خواجہ آصف پھنکارنے کی بجائے عملی اقدامات کریں


گزشتہ روز قومی اسمبلی میں وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے دھؤاں دار تقریر کی۔ انہوں نے ایک ہی خطاب میں عدالتی جبر و نا انصافی، اشرافیہ کی منہ زوری اور بیوروکریسی کی حد سے بڑھی ہوئی طاقت کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالتوں کے بعض جج آئین و قانون کے تقاضے پورے نہیں کرتے اور اشرافیہ اپنی سہولتیں چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہے۔ اور ایوان بے بس ہے۔

جس بے بس ایوان کا مرثیہ پڑھتے ہوئے خواجہ آصف نے گزشتہ روز ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے، اسی کا رکن بنے رہنے کے لئے حکومت میں شامل تمام پارٹیاں مسلسل نئے انتخابات کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ اور اگر کبھی انتخاب ہوئے تو یہی رکنیت دوبارہ حاصل کرنے کے لئے تمام وسائل اور ہمہ قسم ہتھکنڈے بروئے کار لائے جائیں گے۔ اس لئے پہلا سوال تو یہی بنتا ہے کہ اگر پارلیمنٹ بے اختیار اور ارکان اس حد تک بے بس و لاچار ہیں کہ اسلام آباد کے ایک کلب کا آڈٹ کروانے کا اختیار بھی نہیں رکھتے تو خواجہ آصف سمیت تمام سیاسی لیڈر اس ایوان کا رکن بنے رہنے کے لئے ہر حد سے گزر جانے پر کیوں مصر رہتے ہیں؟

کیا خواجہ آصف کی باتوں سے یہ نتیجہ اخذ کیا جائے کہ مٹھی بھر سیاست دانوں کے علاوہ سب ملک و قوم کے مفادات سے بے بہرہ اور ذاتی جاہ و مرتبہ کے لئے تگ و دو کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہی رویہ درحقیقت اس وقت ملک میں سیاسی و معاشی بحران کی بنیادی وجہ ہے اور اسی کی بدولت تصادم و بیزاری کا ایسا ماحول پیدا کیا جا چکا ہے کہ ملک کا وزیر اعظم بھی تمام سیاسی پارٹیوں کو اہم ترین قومی امور پر بات کرنے کے لئے ایک جگہ جمع کرنے پر قادر نہیں ہے۔ حال ہی میں شہباز شریف نے معیشت اور دہشت گردی کے معاملات پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے ایک آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان کیا تھا۔ ایک دو مرتبہ اس کا انعقاد مؤخر کرنے کے بعد شاید یہ ارادہ ترک کر دیا گیا۔ کیوں کہ جس دوسری سیاسی قوت سے بات چیت کے ذریعے قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی، وہ اس وقت ’جیل بھرو تحریک‘ کے تحت موجودہ حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار کر رہی ہے۔ اور موجودہ حکومت میں شامل نمایاں سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل بیٹھنے پر آمادہ نہیں ہے۔ درحقیقت یہی صورت حال شاید مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام میں بھی پائی جاتی ہو۔ کیوں کہ ان پارٹیوں میں بھی تحریک انصاف اور اس کی قیادت کے لئے کوئی نرم گوشہ نہیں ہے۔

خواجہ محمد آصف جہاں دیدہ اور تجربہ کار سیاست دان ہیں۔ وہ سوچ سمجھ کر اور ناپ تول کر الفاظ منہ سے نکالتے ہیں۔ اگر ان کی تقریر شعلہ افشانی بھی کر رہی ہو تو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ گولہ باری کسی خاص ٹارگٹ کو نشانہ بنانے کے لئے کی جا رہی ہے۔ نوٹ کرنے کی ضرورت ہے کہ خواجہ آصف کی قومی اسمبلی میں ’قومی درد‘ سے لبریز تقریر مریم نواز کے سرگودھا میں خطاب کے ایک روز بعد کی گئی ہے۔ مریم نواز نے بھی سپریم کورٹ کے بعض ججوں کو نشانہ بنایا تھا اور خواجہ آصف بھی وہی مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ہتھکنڈے درحقیقت سپریم کورٹ کو دباؤ میں لانے اور ادارہ جاتی تصادم کو ہوا دینے کی حکمت عملی کا حصہ دکھائی دیتے ہیں۔ اس تناظر میں یہ تقریر اور اس میں کی جانے والی باتیں بے مقصد ہو کر رہ جاتی ہیں۔ خواجہ آصف ایک ایسی حکومت میں ایک ذمہ دار وزارت پر متمکن ہیں جس کا دعویٰ ہے کہ وہ سیاست سے پہلے قومی مفادات کی حفاظت پر عمل کر رہی ہے۔ اس کے ارکان اگر محض سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لئے ہی تقریریں کرتے رہیں گے تو قومی مفاد کا وہ سفر کیسے مکمل گا جس کی تکمیل کے بغیر بحران زدہ پاکستان کے لئے آسانی فراہم نہیں ہو سکتی۔

ملکی سپریم کورٹ کا ماضی درخشاں نہیں ہے۔ عدالت عظمی میں شامل ججوں کے باہمی اختلافات بھی عیاں ہیں اور بدنصیبی سے موجودہ چیف جسٹس نے اصلاح احوال کے لئے کوئی اقدام کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔ بلکہ مخصوص ججوں کو سیاسی فیصلے صادر کرنے والے بینچوں میں شامل کر کے وکلا برادری اور تجزیہ نگاروں کی اس درخواست کو مسلسل مسترد کیا ہے کہ سینئر ججوں کو اہم آئینی معاملات کی سماعت کرنے والے بنچوں میں شامل کیا جائے۔ انہوں نے اس اصول کو بھی درخور اعتنا نہیں سمجھا کہ پارلیمانی و حکومتی اختیارات میں مداخلت سے گریز کیا جائے اور ایسی تشریحات نہ کی جائیں جو آئین کی روح کے منافی ہوں یا اس سے ایسے مطالب اخذ ہوں جو درحقیقت آئین کا مطمح نظر نہیں تھے۔

اس رویہ نے اس وقت سپریم کورٹ کو کسی حد تک متنازعہ ادارہ بنا دیا ہے۔ اس سے پہلے فوج اور پارلیمنٹ بھی متنازعہ بنائے جا چکے ہیں۔ ان حالات میں اگر قومی تعمیر کا کام کرنے والی حکومت کی اہم پارٹی اور اس کے وزرا اب سپریم کورٹ کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے اور اسے دباؤ میں لانے کے ہتھکنڈے اختیار کریں گے تو اس سے قومی بحران سیاست و معیشت سے بڑھ کر ادارہ جاتی تصادم کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ یہ صورت حال کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ اس لئے ہر ادارے کے نمائندوں کو ایسی انتہائی پوزیشن لینے سے گریز کرنا چاہیے جو اسے پوائنٹ آف نو ریٹرن تک لے جائے۔ کیوں کہ اہم ترین اداروں کے برسر پیکار ہونے سے صورت حال دگرگوں ہو سکتی ہے۔

مسلم لیگ (ن) متعدد شواہد و اعترافات سامنے آنے کے بعد بجا طور سے یہ امید کر رہی ہے کہ اس کے لیڈر نواز شریف کے ساتھ کی جانے والی عدالتی زیادتی کی تلافی کی جائے۔ خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ ہی ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی شہادت کا سبب بنی تھی اور اسی عدالت کے ہاتھوں نواز شریف کو آئینی شہید کیا گیا۔ سپریم کورٹ کے پاس ذوالفقار علی بھٹو کیس کو ری وزٹ کرنے اور ایک فوجی آمر کے دور میں کی جانے والی عدالتی نا انصافی کی تلافی کرنے کا موقع موجود تھا لیکن باقاعدہ درخواست سامنے آنے کے باوجود پاکستانی سپریم کورٹ کے دامن پر لگے ہوئے اس بدنما داغ کو مٹانے کی کوشش کرنا ضروری نہیں سمجھا گیا۔ حالانکہ اگر سپریم کورٹ کا کوئی بھی چیف جسٹس یہ حوصلہ کر لیتا تو عدالت عظمی کی عزت و وقار میں اضافہ ہوتا اور ملک کے عام شہری کو یقین ہوجاتا کہ اعلیٰ عدلیہ کے جج محض عدلیہ بحالی تحریک کی حد تک خود مختار نہیں ہوئے بلکہ اب انہوں نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے اور مزید غیر آئینی و غیر قانونی اقدام نہ کرنے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔

بھٹو کیس کو مسلسل نظر انداز کرنے کے علاوہ ماضی قریب میں دو ایسے مواقع پیش آئے جب عدالت نے ایک بار پھر کمزوری کا مظاہرہ کیا اور ٹھوکر کھائی۔ ان میں سے پہلا موقع سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کا فیصلہ تھا۔ یہ خصوصی عدالت سپریم کورٹ کے حکم سے قائم ہوئی تھی لیکن مشرف کو سزائے موت دینے کے بعد اس عدالت کو لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج نے ’غیر آئینی‘ قرار دیا اور سپریم کو رٹ نے اس کا نوٹس لینا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ جبکہ وہی عدالت دو صوبوں میں انتخابات کے معاملہ میں براہ راست کود پڑی ہے۔ حالانکہ یہ معاملہ صوبائی گورنروں اور الیکشن کمیشن کے مابین تھا اور ہائی کورٹس مختلف درخواستوں پر غور کرتے ہوئے اس صورت حال کو مانیٹر کر رہی تھیں۔ چیف جسٹس کی طرف سے سوموٹو لینے اور بنچ میں شامل ججوں کی طرف سے اسمبلیاں توڑنے کی آئینی حیثیت پر سوالات اٹھانے جیسے نازک پہلوؤں نے یہ معاملہ اس حد تک الجھا دیا ہے کہ سپریم کورٹ براہ راست سیاست دانوں کے نشانے پر ہے۔

اس حوالے سے دوسرا موقع آئین کی شق 184 ( 3 ) کے تحت نواز شریف کے خلاف کارروائی تھی حالانکہ وہ اس وقت ملک کے وزیر اعظم تھے۔ انہیں ان کے عہدے سے الگ کرنے کا آئینی طریقہ موجود تھا۔ اس کے باوجود سپریم کورٹ کے جج اس معاملہ میں اسٹبلشمنٹ کے آلہ کار بنے اور ایک ایسی آئینی شق کے تحت نواز شریف کو تاحیات نا اہل کیا گیا جس کے خلاف نظر ثانی کی اپیل بھی نہیں ہو سکتی۔ گویا اس پانچ رکنی بنچ کا فیصلہ پتھر پر لکیر ہو گیا جسے کسی صورت تبدیل نہیں جا سکتا۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو بنیادی حقوق کی حفاظت کے نقطہ نظر سے ملنے والے اختیار کا استعمال کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے ملک کے وزیر اعظم کے بنیادی حقوق ہی نظر انداز کر دیے۔ کسی عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کے حق سے محرومی انسانی حق کی سب سے بڑی خلاف ورزی کہی جا سکتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جب ایک بار پھر سوموٹو اختیار کے تحت بنچ بنا کر ملکی سیاست میں معاملات طے کروانے کا عزم کیا ہے تو اس پر قانونی حلقوں کے علاوہ سیاسی جماعتوں میں بھی بے چینی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ اس سے پہلے صدر کا آئینی ادارہ دوسرے آئینی ادارے الیکشن کمیشن کو چیلنج کر رہا تھا۔ اب چیف جسٹس دیگر تمام اداروں کو نظر انداز کر کے خود آئینی صورت حال واضح کرنا چاہتے ہیں۔ ابھی تو چند سیاسی جماعتوں نے بنچ کی تشکیل پر اعتراض کیا ہے لیکن اگر اس معاملہ پر کوئی ایسا فیصلہ صادر ہوتا ہے جس کا اشارہ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس منصور علی شاہ کے ریمارکس میں دیا گیا ہے کہ کوئی وزیر اعلیٰ پارٹی لیڈر کے حکم پر کیوں کر اسمبلی تحلیل کر سکتا ہے تو ایک نیا تنازعہ شروع ہوتے دیر نہیں لگے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ کو سیاسی معاملات میں براہ راست اور دو ٹوک اقدام کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ اسی لئے سیاسی امور کا فیصلہ آئینی شق 184 ( 3 ) کے تحت قائم بنچوں میں نہیں ہونا چاہیے۔

خواجہ آصف کے عدالتوں سے شکوے بجا ہوسکتے ہیں لیکن موجودہ صورت حال میں قومی اسمبلی میں ملک کے اہم ادارے کو نشانہ بنانا مناسب نہیں ہے۔ بہتر ہو گا کہ عدالتی پریکٹس کے بارے میں حکومت آئینی حدود میں رہتے ہوئے مناسب قانون سازی کرے۔ جیسے کابینہ نے حکومتی ارکان اور سرکاری اہلکاروں کی مراعات کم کرنے کا فیصلہ کیا لیکن وزیر اعظم نے عدلیہ سے محض درخواست کی کہ وہ بھی ایسے ہی اقدام کریں۔ حالانکہ ججوں کو ملکی خزانے سے تنخواہیں اور مراعات ملتی ہیں۔ ان کا فیصلہ بھی پارلیمنٹ میں ہونا چاہیے نہ کہ یہ اختیار چیف جسٹس کو دے دیا جائے۔

اسی طرح وزیر دفاع جب چند ایسے اداروں کو ذکر کرتے ہیں جو کھربوں کی املاک پر تصرف کے باوجود پارلیمنٹ کو جوابدہ نہیں ہیں تو یہ حکومتی کمزوری اور مصلحت کوشی کا اعلان ہے۔ اگر حکومت واقعی مشکل فیصلے کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو قومی بچت مہم کے تحت اسے ہر طاقت ور ادارے کو پابند کرنے اور اس کے وسائل کنٹرول کرنے کا اقدام کرنا چاہیے۔ ایسے کسی فیصلے کو وسیع عوامی تائید بھی حاصل ہوگی۔ لیکن اگر تقریروں میں سیاسی مقاصد ہی حاصل کرنا ہیں تو نہ پارلیمنٹ با اختیار ہو سکے گی اور نہ سیاست دانوں پر اعتبار بحال ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2771 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments