا ہے میرے پاس
میں اپنی نگاہوں میں گناہگار نہیں ہوں

ڈاکٹر صاحب نے نہ صرف اپنے چچا کا ذکر اس ملاقات میں کیا اور ساتھ ہی ان کے بیٹے نو روز عارف صاحب سے اپنے گہرے تعلقات کا ذکر کیا اور اس ذکر کے دوران ان کی آنکھیں محبت سے چمک رہیں تھیں اس دوستی اور ذہنی ہم آہنگی کا ذکر کرتے ہوئے جو ان دونوں کو اپنے والد سے میراث میں ملی تھی۔ عارف عبدالمتین سے ڈاکٹر خالد سہیل کے رشتے نے مجھے کینیڈا میں دوستی اور گھر کا راستہ دکھایا کہ مجھے لگا ”ارے یہ تو میرے ہی قبیلے کے شخص ہیں“ ۔

ڈاکٹر صاحب کی وساطت سے مجھے عارف صاحب کے اشعار سے واقفیت ہوئی اور ان کی شخصیت کے ساتھ ساتھ میں ان کی شاعری کی مداح بنی کہ یہ لیلی مجنوں کی شاعری سے ہٹ کر انسانوں کے سکوں اور دکھ کے رازوں کو عیاں کرتی شاعری ہے۔ اس میں ان کے اپنے ذاتی سفر اور کرب اور اپنے اردگرد کے لوگوں کے ساتھ رشتوں، آنسؤں اور مسکراہٹوں کی داستان چھپی ہے۔

میں حرف دعا کا سلسلہ ہوں
عالم کی نجات چاہتا ہوں
مقتول کی مغفرت کا طالب
قاتل کی طرف سے خون بہا ہوں

جب ڈاکٹر خالد سہیل نے اپنے چچا پر کتاب لکھنے کا ذکر مجھ سے کیا تو میرے لیے یہ خوشی کی بات تھی کہ وہ آج کی نسل کو ان لوگوں کے قبیلے سے روشناس کرانے جا رہے ہیں جو تہذیب، وقار اور نظریے کے ساتھ جینے والے لوگ تھے اور آہستہ آہستہ یہ چیزیں دولت کی دوڑ میں ہم کھوتے جا رہے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب اور نوروز عارف صاحب نے نہ صرف اپنے والدین کی تہذیب کو زندہ رکھا بلکہ اس کو اگلی نسل میں منتقل بھی کیا اس لیے ان کے بچوں آذر، سروش اور ربیعہ

تقریب میں جہاں سب ان کے دادا عارف متین کو یاد کر رہے تھے اپنے دادا کو یاد کرتے ہوئے اپنی دادی شہناز عارف کو سب سے پہلے یاد کیا اور اس بات کا ذکر کیا کہ ان کے دادا کی محبت، افکار اور تہذیب ان تک ان کی دادی سے پہنچی اور اپنی خواتین کے کردار کی اہمیت اور اس کو سراہنا اور یاد رکھنا اہم ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب ڈاکٹر خالد سہیل عارف عبدالمتین پر کتاب لکھنے جا رہے ہیں یہ عارف عبدالمتین صاحب کا مجھ پر قرض تھا کہ میں ان کے حوالے سے اپنے دل کا احوال تحریر کروں کیونکہ گھر سے ہزاروں میل دور انہوں نے مجھے دوبارہ گھر کا راستہ دکھایا اور دوستی کا تحفہ ڈاکٹر خالد سہیل کی صورت میں دیا۔

( یہ مضمون فیملی آف ہارٹ کے زیر اہتمام عارف عبدالمتین صاحب کی صد سالہ ولادت کی تقریب میں پڑھا گیا )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments