عدلیہ کے اختیارات کا جائزہ لینے کی ضرورت


چند روز قبل پنجاب کے سابق وزیراعلی پرویز الہی، ایک وکیل رہنما اور سپریم کورٹ کے ایک حاضر سروس جج کی آڈیوز لیک ہوئی تھیں۔ ان آڈیو لیکس کے بعد پاکستان بار کونسل اور حکمراں اتحاد پی ڈی ایم نے چیف جسٹس سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا تھا کہ مبینہ آڈیو کی فارنزک کے علاوہ سپریم جوڈیشل کونسل سے انکوائری بھی کروانی چاہیے اور اگر الزام درست ثابت ہوتا ہے تو جج صاحب کے خلاف ایکشن لیا جائے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی عطا تارڑ نے تو دو ججز کا نام لے کر یہاں تک کہہ دیا کہ جس طرح عمران خان صاحب کے مقدمات سپریم کورٹ کے معزز جج قاضی فائز عیسی کے روبرو نہیں رکھے جاتے اسی طرح ان ججز کو نون لیگ کے مقدمات نہیں سننے چاہئیں۔

حکومت یہ آڈیوز فارنزک کے لئے ایف آئی اے کو بھجوا چکی ہے اور اگر یہ ثابت ہوتا ہے کہ آڈیوز درست ہیں تو پھر حکومت کی طرف سے سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ یہ خبر بھی سامنے آئی تھی کہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے اس موضوع پر چند روز پہلے آپس میں بات کی تھی۔ جس کے بعد اس توقع کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ چیف جسٹس اس حساس مسئلے پر سو موٹو ایکشن ضرور لیں گے۔ کئی روز گزرنے کے بعد بھی اس اہم مسئلے پر تو مکمل خاموشی ہے مگر گزشتہ رات خبر سامنے آئی ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے نو رکنی بینچ تشکیل دیا ہے جو پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں میں انتخابات کے حوالے سے پیدا ہونے تنازعے کے تناظر چند سوالات کا جائزہ لے گا۔

بد قسمتی سے یہ بنچ سماعت کے آغاز سے قبل ہی متنازعہ ہو چکا ہے اور اس کے میرٹ پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ اس بینچ میں چیف جسٹس کے بعد سنیارٹی لسٹ میں پہلے اور دوسرے نمبر کے ججز کو بینچ کا حصہ نہیں بنایا گیا اور پھر تیسرے، چوتھے، پانچویں اور چھٹے کے بعد ساتویں نمبر کے جج کو بھی چھوڑ دیا گیا۔ اسی طرح آٹھویں نویں اور دسویں کے بعد ڈائریکٹ سنیارٹی میں 14 نمبر کے جج کو بینچ کا حصہ بنایا گیا ہے۔ معذرت سے کہنا پڑ رہا ہے کہ معزز عدالت اگر بنچ کی تشکیل میں میرٹ کا خیال رکھتی تو شاید حکومتی اتحاد کو عدلیہ سے متعلق شکوک و شبہات کا اظہار کرنے میں اتنی آسانی نہ ہوتی۔

معزز چیف جسٹس صاحب کے ذہن میں یقیناً کچھ توجیحات ہوں گی مگر قانونی روایت بہرحال یہی ہے کہ کوئی فریق اگر کسی جج کے بارے تحفظات کا اظہار کر دے تو وہ جج ازخود مقدمے سے لا تعلقی اختیار کر لیتا ہے۔ حکمراں اتحاد کے ان تحفظات میں بھی جان ہے کہ اس کی قیادت کے خلاف بیشتر مقدمات کی سماعت میں یہی ججز شامل رہے ہیں جس کا نتیجہ کبھی ان کے حق میں اچھا نہیں نکلا۔ ان حالات میں اگر معزز چیف جسٹس صاحب جن ججز کے نام پر حکومت کو اعتراض تھا بینچ میں شامل نہ کرتے تو یقیناً عدلیہ کے اعتماد میں بہتری کے لیے یہ فائدہ مند ہوتا۔

نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وطن عزیز کا نظام عدل آئے روز موضوع گفتگو رہتا ہے، اور اس کی وجہ ایک ہی نوعیت کے مقدمات میں اعلی ترین عدالت کی جانب سے سامنے آنے والے مختلف فیصلے ہیں۔ جیسے کہ آئین کے مطابق اراکین اسمبلی کو ووٹ کے متعلق ہدایات دینے کا اختیار پارٹی سربراہ کو حاصل ہے یا پھر پارلیمانی لیڈر کو؟ اس متعلق سپریم کورٹ کا ہی فیصلہ دیکھا جائے تو جائے تو پارٹی سربراہ کی ہدایت سے روگردانی کرنے والا رکن اسمبلی نہ صرف ڈی سیٹ ہو گا بلکہ اس کا ووٹ بھی شمار نہیں کیا جائے گا۔

حالانکہ آئین میں یہ بات کہیں درج نہیں کہ کسی منحرف رکن کا ووٹ شمار نہیں کیا جائے گا۔ یہ صدارتی ریفرنس جب زیر سماعت تھا اس وقت ہم نے یہی لکھا تھا کہ ملکی آئین کسی شخص کو ووٹ کے حق سے محروم رکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔ ویسے بھی کسی بھی قانون میں جب تک جرم سر زد نہیں ہوتا محض کسی کی نیت پر شبہے کی بنیاد پر سزا نہیں سنائی جا سکتی۔ اس وقت مگر سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی بنیاد پر تحریک انصاف کے منحرف اراکین کا نہ صرف ووٹ شمار نہیں کیا گیا بلکہ انہیں ڈی سیٹ بھی کر دیا گیا۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو ق لیگ کے صدر چوہدری شجاعت کا خط بھی حتمی تصور ہونا چاہیے تھا لیکن اس کے بعد کا فیصلہ سپریم کورٹ کے اپنے ہی گزشتہ فیصلے سے مختلف تھا۔

یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ آرٹیکل تریسٹھ اے میں اضافہ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے ہوا تھا۔ اٹھارہویں ترمیم جس وقت سپریم کورٹ میں چیلنج ہوئی تھی، اس کی سماعت کرنے والے آٹھ رکنی بنچ، جس میں موجودہ چیف جسٹس بھی شامل تھے، نے واضح الفاظ میں لکھا تھا ”تریسٹھ اے کے تحت اس فیصلے کا اختیار کہ ووٹ کسے دینا ہے، پارٹی ہیڈ کا ہے“ ۔ سپریم کورٹ کے ان واضح فیصلوں کے بغیر بھی یہ رائے رکھنا کہ یہ اختیار پارٹی ہیڈ کا نہیں بلکہ پارلیمانی جماعت کا ہے، درست نہیں ہو سکتا۔

اس کی وجہ بھی ہے۔ یہ درست ہے کہ آئین میں لفظ ”پارلیمانی جماعت کی ڈائریکشن“ استعمال ہوئے ہیں۔ تاہم سوال یہ ہے کہ پارلیمانی جماعت کو یہ ڈائریکشن کون دے گا؟ ایک جواب تو یہی ہے کہ سیاسی جماعت کا سربراہ ہی یہ ڈائریکشن دے سکتا ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ اختیار پارلیمنٹ میں موجود کسی سیاسی جماعت کے ممبران کی باہمی اکثریت کا ہے۔ یہاں یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ ووٹ کے بارے ہدایت کا حق محض پارٹی سربراہ کی صوابدید پر چھوڑنے سے سیاسی جماعتوں میں آمرانہ سوچ پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔

اس کے ساتھ مگر یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کوئی بھی رکن پارلیمنٹ سیاسی جماعت کے سربراہ کے نام پر ہی ووٹ لے کر منتخب ہوتا ہے۔ ویسے بھی تریسٹھ اے میں درج ہے کہ یہ قدغن وزارت عظمی/اعلی کے الیکشن یا عدم اعتماد اور فائنانس بل پر لاگو ہوگی۔ یعنی ہر ووٹنگ پر نہیں بلکہ صرف تین انتہائی غیر معمولی معاملات کے وقت رکن پارلیمنٹ اس کا پابند ہے۔ لہذا ہمارے سیاسی حالات میں منطقی بات یہی ہوگی کہ پارٹی سربراہ خواہ وہ پارلیمنٹ کا رکن ہو یا نہیں کم از کم ان تین مواقع پر اس کی ہدایت ہی مقدم ہونی چاہیے۔

سپریم کورٹ کی حالیہ تشریح سے بادی النظر میں آرٹیکل تریسٹھ اے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ ہمارے پارلیمانی نظام میں ہمیشہ تین چار یا دس نشستیں رکھنے والی جماعتیں بھی موجود رہی ہیں۔ ہمارے مخصوص سیاسی ماحول میں پارلیمنٹ میں بننے والے نمائندگی کے تناسب میں یہ جماعتیں فیصلہ کن اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ فرض کریں ان چھوٹی جماعتوں کے چند ارکان اپنے تئیں کسی دھونس یا لالچ میں یہ فیصلہ کر لیں کہ وہ پارٹی ڈائریکشن نہیں مانیں گے اور خود ہی فیصلہ کر لیں کہ کسے ووٹ دینا ہے تو نہ صرف پارٹی سربراہ بے اختیار ہو گا بلکہ اس طرح لوٹا سازی کی نئی فیکٹریاں اور مزید چور دروازے کھلیں گے۔ اس سے قبل تو کسی نہ کسی سطح پر ضمیر فروش ارکان اسمبلی کو کوئی ڈر خوف رہتا تھا سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد وہ بھی ختم ہو جائے گا۔

چوہدری پرویز الہی سپریم کورٹ کے فیصلے کی مدد سے پنجاب کے وزیراعلی تو بن گئے تھے مگر اس فیصلے نے خود سپریم کورٹ کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا تھا۔ وقتاً فوقتاً اب تمام بار کونسلز کی طرف سے سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کے اختیارات کو محدود کرنے کی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل سپریم کورٹ میں سنیارٹی کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر موجود سینئر ترین جج قاضی فائز عیسی کی طرف سے لکھے گئے خط کے بعد عدلیہ کے اندر موجود تقسیم بھی واضح ہو گئی تھی۔

حالیہ بینچ میں قاضی فائز عیسی کی عدم شمولیت سے یہ تاثر مزید گہرا ہوا ہے کہ کہیں نہ کہیں اختیارات کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔ پارلیمان کے اختیار میں بار بار کی مداخلت سے اب پورے جمہوری نظام کے انہدام کا خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔ یہ مطالبہ بالکل درست اور بر محل ہے اور جمہوری نظام کی بقا کے لیے پارلیمنٹ پر فرض ہے کہ سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کے اختیارات کسی قاعدے میں لانے کے لیے جلد از جلد قانون سازی کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments