روس یوکرین جنگ سے پاکستان میں زوال پذیر ماچس انڈسٹری کیسے بحال ہوئی؟


ڈھائی سال کی بے روزگاری کے بعد آٹھ مہینے پہلے پشاور کے چالیس سالہ سہیل احمد دوبارہ اُس ماچس بنانے والے کارخانے میں کام کے لیے آئے جو بند ہو چکا تھا۔

سہیل کا کہنا ہے کہ وہ پشاور کے حیات آباد انڈسٹریل اسٹیٹ میں قائم ماچس کے کارخانے میں ڈبوں کی پرنٹنگ کے شعبے میں بیس سال کام کر کے سپروائزر کے عہدے تک پہنچ گئے ہیں اور اب اُن کو اچھی تنخواہ مل رہی ہے۔

اُن کے بقول کئی بڑے کارخانے بند ہونے کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں مزدور بے روگار ہو گئے تھے جو اب دوبارہ کام پر آ گئے ہیں۔

پاکستان میں ماچس کی بند اور کمزور صنعت میں دوبارہ جان پچھلے سال فروری میں روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کے بعد آنا شروع ہوئی تھی۔

پچھلے آٹھ ماہ سے پاکستان سے ماچس کی برآمدات شروع ہو چکی ہیں۔ افریقہ اور یورپی ممالک کو ماچس بھیجنے میں ستر فیصد شیئرز روس جبکہ باقی تیس فیصد انڈیا کے ہیں۔

سال 2022 میں انڈیا نے اعشاریہ پانچ بلین ڈالر کی ماچس برآمد کی تھی تاہم اس دوران روس پر معاشی پابندیوں کے باعث اب دنیا کی نظریں دیگر ممالک پر ہیں، جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔

فیضان احمد پچھلے دس سال سے ماچس بنانے کا کارخانہ چلا رہے ہیں تاہم اُنھوں نے خراب معاشی صورتحال کی وجہ سے کئی یونٹ بند کر کے پیداوار کم کر دی تھی تاہم اس وقت انھوں نے نہ صرف اپنی مشینری دوبارہ فعال کر دی ہے بلکہ انڈسٹریل اسٹیٹ میں بند کچھ یونٹ کو شیئرز کی بنیاد پر دوبارہ بحال کر دیا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ عالمی مارکیٹ میں روس کے ستر فیصد شیئرز میں سے چالیس فیصد پاکستان کے حصے میں آئے اور یہاں سے صرف تیلی بھیجی جاتی ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ منڈی سے لکڑی لا کر اُس کو کٹائی اور پالش کر کے کاٹن میں بند کر کے باہر بھیجتے ہیں اور وہاں پر ماچس کو جلانے والے کیمیکل لگا کر تیار کیا جاتا ہے۔

اُن کے بقول چوبیس گھنٹے کام کیا جاتا ہے اور پشاور حیات آباد انڈسٹریل اسٹیٹ سے ماہانہ 50 بڑے کینٹینر یعنی ایک ہزار ٹن سے زیادہ ماچس کینیا، ایتھوپیا، سوڈان، مصر اور چند یورپی ممالک میں برآمد کی جاتی ہے۔

پاکستان میں ماچس کے بیس کارخانے ہیں، جن میں پندرہ خیبر پختونخوا کے حیات آباد اور حطار انڈسٹریل اسٹیٹ جبکہ لاہور میں دو، رحیم یار خان اور آزاد کشمیر میں ایک ایک ہیں۔

آٹھ سال پہلے پاکستان میں ماچس کے ماہانہ پانچ لاکھ کاٹن تیار کیے جاتے تھے جن میں ڈیڑھ لاکھ برآمد کیا جاتا تھا تاہم برآمدات ختم ہونے کے بعد کئی کارخانے بند کیے گئے اور پیداوار ماہانہ ڈیڑھ لاکھ ٹن سے بھی کم ہو گئی جو صرف ملکی ضرریات کو پوراکرنے کے لیے کافی تھی۔

حاجی نعمت اللہ پچھلے بارہ سال سے پشاور کے حیات آباد انڈسٹریل اسٹیٹ میں ماچس کے کارخانے میں مال تیار کر کے وسطی ایشائی ممالک اور افغانستان بھیجتے تھے تاہم حکومت کی عدم توجہ کے باعث کئی سال سے درآمدات کا عمل روکا گیا تھا۔

اُنھوں نے کہا کہ روس یوکرین جنگ کی وجہ سے ان ممالک میں بھی پچھلے کئی مہینوں سے تیار ماچس کی مانگ میں اضافہ ہوا۔

اُنھوں نے بتایا کہ بند کارخانے کو دوبارہ بحال کر دیا گیا ہے اور اب بیس میں سے پانچ کارخانے، جو صرف چھ گھنٹے شفٹ چلاتے تھے، اب وہاں 12 12 گھنٹوں کی دو شفٹس چلائی جاتی ہیں اور پھر بھی آرڈرز پورے نہیں ہوتے۔

ماچس کے کاروبار سے وابستہ افراد موجودہ صورتحال کو عارضی تصور کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ مستقل بنیادوں پر حکومت کو بیرونی منڈیوں تک رسائی کا لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔

ماچس کے لیے لکڑی کہاں سے آتی ہے؟

محکمہ جنگلات خیبر پختونخوا کے مطابق ماچس اور چیک بورڈ انڈسٹری کے لیے سفیدے کی زیادہ لکڑی ضلع چارسدہ اور مردان سے آتی ہے۔

ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق چارسدہ سے سالانہ ایک لاکھ 52 ہزار جبکہ مردان اورصوابی سے ایک لاکھ 47 ہزار ٹن سفیدے کی لکڑی فیکٹریوں کو بھیجی جاتی ہے۔

ادارے کے مطابق یہ جنگلی لکڑی نہیں بلکہ کاشت کار سفیدے یا پاپولر کو ایسی زمینوں پر کاشت کرتے ہیں جو سیم و تھور کی وجہ سے دوسری فصلوں کی کاشت کے قابل نہ ہوں۔

زین اللہ مردان میں سفیدے کی بڑی منڈی میں بیوپاری ہیں۔ اُن کے بقول موجودہ وقت میں مارکیٹ میں پاپولر کی مانگ میں پچاس فیصد اضافہ ہو چکا ہے اور اس کی بنیادی وجہ صوبے میں ماچس کی بند فیکٹریوں کا دوبارہ کام شروع کرنا ہے۔

اُن کے مطابق پچاس کلو کے حساب سے ریٹ میں 100 سے 120 روپے اضافہ ہو چکا ہے اور موجودہ وقت میں کارخانے کو پچاس کلو لکڑی کا 920 روپے ریٹ دیا جاتا ہے۔

زین پہلے یومیہ 80 ٹن کراچی بھیجتے تھے جبکہ اب دو سو ٹن سے بھی زیادہ بھیج رہے ہیں جبکہ پشاور کے کارخانے کو روازنہ آٹھ گاڑیاں جاتی ہیں، جو پہلے دو تھیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ کام بڑھنے کے وجہ سے اُن کے ساتھ چھ کی بجائے اب پچاس مزدور کام کر رہے ہیں۔

ماچس کی بیرونی مارکیٹ پر انڈیا کا غلبہ

فیضان احمد کا کہنا ہے کہ دس برس پہلے ڈیڑھ لاکھ ٹن ماچس بیرونی ممالک برآمد کی جاتی تھی تاہم حکومت کی طرف سے کیمیکل کے درآمدات پر ٹیکس میں اضافہ اور بیرونی منڈیوں تک رسائی میں عدم تعاون کے باعث پاکستان مکمل طورپر اس مقابلے سے باہر ہو گیا۔

انھوں نے کہا کہ پچھلے سال کے اعداد و شمار کے مطابق انڈیا نے اعشاریہ پانچ بلین ڈالر کی ماچس درآمد کی تھی تاہم پاکستان کی ماچس معیار میں انڈیا سے کئی گنا بہتر ہے۔

حاجی انداز اللہ تجارت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے دنیا بھر میں قائم پاکستانی سفارت خانوں میں کمرشل اتاشی تعینات کرائے تھے جس کے کافی اچھے نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے تھے اور دیگر شعبوں کی طرح ماچس کی بھی کچھ آرڈر ز ملے تھے۔

انھوں نے کہا کہ معاشی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ اس پر دوبارہ کام شروع کیا جائے تاکہ ہم برآمدت میں دیگر ممالک کا مقابلہ کر سکیں۔

حاجی نعمت اللہ نے بتایا کہ لکڑی کے علاوہ ماچس بنانے کے لیے بڑی مقدار میں چین سے پوٹاشیئم کلوریٹ اور فاسفورس منگوایا جاتا ہے لیکن 27 ٹن کے فاسفورس پر پہلے اٹھارہ لاکھ جبکہ موجودہ وقت میں 48 لاکھ روپے تک ٹیکس لگتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ کیمیکل کا کنٹینر بندرگاہ پہنچ چکا ہے تاہم ایل سی نہیں کھولی جا رہی اور پاکستانی بینکوں کے ساتھ ڈالر نہیں تو مال بندرہ گاہ پر پڑا ہے اور روزانہ کے حساب سے چار سے پانچ سو ڈالر حرجانہ ادا کرنا پڑ رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’بیرونی دنیا میں پاکستان کی ماچس کی بہترین مارکیٹ موجود ہے تاہم اس میں حکومت کے تعاون کی ضرورت ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

یوکرین روس تنازع: کیا یہ جنگ عالمی معاشی بحران کا سبب بن سکتی ہے؟

وہ چھوٹا سا ملک جو روس، یوکرین جنگ کی وجہ سے امیر ہو رہا ہے

ماچس

ماچس انڈسٹری سے ملک کو کیا فائدہ ہو رہا ہے؟

پاکستان میں اس وقت شدید مالی بحران کی وجہ سے پیداواری یونٹ بند ہو رہے ہیں تاہم واحد ماچس انڈسٹری ہے جس میں دوبارہ جان پیدا ہو گئی ہے اور دن بدن اس کی پیداور میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ماچس انڈسٹری کے دوبارہ فغال ہونے سے پندرہ سے بیس ہزار مزدورں کو براہ راست دوبارہ روزگار کے مواقع ملے ہیں جبکہ اس کے ساتھ جڑے دیگر شعبوں میں بھی ہزاروں لوگوں کو کمائی کا موقع مل رہا ہے تاہم حاجی نعمت اللہ کا کہنا ہے کہ ملک کو اس وقت ڈالر کی شدید ضرورت ہے اور واحد ماچس کی برآمدت کی وجہ سے ملکی بینکوں کو ڈالر آرہے ہیں تاہم حکومت اس مد میں مزید تعاون کرے تاکہ اس میں مزید اضافہ ہوسکتاہے۔

پاکستان تیار ماچس کیوں درآمد نہیں کر رہا؟

ماچس

موجودہ وقت میں افغانستان، تاجکستان اور ازبکستان کے علاوہ کسی دوسرے ملک کو تیار ماچس برآمد نہیں کی جاتی، جس کی بنیادی وجہ تیلی یا لکڑی کے سر پر جلنے والا کیمیکل ہے جو بیرونِ ملک سے درآمد کیا جاتا ہے اور یہ کافی مہنگے داموں پاکستان پہنچتا ہے۔

یورپ کے چند ممالک کے ساتھ مصر بھی پاکستان سے تیلی درآمد کر رہا ہے کیونکہ ان ممالک کو تیار ماچس کافی مہنگی پڑ رہی ہے۔

مذکورہ ممالک میں تیلی جدید مشینری اور مخصوص طریقے سے تیار کی جاتی ہے جو یہاں پر تیار کی جانے والی ماچس سے کئی گنا مشکل اور طویل عمل ہوتا ہے۔

پاکستان سے برآمد کی جانے والے تیلی کو ان ممالک میں مزید مراحل سے گزارا جاتا ہے جس کے بعد یہ مکمل طور پر تیار ہوتی ہے۔

پاکستانی ماچس افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک کو بھیجنا مشکل کیوں؟

پاکستان صنعتی پیدوار کے لیے افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے لیے بہت اہم ہے لیکن دوطرفہ تجارت میں حائل رکاوٹوں کی وجہ سے مذکورہ مارکیٹ بھی ہاتھ سے نکل چکی ہے۔

حاجی نعمت اللہ کا کہنا ہے کہ پاکستانی ماچس کی ان علاقوں میں بہترین مارکیٹ ہے تاہم حکومتی سطح پر آسان تجارتی پالیسیاں نہ ہونے کی وجہ سے ایران، انڈیا اور دیگر ممالک نے اپنی مصنوعات کو کنٹرول کر کے پاکستان کو ایک طرف کر دیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ کم از کم افغانستان سے ڈالر میں کاروبار کی شرط کو ختم کر کے مقامی کرنسی میں کاروبار کی اجازت ہونی چاہیے جس سے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments