سیاسی کارکن کی ہلاکت پر سیاست


آٹھ مارچ کو تحریک انصاف کے کارکن علی بلال کی ہلاکت کے سوال پر پنجاب حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان الزامات کا تبادلہ ملک میں سیاسی ماحول کی تلخی و شدت میں اضافہ کرے گا۔ گزشتہ روز نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے انسپکٹر جنرل پولیس اور دیگر اعلیٰ افسروں کے ساتھ پریس کانفرنس میں علی بلال کی موت کو حادثہ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اسے تحریک انصاف کے ایک لیڈر کی گاڑی نے فورٹرس اسٹیڈیم کے نزدیک ٹکر ماری تھی جس میں وہ جان بحق ہو گیا۔ عمران خان اور تحریک انصاف کی قیادت اس دعوے کو مسترد کرتی ہے۔

اس سانحہ میں متعدد سوال بدستور جوب طلب ہیں۔ ایسے میں تحریک انصاف کے چیئرمین کا یہ مطالبہ جائز ہے کہ اس سانحہ کی عدالتی تحقیقات کروا کے حقائق منظر عام پر لائے جائیں۔ البتہ اس مطالبہ کے ساتھ تحریک انصاف کی قیادت جس شدت کے ساتھ کسی تحقیق کے بغیر پولیس کو مجرم اور نگران حکومت کو ملوث قرار دینے کی کوشش کر رہی ہے، اس سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ تحریک انصاف بہر حال ایک کارکن کی موت کو ’سیاسی شہادت‘ بنا کر پیش کرنا چاہتی ہے۔ سوشل میڈیا پر چلائے جانے والے ٹرینڈز سے بھی یہ خواہش نمایاں ہوتی ہے۔

یوں بھی علی بلال کے بارے میں جو معلومات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق وہ دیوانگی کی حد تک عمران خان کا حامی تھا اور گزشتہ 10 سال سے تحریک انصاف کی تقریبات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔ عمران خان نے جب سے زمان پارک کی رہائش گاہ میں ڈیرے ڈالے ہیں، اس وقت سے ہی وہ روزانہ زمان پارک پہنچ جاتا اور وہاں پارٹی اور عمران خان کے حق میں نعرے بازی کرتا رہتا۔ بعد میں زمان پارک کی رہائش گاہ کے باہر کیمپ لگا دیا گیا تو علی بلال مستقل طور سے وہاں موجود رہنے لگا۔

البتہ ان دس سالوں میں پارٹی اور عمران خان کے ساتھ وفاداری اور انسیت کا مظاہرہ کرنے کے باوجود، اس کی کبھی اپنے لیڈر کے ساتھ ملاقات نہیں ہو سکی۔ زمان پارک سے رپورٹنگ کرنے والے مختلف نیوز میڈیا کے صحافیوں نے علی بلال کی اس شدید خواہش کے بارے میں بتایا ہے۔ تاہم عمران خان سے ملاقات کی خواہش دل میں لئے پارٹی کے لئے قربان ہونے والے علی بلال کی موت کو اب مرحوم کارکن کا لیڈر ایک قومی المیے کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ اس ہلاکت کو پولیس تشدد کی مثال، حکومت کی سفاکیت اور نظام کی ناکامی کا نمونہ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسے میں عمران خان کو یہ جواب بھی دینا چاہیے کہ اگر سیاسی کارکنوں کی ان کے نزدیک اتنی ہی اہمیت ہے تو کیا وجہ ہے کہ موسمی شدت کے باوجود تحریک انصاف اور عمران خان کے ساتھ وابستگی کا اظہار کرنے کے لئے زمان پارک جمع ہونے والے کارکنوں سے روزانہ نہ سہی، ہفتہ عشرہ میں ہی ایک آدھ ملاقات کا اہتمام کیوں نہیں کیا جاتا۔

نومبر میں لانگ مارچ کے دوران قاتلانہ حملہ کے بعد سے عمران خان زمان پارک میں محصور رہے ہیں۔ اس دوران انہوں نے ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ اپنا سیاسی پیغام عام کرنے کے لئے وہ اکثر صحافیوں یا ایڈیٹروں کے وفود سے طویل ملاقاتیں بھی کرتے ہیں۔ اس کے باوجود ان کے پاس اپنے جاں نثار کارکنوں سے ملنے، ان کی بات سننے، ان کی سیاسی تربیت کرنے یا ان کے ذریعے عوامی سطح پر پائے جانے والے جذبات سے آگاہی حاصل کرنے کا وقت نہیں ہوتا۔ اب وہ پوری شدت اور توانائی سے علی بلال کو ’انصاف‘ دلانے کے لئے، اس معصوم کارکن کی ہلاکت کو سیاسی علم بنائے ہوئے ہیں۔ کیا وہ اس سانحہ سے سبق سیکھ کر مستقبل میں پارٹی کارکنوں کی زندگی میں ان کی خدمات کا اعتراف کرنے کا اہتمام کریں گے۔ عمران خان کے رویہ میں یہی تبدیلی درحقیقت علی بلال کو سب سے بڑا خراج عقیدت ہو سکتی ہے۔

پنجاب پولیس اور نگران وزیر اعلیٰ کی پریس کانفرنس علی بلال کی ہلاکت کے تین روز بعد منعقد کی گئی ہے۔ حالانکہ اگر اسے گاڑی کی ٹکر مار کر زخمی کرنے والے ڈرائیور اور اس کے ساتھی نے خود ہی سروسز ہسپتال پہنچایا تھا تو پولیس کو فوری طور سے اس حادثہ کی تفصیلات عام کرنی چاہئیں تھیں۔ تحریک انصاف نے تو پہلے دن ہی علی بلال کی ہلاکت کو پولیس تشدد کا شاخسانہ قرار دیا تھا۔ اب یہ تفصیلات بھی سامنے آئی ہیں کہ 8 مارچ کو زمان پارک کے نواح میں ہونے والے تصادم کے دوران علی بلال کو کئی دیگر کارکنوں کے ساتھ حراست میں لیا گیا تھا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ ان کارکنوں کو فورٹرس اسٹیڈیم کے قریب رہا کر دیا گیا۔ گویا پولیس کا ارادہ نیک نیتی سے ان کارکنوں کو تصادم سے بچانا اور ہنگامہ آرائی سے نکالنا تھا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ وہیں تحریک انصاف کے لیڈر کی ایک گاڑی سے اس کا ایکسیڈنٹ ہوا اور شدید زخمی حالت میں اسے سروسز ہسپتال پہنچایا گیا۔ ہسپتال ذرائع کے حوالے سے یہ اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ جب علی بلال کو ہسپتال لایا گیا تو اس کی موت واقع ہو چکی تھی۔

پریس کانفرنس میں محسن نقوی نے بتایا کہ پی ٹی آئی کی لیڈر ڈاکٹر یاسمین رشید کو اس حادثہ کی خبر تھی لیکن اس کے باوجود انہوں نے عمران خان کو جھوٹی اطلاعات بہم پہنچائیں اور اسے سیاسی پروپیگنڈے کے لئے استعمال کیا گیا۔ لیکن وہ یہ بتانے میں ناکام رہے کہ نگران حکومت یا پولیس یہ خبر اب کیوں سامنے لا رہی ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ یاسمین رشید نے جان بوجھ کر اس ٹریفک حادثہ کو پولیس تشدد کا معاملہ بنایا تاکہ اس کا سیاسی فائدہ اٹھایا جائے۔ محسن نقوی کہنہ مشق صحافی اور ایک میڈیا ہاؤس کے مالک ہیں۔ انہیں یہ علم تو ہونا چاہیے کہ ایک حادثہ یا مجرمانہ ہلاکت کے معاملہ پر پریس کانفرنس میں ان کی موجودگی کو سیاسی طور سے ہی دیکھا جائے گا۔

یہ درست ہے کہ صوبائی پولیس اور انتظامیہ عبوری طور سے ان کی نگرانی میں کام کر رہی ہیں لیکن نگران وزیر اعلیٰ کے طور پر ان کا بنیادی کام پولیس سمیت تمام اداروں کو خود مختاری سے کام کرنے کے مواقع فراہم کرنا ہے۔ البتہ پولیس افسروں کے ساتھ پریس کانفرنس میں شامل ہو کر انہوں نے یہ تاثر دیا ہے کہ نگران حکومت اس سانحہ میں براہ راست فریق ہے۔ پریس کانفرنس میں محسن نقوی نے عمران خان کو مشورہ دیا کہ ’وہ سیاست کریں اور ان کے یا پولیس کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈا کرنے سے گریز کریں‘ ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر وہ وزیر اعلیٰ نہ ہوتے تو وہ خود پر لگائے جانے والے الزامات کا مناسب جواب دیتے۔ لیکن حیرت ہے کہ اپنے تمام تر تجربہ اور صحافتی پس منظر کے باوجود وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ اس عہدہ پر فائز ہونے کی وجہ سے ہی ان پر الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ اگر وہ وزیر اعلیٰ نہ ہوتے تو کوئی انہیں نوٹس ہی نہ کرتا۔

محسن نقوی نے عمران خان کو سیاسی سبق سکھانے کی جو کوشش کی ہے، وہ خود اس پر عمل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ایک پارٹی کے ساتھ پولیس اور انتظامیہ کے اختلاف میں انہیں غیر جانبدار امپائر کا کردار ادا کرنا چاہیے تھا لیکن پریس کانفرنس کے ذریعے وہ ان شبہات کو تقویت دینے کا سبب بنے ہیں کہ ان کا جھکاؤ ایک خاص سیاسی سوچ کی طرف ہے۔ اس رویہ سے صوبے میں متوقع انتخابات کے حوالے سے تنازعہ پیدا ہونے اور ان کے نتائج پر الزام تراشی کا نیا سلسلہ شروع ہونے کا امکان بڑھ گیا ہے۔ محسن نقوی کا منصب احتیاط اور متوازن سوجھ بوجھ کا تقاضا کرتا ہے۔ البتہ وہ اس کا مناسب اظہار کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ خاص طور سے پریس کانفرنس کے دوران یہ دعویٰ کرنا کہ اگر وہ اس عہدے پر فائز نہ ہوتے تو خود پر ہونے والی تنقید کا مناسب جواب دیتے، ان کی برہمی و ناراضی کو ظاہر کرتی ہے۔ جس الزام تراشی پر وہ شدید خفگی کا اظہار کر رہے ہیں، اس کا ادراک انہیں یہ عہدہ قبول کرنے سے پہلے ہونا چاہیے تھا۔

عمران خان کی سیاست الزام تراشی ہی کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ محسن نقوی کا نام حمزہ شہباز نے اپوزیشن لیڈر کے طور پر تجویز کیا تھا اور انہیں آصف زرداری کے قریب ہونے کی شہرت حاصل ہے۔ پھر انہیں نگران وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ اتفاق رائے سے نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کے صوابدیدی اختیار کے نتیجے میں ہوا تھا۔ عمران خان تو چیف الیکشن کمشنر کو ہی مسلم لیگ (ن) کا ’ایجنٹ‘ قرار دیتے ہیں۔ ایک افسوسناک سانحہ کے تناظر میں محسن نقوی توازن قائم رکھنے اور نگران حکومت کا اعتبار قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس کا ملکی سیاست پر دوررس اثر مرتب ہو سکتا ہے۔

پاکستان میں حکمرانوں کی خوشنودی کے لئے مخالفین پر پولیس تشدد کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سب سیاست دان یکساں طور سے اس صورت حال کے ذمہ دار ہیں۔ بیورو کریسی اور پولیس کو غیر جانبدار بنانے کے لئے اہم ہے کہ انہیں مکمل اختیار دیا جائے اور تقرریوں و تبادلوں کے حوالے سے سیاسی پسند ناپسند کا طریقہ اختیار نہ کیا جائے۔ اس کے برعکس مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ ہر سیاسی پارٹی اقتدار میں آ کر من پسند افسر تعینات کرتی ہے تاکہ ان کے ذریعے مخالفین کو ہراساں کرنے کا کام لیا جائے۔ پرویز الہیٰ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد چند ماہ ہی وزیر اعلیٰ رہے۔ اس دوران وہ کوئی اور بڑا کام تو نہیں کرسکے لیکن سرکاری افسروں کے تبادلوں میں انہوں نے بڑا نام پیدا کیا۔ حتی کہ اسمبلی توڑنے سے پہلے چند روز میں ہی ڈھیروں تبادلے کیے گئے۔ اس کے علاوہ ان ہی کی نگرانی میں ان پولیس افسروں کے خلاف سخت کارروائی کی گئی اور انہیں انتقام کا نشانہ بنایا گیا جنہوں نے حمزہ شہباز کے مختصر دور میں خدمات انجام دی تھیں۔

عمران خان پولیس اصلاحات کا نعرہ لگاتے ہوئے اقتدار میں آئے تھے لیکن مرکز اور پنجاب میں تقریباً چار سال تک حکومت کرنے کے باوجود وہ کوئی اصلاحات متعارف نہیں کروا سکے۔ علی بلال کی ہلاکت کے حوالے سے اب وہ جس صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں، وہ خراب اور بدعنوان نظام کی وجہ سے دیکھنے میں آ رہی ہے۔ جب تک سیاست دان پولیس فورس جیسے ادارے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہیں گے، اس قسم کی زیادتیوں یا شکایات سے نجات حاصل نہیں کی جا سکتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments