خوش گوار خبریں اور آئی ایم ایف کی ذرا سی مشکل شرط


پھولوں کے کھلنے کا موسم آن پہنچا ہے اور وطن عزیز کے لئے بھی یہی خبر ہے اور اس موسم کی رنگینیوں کو دوام بخشنے کی خاطر یہ بھی نہایت ضروری عمل ہو چلا ہے کہ آرمی چیف جنرل عاصم کو چین کے دورے پر روانہ ہو جانا چاہیے۔ میرے لیے تو یہ معمہ حل طلب ہے کہ وہ اب تک بیجنگ کیوں نہیں جا سکے ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستانی آرمی چیف کی گفتگو اس کے وعدے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک انتہائی اہم عنصر کے طور پر موجود ہے بالخصوص چین کے معاملے میں تو اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے چینی حکام ان کے دورے کا شدت سے انتظار کر رہے ہیں تاکہ اس ست روی اور نقصان کا ازالہ ممکن ہو سکے جو سی پیک اور دیگر امور میں سابقہ عمران خان حکومت اور اس دور کی اسٹیبلشمنٹ کے دور میں در آئی۔

راقم الحروف اس زمانے میں بھی تواتر سے انہی صفحات پر اپنی گزارشات رقم کرتا رہا تھا کہ سی پیک پر کام رک گیا ہے طویل عرصے تک جے سی سی کی میٹنگ ہی نہیں ہوئی ہے اسی زمانے میں میری گزارشات کے جواب میں میرا نام لے کر مجھے مخاطب کرتے ہوئے سی پیک پر ایک کالم تحریر کروایا گیا مگر اس میں تمام منصوبے سے وہ بیان کیے جا سکے جو نواز شریف دور میں شروع ہو چکے تھے اور اپنے دور کو گول کر گئے، سر پیٹ لیا۔ اب اس صورت حال کو ماضی بنانے کی غرض سے جنرل عاصم کو بیجنگ کی سرزمین پر پہنچ جانا چاہیے کیونکہ سی پیک اور دیگر معاشی اہداف کے معاملے میں دیر اس حد تک کر دی گئی تھی کہ یہ معاملہ مجرمانہ غفلت سے بھی آگے بڑھ گیا تھا اور اس نقصان کو رفع کرنے کی غرض سے سی پیک پر کام کی رفتار کو دوگنا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وقت کی کمی کے مسئلے سے بچا جا سکے۔

اگر ایسا ہونا ممکن ہو گیا تو پھر اس تجویز پر بھی معقول شرائط کے ساتھ عملدرآمد کرنا ممکن ہو سکے گا جو اس وقت گردش کر رہی ہے کہ چین یہ آفر دے رہا ہے کہ پاکستانی تاجر اپنی ایل سی چین میں کھولے اور مصنوعات کو پاکستان میں وصول کرے مگر اس سب کے لئے سابقہ دور کے اقدامات کا ازالہ ایک لازمی عنصر ہے پاکستان کے لیے خبریں صرف چین سے ہی مثبت نہیں آ رہی ہے بلکہ یورپی اقوام بھی پاکستان کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں اور اس تصور کو بے جا ثابت کر رہی ہے کہ بھارت کی موجودہ معاشی صورتحال کے سبب سے دنیا پاکستان کو وہ اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہے جس کا پاکستان حقدار ہے۔

مثال کے طور پر اٹلی کی جانب سے ٹھنڈی ہوائیں مسلسل چل رہی ہیں۔ اٹلی اور پاکستان بہت سارے بین الاقوامی امور پر بھی یکساں نکتہ نظر رکھتے ہیں جیسے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل اراکین کی تعداد کو وسعت نہ دی جائے اور اس مقصد کے لیے دونوں ممالک نے پاک اٹلی کافی کلب بھی قائم کر رکھا ہے۔ اسی طرح ایف اے ٹی ایف کے معاملات سے نبرد آزما ہونے کے لیے بھی اٹلی نے پاکستان کی خوب مدد کی ہے اور اب تازہ خبر یہ ہے کہ اٹلی پاکستان دفاعی معاملات میں بھی بہت پیش رفت ہو رہی ہے کہ جس پر بھارت بہت چراغ پا بھی ہو رہا ہے مگر اٹلی اس کی پرواہ نہیں کر رہا ہے بالکل اسی طرح جس طرح جرمنی کی وزیر خارجہ نے برلن اور اسلام آباد میں کھڑے ہو کر کشمیر کے قضیے کے حل کے لئے اقوام متحدہ کی بات کی تھی اور اس کی بالکل پروا نہیں کی تھی کہ بھارت اس پر کیا ردعمل ظاہر کرے گا اور یہ بات بھارت پر اس قدر شاق گزری کہ وہ ابھی تک اس کے شاک سے باہر نہیں آیا ہے بلکہ ابھی حال ہی میں جو اس نے جی ٹوئنٹی وزرائے خارجہ اجلاس کے وقت جرمن وزیر خارجہ سے رویہ اپنایا کہ نہ تو ان کا استقبال کیا گیا اور نہ ہی سرخ قالین کو بچھایا گیا تو یہ اسی درد کا اظہار ہے جو کہ بدستور بھارت کو ہو رہا ہے۔

قطر بھی حسب سابق پاکستان کی مدد کرنے کے لئے بہت متحرک ہے اور اس سلسلے میں پاکستان میں متعین سفیر قطر شیخ سعود بن عبدالرحمن آل ثانی بہت محنت کر رہے ہیں۔ قطر بچوں کی تعلیم کے لیے پاکستان میں ایک بہت بڑے اسکول کے قیام پر گامزن ہے جبکہ افرادی قوت سے لے کر مالی معاملات میں تو شانہ بشانہ ہے ہی اور اس کے ساتھ ساتھ اب تو خبریں یہ بھی موجود ہے کہ پاک بحریہ اور پاک فضائیہ سے بھی قریبی تعاون زیر غور ہے۔ پاکستانی افواج بری، بحری، فضائیہ کے افسران و اہلکار زبردست پیشہ ورانہ صلاحیت رکھتے ہیں اور ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے اظہار، استعمال کے لیے ضروری ہے کہ ان کے پاس اپنے شعبے کی ضروری اشیاء موجود ہو اور اسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے خبر ہے کہ قطر پاکستان کو گراں قدر چیزیں تحفے میں دینے والا ہے۔

اگر ہم اس سارے منظر پر نظر ڈالے تو ہمارے سامنے سب کچھ خوش کن ہے کہ چین سے قطر تک سب اچھا ہے جہاں تک آئی ایم ایف سے معاملات کے طے ہونے کی بات ہے تو مسئلہ یہ بنا ہوا ہے کہ سابقہ عمران خان حکومت نے آئی ایم ایف کو سی پیک کی تمام تفصیلات مہیا کر دی تھی آئی ایم ایف اب بھی یہ ہی چاہتا ہے کہ اس نوعیت کی تفصیلات جو کہ معاشی و دفاعی ہوں، آئی ایم ایف کو فراہم کی جائیں کیونکہ ماضی میں پاکستان ایسی مثال قائم کرچکا۔ مگر ماضی میں بھی یہ ایک انتہائی غیر مناسب اقدام تھا اسی لیے موجودہ حکومت اس شرط سے جان چھڑا کر معاہدہ کرنا چاہتی ہے تاکہ کسی قیمت پر بھی پاکستان کے ریاستی راز کسی دوسرے کے علم میں نہ آئے بس یہ ہی ذرا سی مشکل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments