محافظ سے مخاصمت کیوں؟


کسی بھی ریاست کے اندرونی و بیرونی امن و امان کی صورت حال کو برقرار رکھنے کے لیے سکیورٹی فورسز کا ہونا لازم ہے۔ جو کسی بھی ریاست کی بقا میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی ذمہ داریوں کے اعتبار سے انہیں مختلف ناموں سے پہچانا جاتا ہے۔ لہذا جو ملک کی سرحدوں پر پہرہ دیں، انہیں آرمی اور جو اندرونی معاملات پر نظر رکھیں، انہیں پولیس کہا جاتا ہے۔

عوام کا زیادہ تر پولیس سے ہی سامنا رہتا ہے، اسی لیے ان کی ذمہ داریاں بھی آرمی سے زیادہ ہوتی ہیں۔ چوروں، ڈاکوؤں اور بھتہ خوروں سے عوام کی حفاظت کرنا ہو یا قتل و غارت گری اور دہشت گردی کے واقعات، انہیں ہر جگہ سخت ڈیوٹی دینا پڑتی ہے۔

ان کی سب سے ”قابل فخر“ بات یہ ہے کہ اصل مجرم سے تو جرم منوا ہی لیتے ہیں، یہ کسی راہ چلتے ہوئے شخص کو پکڑ کر بھی ہر طرح کا جرم منوانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہماری پولیس کا طریقہ واردات دنیا کی تمام سیکورٹی اداروں سے ممتاز ہے۔ یہاں جرم منوانے کے لیے انتہائی ”شارٹ کٹ“ طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔ چند دنوں میں سب کچھ منوا لیتے ہیں۔ مرضی کا بیان لینے کے لیے چھتر، ڈنڈوں اور مکوں سے تشدد ہو یا جسم کو داغنا ہو، اعضاؤں کو کاٹ کر نمک مرچ لگانا ہو یا ناخن اکھیڑنا ہو، گرفتار شخص کے ساتھ ہر حربہ آزمانا ان کے نزدیک جائز ہے۔ حتی کہ جسم کے نازک حصوں تک کو نہیں بخشا جاتا۔ گویا انسانیت کی تذلیل کی کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ پھر جرم ثابت ہو یا نہ ہو، فیصلہ ہونے تک اس کے اہل خانہ کو جس درد ناک اور ذلت آمیز صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کی مثال ملنا ناممکن ہے۔ اہل خانہ کو ملوانے کے لیے جن جن شرائط پر مجبور کیا جاتا ہے، وہ شاید بیان کرنا بھی مناسب نہیں۔

ہماری پولیس اتنی بھی بری نہیں جتنا سمجھا جاتا ہے، مہنگائی کے اس دور میں عوام کے لیے کچھ ”رعایتی پیکج“ بھی نکالتی ہے۔ جیسا کہ کہیں چالان وغیرہ ہو رہا ہو تو پانچ سو یا ہزار کی بجائے سو، دو سو میں ہمارا ”بھلا“ کر دیتے ہیں۔ کوئی گرفتاری ہو رہی ہو تو جیل جا کر پیسے لگانے کی بجائے، وہیں بیس تیس ہزار روپے میں آگے پیچھے ہونے کا موقع مل جاتا ہے۔ جہاں عدالت کسی بندے کو رہائی نہ دلا سکے وہاں یہی پولیس کام آتی ہے، جو چند لاکھ میں بندہ باہر بھیج دیتی ہے۔ گویا ہماری پولیس کے ایسے کچھ ”اچھے“ کام بھی ہیں۔

اگرچہ ان کا کام تو عوام کی حفاظت کرنا ہے، مگر جب بھی ضرورت کے وقت انہیں کال ملائی جائے تو سب سے پہلے یہی سننے کو ملے گا کہ یہ آپ کا متعلقہ تھانہ نہیں، اگر کال ٹھیک بھی مل جائے تو چور یا ڈاکوؤں کو پکڑنے کی بجائے، فون پر ہی تفتیش شروع کر دی جاتی ہے کہ گارڈ کیوں نہیں رکھتے، کیا کیا چوری ہوا ہے، مال کہاں رکھا تھا، اتنے پیسے اپنے پاس کیوں رکھتے ہو؟ فلاں فلاں۔ اگر بالفرض آنے کی حامی بھر ہی لیں، تو تب پہنچیں گے جب چور مال چرا کر بھاگ گئے ہوں بلکہ تقسیم بھی کر چکے ہوں۔

اکثر تو چور پکڑے ہی نہیں جاتے، اگر پکڑے بھی جائیں تو پھر جس صورت حال سے مالک کو گزرنا پڑتا ہے، وہ تھانوں اور کچہریوں کے چکر لگا لگا کر بالآخر یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کاش پولیس کو کال نہ ہی کرتا۔ کم از کم جو پیسے بچ گئے تھے وہی سنبھال لیتا۔ پولیس چوروں سے بھی سزا سے بچانے کا لالچ دے کر چائے پانی وصول کر رہی ہوتی ہے اور دوسری طرف مالک سے چوروں کو سخت سزا دلوانے اور مال واپس ملنے کا لالچ دے کر ان سے بھی کھا رہی ہوتی ہے۔

اگر گرفتار شخص کے پیچھے آنے والا کوئی نہ ہو یا کوئی غریب ہو، تو اس سے نہ جانے کیا کیا منوا لیا جاتا ہے۔ اسی تشدد میں بیسیوں واقعات موت کی صورت میں بھی رونما ہوتے ہیں۔ جیسا کہ چند سال قبل اے ٹی ایم سے پیسے چرانے والے صلاح الدین کا حال ہوا تھا۔ پنجاب میں سالانہ سینکڑوں واقعات کی لسٹ مل جاتی ہے جو پولیس مقابلوں یا پولیس تشدد میں مارے جاتے ہیں۔ بسا اوقات کئی مہینوں اور سالوں تک بے گناہوں پر تشدد کر کے ان پر جرم ثابت نہ ہونے کا کہہ کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔

اب تو صورت حال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ پولیس کا نام سنتے ہی مجرم خوشی سے کھڑا رہنے اور مظلوم بھاگ جانے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔ بلکہ کراچی میں تو یہاں تک سن رکھا تھا کہ جس راستے پر سٹریٹ کرائم کا خدشہ ہو، وہاں جانے کا رسک لیا جاسکتا ہے، مگر جہاں پولیس کھڑی نظر آ جائے، وہاں سے فوراً راستہ بدل لینا چاہیے۔

کسی مجرم کا جسمانی ریمانڈ مل جائے تو ہمارے ہاں اس کا مطلب ہر قسم کا تشدد ہی مراد لیا جاتا ہے۔ حالاں کہ کوئی قانون زیر حراست ملزم پر تشدد کا حق نہیں دیتا، بلکہ پولیس اپنی پیشہ ورانہ مہارت کے ذریعے جرم کا سراغ لگاتی ہے۔ مگر ہماری پولیس کی ”مصروفیات“ چونکہ زیادہ ہوتی ہیں، اس لیے ہفتوں مہینوں کی بجائے جلد ہی مار کٹائی کر کے ہر بندے سے ہر جرم منوا لیتی ہے۔

اسی تشدد کے خلاف اقوام متحدہ کی جانب سے پندرہ مارچ کو پولیس تشدد کے خلاف عالمی دن منایا جاتا ہے ۔ تاکہ لوگوں میں شعور اور اہلکاروں میں احساس پیدا ہو سکے۔

پولیس کے ادارے کی یہی ”مہربانیاں“ ہیں کہ وہ عوام میں اتنے ”مقبول“ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ہماری ریاست کا بہت بڑا المیہ ہے۔ اسی وجہ سے یہاں ظالم فخر سے دندناتا اور مظلوم شرمندگی کے خوف سے چھپتا پھرتا ہے۔ یہاں شریف کی کوئی ضمانت دینے کو تیار نہیں ہوتا اور مجرم کی ضمانت دینے کے لیے ہر علاقے کے وڈیرے دستیاب ہوتے ہیں۔ یہاں مظلوم پر ناجائز تشدد پر بات کرنا خود کو قربانی کے لیے پیش کر دینے کے مترادف ہوتا ہے۔ حالاں کہ شریعت مطہرہ کسی انسان پر رتی برابر ظلم کی اجازت نہیں دیتی، کسی انسان کی تذلیل کو مباح قرار نہیں دیتی۔

سوچنے کی بات ہے کہ ہم اور ہمارے ادارے روزانہ کی بنیاد لوگوں پر ظلم کر کے بھی اپنے انجام سے بے خوف ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments