منیر اکرم کی غیر ترجمانی


پاکستان میں اقوام متحدہ میں مستقل مندوب منیر اکرم نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں افغانستان میں خواتین پر پردہ اور گھروں میں پابند رہنے کو پشتون ثقافت سے جوڑنے اور اسلام اور شریعت کے خلاف نہ ہونے کا ایک خود ساختہ ناقابل دلیل اور ناقابل عقل و فہم بیان سمویا ہے جن کا نہ ان کو خود پتہ ہے اور نہ ان کو یہ بیان دینے یا لکھوانے والے کو یا پھر ایک ایسے وقت میں جان بوجھ کر ان سے یہ بیان دلایا گیا ہے یا پھر جان بوجھ کر انھوں نے بیان دیا ہے کہ اس موجودہ دھماکہ خیز اور پشاور کے لرزہ خیز حالات سے لوگوں کی توجہ ہٹ جائے۔ لیکن کیا کیا جائے

بقول ڈاکٹر اسرار
زہ ورتہ جوڑ چا پہ گوتہ کڑے یم
کانڑے چے رازی زما پہ سر لگی
ترجمہ
مجھے شاید کسی نے ان کو نشانے پر رکھا ہے
جو پتھر آ رہا ہے میرے سر پر ہی لگ رہا ہے۔

منیر اکرم نے یہ پشتون ثقافت سے متعلق توہین آمیز بیان اس وقت دیا جب پشتون اور پشاور ایک گہرے صدمے سے دوچار تھے۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ اتنے بڑے واقعے سے منیر اکرم بے خبر تھے اور نہ اس بات کس ان کو ادراک نہیں تھا کہ اس بیان کا رد عمل کیا آ سکتا ہے۔ اور ردعمل کے فوراً بعد اس بات پر بھی آ گئے کہ میرے بیان کو غلط سمجھا گیا۔ اور میں کسی خاص اقلیتی طبقے کی تناظر میں بات کر رہا تھا۔

تو منیر اکرم صاحب کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ پشتون کوئی اقلیت نہیں نہ پاکستان میں اور نہ افغانستان میں اور نہ پشتون طبقہ ہے پشتون پانچ ہزار سال پرانی قوم ہے اور پشتونوں کی کوئی ایسی اجتماعی روایت نہیں کہ وہ عورتوں کو ثقافتی طور پر گھروں میں بند رکھیں۔ اور اگر منیر اکرم اس سے بے خبر ہیں تو پھر ایسے شخص کو اقوام متحد میں مستقل مندوب کی حیثیت سے کیسے فائز کیا گیا ہے جو پاکستان میں پانچ کروڑ بسنے والے پشتونوں کی نمائندگی نہیں کر سکتا ہے۔ اور اگر منیر اکرم نے یہ صرف افغانستان کے بارے میں کہا ہے تو پھر انھوں نے کن کی ترجمانی کی ہے اور حالیہ ہماری افغانستان کے حوالے سے سٹیٹ پالیسی کیا ہے۔

منیر اکرم کو یہ بھی واضح کرنا ہو گا کہ ان کی نظر میں ثقافت کیا ہے اور وہ کس چیز کو ثقافت کہتے ہیں اور مزید یہ کہ وہ یہ بھی وضاحت کریں کہ ایک ثقافت کس وقت مذہب اور شریعت کے مطابق ہوتی ہے اور کن بنیادوں پر وہ خلاف ہوتی ہے۔ صرف اپنی سوچ کے مطابق کسی قوم کی ثقافت کے بارے میں اظہار رائے اخلاقی سماجی اور عالمی سطح پر کیا معنی رکھتی ہے اور اس کے قانونی مضمرات کیا ہوسکتے ہیں۔

اقوام متحد قوموں کی انجمن ہے۔ اقوام کا پلیٹ فارم ہے اور ادھر کھڑے ہو کر اگر کوئی کسی کی جان بوجھ کر اور سوچ سمجھ کر غلط ترجمانی کرتا ہے تو عالمی سطح پر اس قوم یا زبان کے بارے میں تاثر کیا جاسکتا ہے اور اس کا احاطہ کس فارم پر ہو سکتا ہے۔

منیر اکرم ایک سینئیر ڈپلومیٹ ہیں ایک باخبر ڈپلومیٹ ہیں وہ موقع محل دیکھ کر بات کرنے کے حوالے سے جانے جاتے ہیں لیکن انھوں نے اتنی بڑی غلط ترجمانی کس طرح بے موقع اور بے محل کر ڈالی یہ تو سلپ آف ٹنگ بھی نہیں ہو سکتا یہ تو مذاق بھی نہیں ہو سکتا یہ تو تفریح طبع کے لئے بھی نہیں بولا جاسکتا۔ تو اخر ایسی کون سی سیاسی مصلحت یا یہ کون سی سیاسی ضرورت تھی جو پشتو اور پشتونوں کی غلط ترجمانی سے پوری ہو سکتی تھی۔ اور پورا ہو کر اس سے کیا حاصل کرنا چاہتے تھے۔

نہ تو یہ بات گھرکی تھی اور نہ یہ بات گھر میں تھی تب بھی کوئی بات ہوتی کہ گھر کی بات گھر میں رہنی چاہیے تھی یہ باہر نہیں کرنی چاہیے تھی لیکن جو بات نہ گھر کہ ہو اور نہ ہی گھر میں ہو اور اس کے باوجود باہر اس کی غلط ترجمانی کی جائے تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا اور کس حد تک ذمہ دار ہو گا۔

پردہ کوئی بری چیز نہیں نہ پشتونوں کو پردے سے کوئی دشمنی ہے لیکن پردے کی آڑ میں عورت کو گھر میں محصور کرنا پشتونوں کا ثقافت گرداننا منیر اکرم کی بالکل پشتون علاقوں اور پشتون کلچر سے ناواقفیت ثابت کرتی ہے اور جو بندہ اپنے ہی ملک کے کسی قوم کی ثقافت سے نابلد ہو تو وہ بیرونی دنیا میں کیا اس کو درست طریقے سے اجاگر کرسکے گا۔

منیر اکرم سے تمام پشتون قوم سراپا احتجاج ہے کہ یا تو خدارا ہماری ترجمانی درست طریقے سے دھرائی جائی یا پھر پشتون قوم سے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر معافی مانگی جائے یا پھر یہ باور کرایا جائے کہ آئندہ اس طرح کی مشق نہ دہرایا جائے یا پھر منیر اکرم ثقافت مذہب شریعت قوم اور زبان کا ٹھیک سے پہلے مطالعہ کیا کریں اور پھر اس پر اظہار خیال کیا کریں تاکہ آنے والے وقتوں میں کسی اور کی دل آزاری نہ ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments