کشمیر کے بعد سندھ طاس معاہدے پر بھارتی عزائم


جنوری 2023 میں پاکستانی دفتر خارجہ کو بھارت کی جانب سے ایک خط موصول ہوتا ہے جس میں سندھ طاس معاہدے کے آرٹیکل بارہ کی کلاز تین کے تحت معاہدے میں ترمیم کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ یہ خط ایک ایسے وقت میں لکھا گیا جب سندھ طاس معاہدے پر پاکستان اور بھارت کے درمیان طے شدہ میکینزم تعطل کا شکار ہو کر کیس ثالثی عدالت میں پہنچ چکا ہے۔ یہ کیس پاکستان نے دائر کیا ہے جب کہ بھارت نے اس کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔

باسٹھ سالہ سندھ طاس معاہدہ روایتی نکات سے ہٹ کر اس اعتبار سے بھی مثبت پہلو کا حامل ہے کہ اس معاہدے کی رو سے بھارت نے کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو تسلیم کیا۔ پاکستان کے اکثر دریا بالخصوص دریائے سندھ وادی کشمیر سے گزر کر پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور بھارت کا ان تینوں دریاؤں پر پاکستان کا ایک عالمی معاہدے کی روشنی میں حق تسلیم کرنا، سفارتی کامیابی تھی۔ 1951 سے جاری باضابطہ مذاکرات میں دونوں نوزائیدہ ممالک کو معاشی دباؤ کا سامنا تھا جسے ورلڈ بنک کی معاشی و تیکنیکی تجاویز نے بالآخر ستمبر 1960 میں نتیجہ خیز بنایا۔

یوں پاکستان کے لئے اس معاہدے سے نو سو ملین ڈالرز کے فنڈز کا اجرا کیا گیا جسے سے بعد ازاں تربیلا ڈیم اور منگلا ڈیم کی تعمیر کرنے کے ساتھ ساتھ نہری نظام میں بھی اصلاحات کی گئیں۔ تب سے اس معاہدے کو برقرار رکھنے میں جذبہ خیر سگالی سے بڑھ کر معاشی پہلو کا عمل دخل زیادہ رہا ہے۔ لیکن اب حالات تیزی سے بدل چکے ہیں۔ پاکستان اپنی معیشت کو تو مضبوط بنیاد پہ استوار نہ کر سکا البتہ بھارت معاشی میدان میں طاقتور ہو چکا ہے۔ چنانچہ بھارت اب اس بارہ نکاتی معاہدے میں تبدیلیوں کا خواہاں ہے۔

پاکستان اس وقت سندھ طاس نظام سے 146 ملین ایکڑ فیٹ سالانہ پانی کا بہاؤ حاصل کر رہا ہے جس پہ اس وقت تین ڈیمز، انیس ہیڈ ورکس، گیارہ لنک نہریں اور پچپن نہریں بنائی گئی ہیں۔ سندھ طاس نظام پاکستان کے پانچ لاکھ چھیاسٹھ ہزار مربع کلومیٹر رقبہ کو سیراب کرتا ہے جس پہ ملک کی اسی فیصد آبادی کا انحصار ہے۔ اس نظام کا پاکستان کی زرعی پیداوار میں کردار کے اعتبار سے جی ڈی پی کا بیس سے پچیس فیصد حصہ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس نظام میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث 2025 تک بتیس فیصد کمی کا خدشہ ہے۔ تیزی سے بڑھتی آبادی والے اس خطے میں پانی کی یہ کمی مستقل طور پر شدید غذائی بحران کا شکار بنا سکتی ہے۔

یوں تو بھارت نے ہر عشرے میں سندھ طاس معاہدے میں ترامیم کروانا چاہیں مگر اس سلسلے میں دراڑ تب سامنے آئی جب 2006 میں دریائے جہلم کے مقبوضہ کشمیر کے خطے میں بھارت نے 330 میگا واٹ کا حامل کشن گنگا ڈیم منصوبے پر پاک بھارت اختلافات سامنے آئے۔ اس دوران بھارت کو اس معاہدے میں ورلڈ بنک کے محدود کردار کا بخوبی احساس ہو چکا ہے اور اسی تناظر میں وہ پاکستان پر دباؤ بڑھانا چاہ رہا ہے کہ اس معاہدے میں طرفین کی مرضی سے ترمیم ہوں تاکہ اس کی عالمی حیثیت کو ختم کیا جا سکے۔

اب چونکہ یہ اختلاف سفارتی سے بڑھ کر قانونی حیثیت اختیار کر چکا ہے، پاکستان کو سندھ طاس معاہدے کے دو پہلوؤں کا خصوصی طور پہ جائزہ لینا چاہیے۔ اول عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں دریاؤں کا پانی تیزی سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ ماحولیاتی عدم توازن سے زیر زمین اور بالائے زمین جو پیچیدگیاں پیدا ہو چکی ہیں ان کے حل کے لئے طویل مدتی منصوبہ بندی درکار ہے لیکن یہ بھی تبھی ممکن ہے جب ملکوں کے پانی کے ذخائر پر تسلیم شدہ اجارہ داری ہو۔

عصر حاضر میں عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کا سب سے بڑا اثر پانی کے نظام پہ پڑ رہا ہے جس میں عدم توازن کے سبب زیر زمین ذخائر، پینے کے صاف پانی، زرعی زرخیزی اور سیلابی و انحطاطی پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ ان حالات کے پیش نظر بھارت تیزی سے سندھ طاس معاہدے کے حامل دریاؤں پر ڈیمز کی تعمیر کر کے ان کے پانیوں کا رخ بھی موڑ رہا ہے۔ پاکستان کے لئے دوسرا بڑا چیلنج بھارت کی جارحانہ سفارتی پالیسی ہے۔ اگست 2019 میں آرٹیکل 370 میں ترمیم کر کے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کر کے اسے آئینی اکائی میں ضم کرنے کے بعد جس طرح بھارت نے پاکستان کی تمام سفارتی کوششوں کو ناکام بنا کر تنہا کیا اس کے بعد سے اس کا سندھ طاس معاہدے میں ترمیم کے لئے دباؤ ڈالنا ان کے اگلے قدم کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ماہرین کے مطابق بھارت کے مقتدر حلقوں میں اب یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت کے خاتمے کے بعد اب کشمیر کو بھارتی خطے کے طور پر دیکھا جائے اور سندھ طاس معاہدہ بجائے خود ایک دو طرفہ معاہدہ کے طور پہ ترمیم شدہ ہونا چاہیے۔

پاکستان کو اس خطرے سے نمٹنے کے لئے سفارتی کوششوں کے ساتھ ساتھ قانونی پہلوؤں کو بھی بروئے کار لانا ہو گا۔ ماحولیاتی تبدیلیوں پر بین الاقوامی قانون کے دائرہ اختیار پہ خصوصی دلچسپی لینے والے نوجوان ماہر قانون شاہ رخ شاہنواز کے مطابق تاریخ میں ایسی مثال ملتی ہے جس میں عالمی عدالت انصاف نے دریاؤں پر اپنا دائرہ اختیار استعمال کیا۔ 1997 میں عالمی عدالت انصاف نے چیکو سلواکیہ اور ہنگری کے مابین دریائے ڈینیوب پر باہمی معاہدے کو عالمی معاملہ قرار دیتے ہوئے اپنی قانونی رائے دی جسے تسلیم کیا گیا۔

پاکستان نے جب 2016 میں کشن گنگا ڈیم کی تعمیر پر ورلڈ بنک سے ثالثی کا مطالبہ کیا تو بھارت نے جواباً ایک ماہر کے تعین کا مطالبہ کر دیا۔ ورلڈ بنک نے اس وقت بھی طرفین کو باہمی رضامندی سے مسئلہ حل کرنے کی جانب متوجہ کیا۔ تاہم ناکامی پر مارچ 2022 میں دونوں ممالک کا مطالبہ تسلیم کر لیا۔ ورلڈ بنک کے محدود کردار کے پیش نظر پاکستان اس کیس کو عالمی عدالت انصاف بھی لے جا سکتا ہے جس کی رائے ٹھوس بنیادوں پر اقوام متحدہ اور بین الاقوامی قانون کا اطلاق کرتا ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ اب عالمی طور پہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات کے ازالے کے لئے متاثرہ ممالک کے لئے قانونی حقوق کی بات تسلیم کی جا رہی ہے۔ متاثرہ ممالک انسانی تحفظ کو ٹھیک اسی طرح تسلیم کروا رہے ہیں جس طرح کسی ریاست کے علاقائی سالمیت اور اقتدار اعلی کے تحفظ کے واضح قوانین رائج ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان کو بھی اس قانونی جنگ کا حصہ بننا چاہیے اور سندھ طاس معاہدے اور اس کے نظام کے انسانی تحفظ کو یقینی بنانا چاہیے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان سندھ طاس معاہدے کی اہمیت کو بھارت کے حالیہ مقبوضہ کشمیر کے متعلق پالیسی کے تناظر میں دیکھے۔ بھارت اپنی معاشی طاقت کا سفارتی سطح پر بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے جس کی جھلک پاکستان نے اگست 2019 کے بعد اقوام متحدہ اور او آئی سی کے فورمز میں دیکھ چکا ہے۔ چنانچہ پاکستان کے پاس سندھ طاس معاہدے کے تحفظ کے لئے عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کے تحت انسانی سیکیورٹی کی تحریک کا بھرپور قانونی جواز موجود ہے جسے اقوام متحدہ اور بین الاقوامی عدالت انصاف بھی تسلیم کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).