طاقتور کے لمبے اور قانون کے چھوٹے ہاتھ


بالفرض کل کلاں کو ایک ملزم یا سزایافتہ مجرم، ریاست کا مجرم کراچی ائر پورٹ پر اتریں، بلکہ لاہور ائر پورٹ پر اتریں اور وہاں پر ریاست اسے گرفتار کرنے کو کھڑی ہو۔ ایسے میں اس شخص کو پسند کرنے والے چا ر پانچ ہزار لوگ وہاں کھڑے ہوں اور پھر جیسے ہی پولیس والے اسے گرفتار کرنے کی کوشش کریں وہ چار پانچ ہزار لوگ اس شخص کے گرد حصار بنا کر اس کو لاہور کے کسی پوش علاقے کے بنگلے میں لے جائے اور ایسے میں ریاست منہ تکتی رہ جائے تو اس پورے سلسلے کو کیا کہا جائے گا؟

پھر اس بنگلے کے گرد ہمہ وقت ہزاروں انسان اس وجہ سے کھڑے ہو کہ ریاست جب بھی اس شخص کو گرفتار کرنے آئے تو مزاحمت کی جائے اور ریاست اس بنیاد پر ایکشن نہ کریں کہ انسانی المیہ جنم لے سکتا ہو۔ پھر جب اس شخص یا ملزم کو عدالت طلب کریں تو وہ ہزاروں کے لشکر کے ساتھ عدالت پہنچیں اور بزور عوامی طاقت عدالت پر دباؤ بڑھایا جائے، عدالت کے دروازے توڑے جائیں، پولیس والوں کو مارا جائے، کیمرے توڑے جائیں اور عدالت انتظار کریں کے ملزم پیش ہو تو بات آگے بڑھے۔ پھر اس ملزم کے حق میں فیصلہ ہو اور اسے ضمانت نصیب ہو۔ تو کیا اس ضمانت کو زبردستی کی یا بزور طاقت حاصل کی گئی ضمانت کہا جائے گا؟

اس پورے سلسلے میں ریاست کو کھلے عام چیلنج کیا گیا، معزز اداروں کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی گئی، کیا یہ طریقہ کسی طور ٹھیک ہے؟ یہ تو بہت منفی پیغام ہے جو بہت سے طاقتور لوگوں کو مل رہا ہے کہ کل کلاں کو وہ بھی ایسے ہی ہزاروں لوگوں کے ساتھ کسی بھی ادارے کو بلیک میل کریں ایسے میں ریاست کی عملداری کیسے برقرار رہے گی یہ تو کھلم کھلا توہین ریاست ہے جس کو طاقت سمجھا جا رہا ہے۔

بطور پاکستانی سب سے پہلے ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ غلط ہر حال میں غلط ہو گا چاہے اسے کروڑوں لوگوں کی حمایت حاصل ہو، سارے پاکستانی مل کر اگر جھوٹ بولیں تو کیا وہ سچ ہو جائے گا ہرگز نہیں۔ کیا کوئی مولوی جھوٹ بولے گا تو کیا وہ ایمان کا حصہ بن جائے گا بالکل نہیں، کیا کوئی سیاست دان اگر جھوٹ بولے گا تو وہ معتبر ہو جائے گا بالکل بھی نہیں۔ پاکستانیوں کے بہت سارے مسئلوں میں سے ایک مسئلہ اندھی تقلید ہے جو وہ اپنے مولوی کی کرتے ہیں یا پھر سیاسی رہنما کی اور ان کی کہی ہوئی ہر بات پر ایمان لے آتے ہیں اور کسی اقوال زریں کی طرح جگہ جگہ پھیلاتے پھرتے ہیں۔

یہ ہی کچھ گزشتہ چند دنوں سے جاری ہے۔ سیاسی رہنما کو پسند کرنا کوئی بری بات نہیں البتہ ان کی ہر اقدام کو حق جاننا اور دوسروں کو بھی بزور غلط زبان و طاقت اس کا اقرار کروانا کون سی دانش ہے۔ آپ جس کو پسند کرتے ہیں اسے آپ اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ جو آپ کی زندگی پر اثر ڈالے گا اس سے سوال کرنا یا اس کے کاموں پر سوال درازی کیسے غلط ہو سکتی ہے؟ صرف تشدد کے ذریعے اپنی بات منوانا حق کی فتح نہیں کہلاتی بلکہ یہ فسطائیت کا سب سے بھیانک چہرہ ہے۔

ارے پاکستانیوں، غریب پاکستانیوں، سفید پوش پاکستانیوں اپنے حال پر رحم کھاؤ، اپنے حال کو دوسروں کے سیاسی مقاصد پر قربان نہ کرو، یہ جذباتیت مستقبل میں بہت ستائیں گی۔ ہم جس ملک میں رہتے ہیں یہاں ہر چیز دو نمبر ہے، اپنی جوانیاں اپنے خاندان، بیوی بچوں، والدین کے لئے رکھو۔ یاد رکھو تم دو بڑے گروہ کی لڑائی میں صرف پیادے ہو جو کبھی بھی نشانہ بن جائے گا اور کوئی پرسان حال نہ ہو گا۔ سنبھل جاؤ اور اپنے مستقبل پر دھیان دو، بس یہ راستہ ہے باقی سب دھواں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments