خواہشات کی آنکھ مچولی


ایک طرف حسرتوں کا شمار اور بے رحم خواہشوں کا عذاب ہے تو دوسری طرف دو دھاری تلوار۔ یہ وہ تلوار ہے جس پر توازن رکھنا بہت مشکل ہے، توازن بگڑے تو لالے پڑ جاتے ہیں۔ خواہشات کی تکمیل کے لیے کھیلی جانے والی آنکھ مچولی میں کئی زندگیاں داؤ پر لگ جاتی ہیں۔ دہشتگردوں کی مضبوط ہوتی گرفت اور سیکیورٹی کا کمزور حصار انہی خواہشات کا نتیجہ ہے۔ خواہشوں کے بوجھ نے ملک کا تماشا بنا دیا ہے اور ان کی اتنی شدت سے پیروی کی جاتی ہے کہ اس کے لیے سب داؤ پر لگا دیا جاتا ہے پھر چاہے وہ معیشت ہو سیاست ہو یا ریاست۔

ایک طرف معاشی مشکلات ہیں تو دوسری طرف دہشتگردی کے واقعات۔ ہمیشہ رہنے والی اس جنگ میں ہم خود کودے ہیں۔ یہ وہ ہڈی ہے نہ نگلی جائے نہ اگلی جائے۔ لالچ نے ہمیں ایسے اندھے کنویں میں پھینک دیا ہے کہ چاہیں بھی تو اس سے نہ نکل سکیں۔ کچھ خواہشات ہیں تو کچھ سیاسی ضروریات۔ کہیں طالبان کو ری سیٹل کرنے کی خواہش ہے تو کہیں انٹیلی جنس آپریشن کرنے کی ضرورت۔ ہم وہ ہیں جنہوں نے ماضی سے سیکھا نہیں، حال میں رہنا نہیں چاہتے اور مستقبل کے لیے آج بھی داؤ پر لگا دیا۔ ہم سب کچھ جانتے بھی ہیں مانتے بھی ہیں لیکن پھر بھی انکاری ہیں۔

صوبائی دارالحکومت پشاور میں دھماکے نے متعدد سوالات کو جنم دیا۔ انتہائی سیکیورٹی زون میں واقع پولیس لائن تک بارودی مواد آ سکتا ہے تو باقی ملک کے کیا حالات ہوں گے؟ طالبان کی واپسی کی راہ ہموار کر دی گئی ہے۔ دہشتگرد اور ان کے سہولت کار ہر جگہ پھیل گئے ہیں۔ آئے روز کوئی سانحہ ہوتا ہے متعدد نفس جان کی بازی ہار جاتے ہیں اور صف ماتم بچھ جاتی ہے۔ عوام سوال کرتے ہیں کہ اس سب کا ذمہ دار کون ہے؟ لیکن یہاں کوئی بھی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔

ایک دوسرے پر سوالات کی بوچھاڑ ہے اور الزامات ہیں۔ ریاستیں ذمہ داری لیتی ہیں نہ کہ ملبہ دوسروں پر ڈال کر خاموش ہو جاتی ہیں لیکن یہاں ہر سانحے کے بعد ”فیصلہ کن“ فیصلے کیے جاتے ہیں پھر ملبہ ایک دوسرے پر ڈال کر سب بری الزمہ ہو جاتے ہیں۔ چہرے بدلتے ہیں لیکن انداز حکومت نہیں، ہم دشمنوں سے مذاکرات کے لیے تو تیار ہیں لیکن اپنوں سے بات چیت کے روادار بھی نہیں ہیں کیونکہ دہشتگردی سے نمٹنا تو ہماری ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے بلکہ ہماری دلچسپیاں تو صرف سیاسی محاذ آرائی میں ہیں۔

خواہشات کے جان لیوا عذاب نے ملک کا خانہ خراب کر دیا ہے۔ کہیں اقتدار میں آنے کی خواہش ہے تو کہیں اقتدار میں آئے ہوؤں کو باہر کر کے آل راؤنڈر بننے کی۔ کہیں گرفتاریوں کی خواہش ہے تو کہیں جیل بھرو تحریک سے ڈوبتی کشتی کو سہارا دینے کی۔ خواہشوں کو سہارا دینے کے لیے بھی چند قوتیں ہیں جو کسی پر بہت مہربان تو کسی سے سب چھین لیتی ہیں۔ یہی وہ قوتیں ہیں جو حال اور مستقبل کا فیصلہ کرتی ہیں اور پھر جن سے چھین لیا جاتا ہے وہ ہر حد کو پار کر جاتے ہیں۔ قلب کی تسکین کے لیے تمام سامان کیا جاتا ہے کہ کسی طرح اقتدار کی ڈوری دوبارہ ہاتھ میں آئے لیکن شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں۔

جب چیزیں ہاتھ میں ہوں تو انا آڑے آ جاتی ہے اور جب سب کچھ ہاتھ سے نکل جائے تو ضرورت کہتی ہے کہ پاؤں پکڑ لیں کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ ان کی تائید ہی دوبارہ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچا سکتی ہے اور اس در پر جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں لیکن پھر بھی کوئی اڑ جاتا ہے تو کوئی ڈٹ جاتا ہے۔ یہی سب عمران خان نے کیا اور یہی کچھ نواز شریف نے کیا تھا وہ ڈٹ گئے اور اقتدار سے باہر ہوئے جبکہ عمران خان کی انا ان کے آڑے آ گئی۔

پھر جو ہوا اور جو ہو رہا ہے سب نے دیکھا کیونکہ وہ اپنے ہی لانے والوں کے درپے ہو گئے اور اب ہر چیز کی ذمہ داری ان پر ہی ڈال رہے ہیں، اور ادارہ کبھی ذمہ داری قبول نہیں کرتا خاص کر ”سیاسی ذمہ داری“ ۔ پھر جو معیار کے قریب تر ہو اس کو حکومت سونپ دی جاتی ہے اور ناکامی اور تباہی کا تمام تر ملبہ ان پر ڈال دیا جاتا ہے تاکہ وہ سیاسی قیمت چکائیں اور پھر وہ جانیں اور عوام۔

یہ خواہشات ہی ہیں جنہوں نے ملک کو اس نہج تک پہنچایا۔ تباہ حال معیشت بھی تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے اور اب آئی ایم ایف کی لامحدود شرائط جن کو پورا کرنا بہت ضروری ہے اگر پورا کریں تو بھی مشکل اور نہ کریں تو بھی۔ آگے سمندر ہے پیچھے کھائی اور ہمارے پاس ان شرائط کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

سیاسی سرکس جاری ہے۔ تماش بین دور کھڑے صرف تماشا دیکھ رہے ہیں۔ استحکام ملک کے لیے بہت ضروری ہے، یک طرفہ کاوشیں بند گلی کی طرح ہوتی ہیں اس لیے سب کو آگے آنا پڑے گا۔ دور کھڑے ہو کر صرف تماشا دیکھنا حل نہیں ہے آگے بڑھ کر کردار ادا کرنا ہو گا۔ کب تک اور کون کون راہ فرار اختیار کرے گا؟ خواہشات اور ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر ملکی مفادات کا سوچنا ہو گا کیونکہ جنگل میں آگ پھیلے تو لپیٹ میں سب آتے ہیں اور کوئی نہیں بچتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments