ناول: فردوس بریں۔ مصنف: مولانا عبدالحلیم شرر لکھنوی۔ تبصرہ
”مارکو پولو کے سفرنامے پڑھ کر ایک عجیب و غریب کہانی کے ایک انوکھے پلاٹ کا خاکہ میرے دماغ میں یکایک پیدا ہوا۔ یہ پلاٹ میرے دل و دماغ پر اس قدر حاوی ہو گیا کہ مجھے قلمبند کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور خوش قسمتی سے یہ دلچسپ ناول محدود وقت میں تیار ہو گیا۔“ مصنف کے ان الفاظ کو بطور ثبوت لیتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ناول مارکو پولو کے سفرنامے کا بوجھ اپنے سر لیے لکھا گیا ہے۔
دوسری طرف ’بی بی سی اردو‘ پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں ظفر سید نے متعدد مورخین کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ جو جنت شرر نے ناول میں پیش کی ہے، مکمل افسانے پر مبنی ہے۔ حقیقت میں ایسی کوئی مصنوعی جنت نہیں تھی۔
بھلے یہ ناول افسانے پر مبنی کیوں نہ ہو پھر بھی عبدالحلیم شرر کا ”فردوس بریں“ ایک شاندار تاریخی ناول سمجھا جاتا ہے۔ یہ ناول حسن بن صباح کے اپنے فدائین کے لیے بنائی ہوئی مصنوعی جنت کے بارے میں ہے۔
ناول کی شروعات دو مرکزی کردار اپنے آبائی شہر کو حج پر جانے اور وہاں نکاح کرنے کی غرض سے چھوڑنے سے ہوتی ہے۔ حسین اور زمرد، زمرد کے بھائی موسیٰ کی قبر پر فاتحہ خوانی کرنے جاتے ہیں۔ وہاں پریوں کا غول انہیں بے ہوش کر دیتے ہیں۔ ہوش آنے پر حسین کو ایک نئی بنی ہوئی قبر ملتی ہے جسے وہ زمرد کی سمجھتا ہے۔ حسین کافی عرصہ تک وہیں قبر کے پاس ہی رہنے لگتا ہے۔ ایک دن اسے قبر پر پڑا ایک خط ملتا ہے۔ اس خط میں زمرد اسے شیخ علی وجودی کے پاس جانے اور ہر بات میں ان کی اطاعت کرنے کو کہتی ہے۔
حسین وہاں جاتا ہے۔ ان کی ہر ایک بات مانتا ہے۔ اسی طرح ایک دن شیخ کے حکم کی تعمیل میں اپنے چچا امام نجم الدین نیشا پوری کو قتل کر دیتا ہے۔ انعام کے طور پر اسے مصنوعی جنت کی سیر کروائی جاتی ہے۔ وہ زمرد سے ملتا ہے۔ وہاں ایک ہفتہ گزارتا ہے۔ اپنے محبوب کے ساتھ ملاقات سے اس کی رغبت اور بڑھ جاتی ہے اور ہمیشہ زمرد کے ساتھ رہنا چاہتا ہے۔ تاہم اسے جنت میں داخل ہونے کے تقریباً ایک ہفتے بعد بے دخل کر دیا جاتا ہے۔ حسین جنت میں دوبارہ داخل ہونے کے لیے شیخ علی وجودی کے فدائین میں بھی شامل ہوتا ہے۔ فدائی ہونے کے ناتے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتا ہے، یعنی کسی کو بھی قتل کرنے اور ہر حکم پر عمل کرنے کے لیے چاہے وہ ٹھیک ہو یا غلط۔
فدائین وہ نوجوان ہوتے ہیں جن سے کہا جاتا ہے کہ وہ مشہور عالم دین اور مبلغین کو قتل کر دیں اور بدلے میں انہیں ”فردوس بریں“ یعنی مصنوعی جنت میں لے جایا جائے گا۔ وہ جنت میں ایک یا دو ہفتے ذہنی و جسمانی لذتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس مصنوعی جنت میں جنتی لباس میں ملبوس خوبصورت نوجوان لڑکیاں فدائین کو متوجہ کرنے کے لیے موجود ہوتی ہیں۔ ایسا کرنے سے مقصد یہ ہوتا ہے کہ فدائین کو جنت کے ایسے مشتاق بنائے جائے کہ وہ ان کی باتوں کو ماننے سے کبھی انکاری نہ ہو سکیں جن کا ان کو حکم دیا جاتا ہے۔
حسین کی بھرپور کوشش کے باوجود انہیں جنت میں داخل نہیں ہونے دیا جاتا۔ مایوسی کے عالم میں حسین دوبارہ زمرد کی قبر پر جا کر ٹھہرتا ہے۔ ایک دن قبر پر پڑے اسے دو اور خط مل جاتے ہیں۔ ایک اپنے نام اور دوسرا بلغان خاتون کے نام۔ اس خط میں اسے کہا جاتا ہے کہ وہ اس دوسرے خط کو بغیر پڑھے بلغان خاتون کے پاس لے جائے۔ بلغان خط پڑھتی ہے اور اپنے بھائی ہلاکو خان کی مدد سے جنت پر حملہ آور ہوتی ہے۔ یہ دونوں بہن بھائی پورے جنت کو تباہ کر دیتے ہیں اور اس کے سرپرستوں کو قتل کر دیتے ہیں۔
آخر کار، حسین زمرد سے دوبارہ ملتا ہے۔ زمرد اسے سازش کے پیچھے کی ساری کہانی اور اسے اپنے خطوط کے بارے میں بتاتی ہے۔ وہ اسے مشورہ دیتی ہے کہ وہ اپنے فدائی ہونے کے ناتے اپنے کیے پر توبہ کرے۔ وہ توبہ کرتا ہے اور اپنے چچا امام نجم الدین نیشاپوری کا بدلہ شیخ علی وجودی کو چھرا گھونپ کر ہلاک کرنے سے لیتا ہے۔
فردوس بری فدائین اور حسن بن صباح کی بنائی ہوئی مصنوعی جنت کی ایک گہری دل کو چھو لینے والی کہانی ہے۔ اس کہانی کے ذریعے عبدالحلیم شرر نے دکھایا ہے کہ کس طرح حسن بن صباح اپنے پیروکاروں کو گمراہ کرتے تھے اور مخالف مکاتب فکر کے علماء اور مبلغین کو قتل کرنے کے لیے انہیں فدائین بناتے تھے۔ اردو کے مشہور ناول نگار کے اس ناول کی یہ کہانی آنے والی کئی صدیوں تک لوگوں سے جڑی رہے گی۔
- ناول: فردوس بریں۔ مصنف: مولانا عبدالحلیم شرر لکھنوی۔ تبصرہ - 15/03/2023
- پختون قوم پرستوں کی ناکامی! - 25/02/2023
- گواہ گواہی کیوں دیں؟ - 24/02/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).