75 برس پرانی عمارت کی دیوار پھلانگنے والے


انسانی قافلے پر ایک نظر ڈالیے۔ پہلی صف میں متخلیہ سے متصف فنکار ہوتے ہیں۔ خیام، ڈاﺅنچی، موزارٹ، دستوئیوفسکی سے لے کر کافکا، پکاسو اور لینورڈ برنسٹائن تک ایک قافلہ سخت جان ہے جہاں انسانی ذہن کی رسائی مقتدی ہجوم سے بہت آگے نظر آتی ہے۔ دوسری صف میں فنکار نے جو حدود دریافت کر رکھی ہیں، انہیں منضبط اصولوں سے مطابقت پیدا کرنے والے انسانوں کی صف ہے۔ یہ سماجی اور فطری علوم کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھائے والے سائنسدان ہیں، تخیل کو قابل تصدیق بیان اور عملی مظہر میں ڈھالتے ہیں۔ انہیں مارکس، ڈارون، فرائیڈ اور آئن سٹائن جیسے ناموں سے جانا جاتا ہے۔ اب مرحلہ آتا ہے، فنون کی متخیلہ توانائی اور زیر زمین حقائق سے برآمدہ مشینی مظاہر کو اجتماعی اقدار، قوانین اور ضابطوں میں ڈھال کر عامی انسانوں کے لئے قابل قبول اور قابل نافذہ صورت دینا۔ اس میں ایک دقت پیش آتی ہے۔ علم، اقدار، قانون اور اختیار کا پہلے سے موجود بندوبست پیوستہ مفاد کی ضمانت دیتا ہے۔ علم اور ٹیکنالوجی میں ہر نئی پیش رفت قدیمی مفاد میں تزلزل کا امکان سامنے لاتی ہے۔ احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا، یہ ارتقا کا چلن ہے کہ ہر زمانے میں، پرانے لوگ نئے آدمی سے ڈرتے ہیں۔ قدیمی اور از کار رفتہ مفاد کو تشدد کی بجائے مکالمے اور دلیل کی مدد سے نئے انتظام کی طرف لے جانا ہی سیاسی عمل ہے۔
سیاست خود پرستی کے بادلوں میں کسی نیم دراز، نیم برہنہ، بزعم خود یونانی دیوتا کے دست اعجاز کا کرشمہ نہیں، مشاورت کی مدد سے اجتماعی فراست کو بروئے کار لا کر پیچیدہ مسائل کا بہترین حل ڈھونڈنے کا عمل ہے۔ فراست اور مشاورت یہاں کلیدی نکات ہیں۔ سیاست ایک انتہائی سنجیدہ اور بے حد پیچیدہ انسانی سرگرمی ہے کیونکہ اس میں ہر معاملے کے ان گنت زاویے نکلتے ہیں، ہر فیصلے سے دیکھے اور ان دیکھے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ سیاست کی چال اور تدبر کے سفر میں فرق جانچنے کا ایک ہی پیمانہ ہے، کوئی فیصلہ کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ موجودہ اور امکانی متغیرات کو مدنظر رکھنا۔ فرد کی فراست کیسی ہی ارفع کیوں نہ ہو، اجتماعی اور مشمولہ فیصلہ سازی سے بہتر نہیں ہو سکتی۔ وجہ سادہ ہے، فرد کو اپنی موضوعی ترجیحات سے مفر نہیں، اجتماعی مشاورت فردیات کی بساط کو ممکنہ حد تک موثر معروضی حکمت عملی میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مکالمے اور فیصلہ سازی کا یہ عمل عوام کے منتخب نمائندے پارلیمنٹ کی عمارت میں بیٹھ کر ملک کے دستور کی روشنی میں طے پاتا ہے۔
آئیے، اس اصولی تناظر کی مدد سے اپنے ملک کا جائزہ لیں۔ کچھ دیر کو پون صدی پرانے زخم، ظلم اور جرائم ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ گزراں صدی کے 22 برس پر ایک نظر ڈالیے۔ 21 ویں صدی شروع ہوئی تو ہم پیش روﺅں کی روایت کے عین مطابق آمریت کے سنگ گراں تلے دبے تھے۔ حقیقی سیاسی قیادت ملک سے باہر تھی۔ پارلیمنٹ میں پھڑ باز مفادات کے مہرے جمائے بیٹھے تھے۔ دستور دفتر بے معنی تھا۔ انصاف کے ایوانوں میں سدھائے ہوئے پرندے حکمیہ اڑانیں بھرتے تھے۔ مستقل انتظامیہ مفلوج تھی۔ مشرق اور مغرب میں دو غیرعلانیہ جنگیں ہم پر مسلط تھیں۔ اندرون ملک احتساب کا بازار گرم تھا۔ دست نگر معیشت کی باگ ڈور بھاڑے کے منشی منیم چلا رہے تھے۔ شب و روز کی چکی کے دو پاٹوں میں کلبلاتے عوام اپنے مستقبل سے بے خبر تھے۔ پھر محلاتی سازشوں کا ایک طویل سلسلہ ہمیں 2016 تک لے آیا۔ کم ازکم دس برس کے لئے ایک ایسا ہی منصوبہ تیار ہوا جو 1958 اور 1977 میں جلوہ نمائی کر چکا تھا۔ منصوبہ تفصیلی تھا اور کارندے چاق و چوبند۔ ہجوم طفلاں پرجوش تھا اور سر لشکر کاٹھ سے تراشا ہوا دیومالائی مجسمہ۔

اس زرہ بکتر کی ساخت میں البتہ کچھ رخنے نظر انداز ہو گئے۔ مدت سے دست نگر چلی آ رہی معیشت کے لئے کوئی نسخہ نہیں سوچا۔ طفلان گلی کوچہ کو دشنام کی تربیت تو دی مگر فکر کا قرینہ نہیں سکھایا۔ اس زاویے پر نظر نہیں گئی کہ دنیا اس ربع صدی میں کہیں سے کہیں نکل چکی۔ ابن انشا مرحوم نے مرزا نوشہ کے رنگ میں طبع آزمائی کی تھی، ’اب وہ زمانہ نہیں کہ ادھر متھرا داس سے قرض لیا۔ ادھر درباری مل کو مارا۔ ادھر خوب چند چین سکھ کی کوٹھی جا لوٹی۔ ہر ایک کے پاس تمسک مہری موجود۔ شہد لگاﺅ، چاٹو۔‘ سو اب معاملہ یہ ہے کہ سیاسی بحران گمبھیر سے گمبھیر تر ہو رہا ہے۔ عدالت سے صبح جاری ہونے والا فرمان شام کو منسوخ ہو جاتا ہے اور رات گئے ملنے والا حکم سویرے قطع کر دیا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف والے ساہوکار واپس چلے گئے، ہماری محضر پر کیا تحریر ہوا، کچھ خبر نہیں۔ اتنا معلوم ہے کہ خیراتی ٹکڑوں پر 23 کروڑ کی معیشت نہیں چلتی۔ پارلیمنٹ کے معاملات استوار نہیں ہوتے تو بنیادی معاشی فیصلے نہیں ہو سکیں گے۔ افراط زر 20 فیصد اور مہنگائی 27 فیصد کو جا پہنچی۔ 170 ارب کے اضافی ٹیکس کہاں سے ادا ہوں گے۔ نان جویں بیس روپے کو جا پہنچا۔ یہ سیاست دانوں کے سر جوڑ کر بیٹھنے کا وقت ہے۔ مگر سیاست دان نامی مخلوق ہم نے دیوار میں چن دی۔ چابی سے چلنے والے کھلونے البتہ بازار نخاس میں کھلے عام دستیاب ہیں۔ دونوں ہاتھوں سے اٹھا لیجیے۔ یہ دیوار پھلانگ کر غلام گردشوں کی رونق بڑھانے میں طاق ہیں اور آئندہ ممکنہ معلق پارلیمنٹ میں ”پیسے میں آپ ہی آپ“ کا کھیل دکھاتے رہیں گے۔ زنہار اس ملک کی معیشت پر غور نہ کیجیو ۔ جھونپڑیوں میں بسنے والوں کی پلکوں پر گردش ایام کا بوجھ بڑھاتے رہنا۔ الحمدللہ، یہ ملک آبادی میں پانچویں درجے پر ہے اور انسانی ترقی میں 162 ویں نمبر پر ہے۔ کرپشن میں ایک ہی برس میں چھلانگ لگا کر 140 کے درجے تک آ گیا ہے۔ اب بھی 40 ملک ہم سے زیادہ کرپٹ ہیں۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال جیسا ایک دیانتدار محتسب اور مل جائے تو وارے نیارے ہیں۔ ہمت کرو، جینے کو تو اک عمر پڑی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments