عمران خان کے خلاف متعدد مقدمات کے بیچ وہ مقدمہ جو حالات کو اس نہج تک پہنچانے کا باعث بنا


عمران خان
پی ڈی ایم حکومت میں سابق وزیر اعظم اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان پر متعدد مقدمات قائم ہو چکے ہیں جن میں سے بیشتر میں وہ عبوری ضمانت پر ہیں جبکہ دو مقدمات ایسے ہیں جن میں ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری ہو چکے ہیں۔

ان مقدمات میں سے سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے مقدمات کتنے ہیں اور کتنے قانونی، یہ بحث کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں، مگر مقدمات کی اس بہتات اور آئے روز کبھی ضلعی عدالتوں اور کبھی ہائیکورٹس میں ان کیسوں پر جاری سماعتوں میں عام لوگوں کو تو چھوڑیے صحافی حضرات کے لیے بھی یہ یاد رکھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کس مقدمے میں ضمانت مل چکی، کس میں وارنٹ جاری ہو چکے، کس میں وارنٹ جاری ہو کر معطل ہو چکے اور کس میں وارنٹ جاری ہونے کے بعد ناقابل ضمانت وارنٹ جاری ہو چکے ہیں!

اس رپورٹ میں ہم آپ کی اسی مشکل کو آسان کرنے کی کوشش کریں گے کہ آخر وہ کون سا مقدمہ ہے جو حالات کو موجودہ نہج تک لانے کا باعث بنا ہے اور اس مقدمے میں اب تک کیا ہو چکا ہے۔

تو چلیے شروع کرتے ہیں۔

اس وقت صرف ایک ایسا کیس ہے جس میں سابق وزیر اعظم کے ناقابل ضمانت وارنٹ موجود ہیں، یعنی توشہ خانہ کیس۔ دوسرا مقدمہ یعنی جج زیباچودھری کو دھمکی دینے سے متعلق تھا جس میں عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تھے تاہم جمعرات کی دوپہر ان وارنٹس کو معطل کرتے ہوئے عمران خآن کو پیر کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔

توشہ خانہ وہی کیس ہے جس کی سماعت کے دوران جاری ہونے والے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری لے کر اس وقت اسلام آباد پولیس کے اہلکار زمان پارک میں عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر موجود ہیں۔ توشہ خانہ سے متعلق یہ کیس الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اسلام آباد کی ضلعی عدالت بھیجا تھا جہاں سیشن جج ظفر اقبال اس مقدمے کی سماعت کر رہے ہیں۔

گذشتہ سال 2022 میں قومی اسمبلی کے سپیکر راجہ پرویز اشرف نے توشہ خانہ سکینڈل کے معاملے پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کو آئین کے آرٹیکل باسٹھ اے، تریسٹھ اے اور آرٹیکل 223 کے تحت عمران خان کی نااہلی کا ریفرنس بھیجا تھا۔

اُسی برس 22 اکتوبر کو الیکشن کمیشن نے عمران خان کو نااہل قرار دیتے ہوئے کہا ’عمران خان نے اپنے اثاثہ جات کی تفصیلات سے متعلق جمع کروائے گئے فارمز میں جھوٹا بیان اور غلط ڈیکلیئریشن جمع کرائی ہے۔‘

اس فیصلے کے ایک ماہ بعد اسلام آباد کی ایک سیشن کورٹ نے عمران خان کو طلبی نوٹس بھیجا۔ یہ نوٹس الیکشن کمیشن کی جانب سے سیشن کورٹ کو توشہ خانہ ریفرنس موصول ہونے کے بعد بھیجا گیا اور یوں عمران خان کے خلاف ٹرائل کا آغاز ہوا۔

اس ریفرنس میں الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ عمران خان نے ’جان بوجھ کر حقائق چھپائے‘ اور اپنے اثاثہ جات کا غلط حلف نامہ جمع کرایا۔

عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کا اجرا

عمران خان گذشتہ سال تین نومبر کو مبینہ طور پر ایک قاتلانہ حملے میں زخمی ہونے کے بعد لاہور میں مقیم رہے اور اس دوران تمام مقدمات میں عدالتوں میں حاضری سے استثنیٰ حاصل کرتے رہے۔

اس کے بعد بھی عمران خان بار بار طلبی کے احکامات کے باوجود عدالت میں پیش نہ ہوئے جس کے بعد انھیں 15 دسمبر 2022 کو ایک بار پھر نوٹس بھیجا گیا کہ ان کے خلاف نو جنوری 2023 کو مبینہ طور پر کرپٹ پریکٹسز کرنے کے الزام میں ضابطہ فوجداری کے تحت کریمینل پروسیڈنگز کا آغاز کیا جائے گا، تاہم عمران خان خرابی صحت کی بنیاد پر اس مقدمے میں مسلسل غیر حاضر رہے اور ان کے وکلا کی جانب سے حاضری سے استثنیٰ کی درخواستیں دائر کی جاتی رہیں۔

عمران خان کے وکلا کی استدعا پر عدالت نے عمران خان کو نو جنوری کو طبی بنیادوں پر استثنی دیا اور کہا گیا کہ وہ اگلی پیشی یعنی 31 جنوری کو عدالت میں حاضری یقینی بنائیں تاہم وہ 31 جنوری کو بھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔

ان کی عبوری ضمانت میں 15 فروری تک کی توسیع کی گئی اور عدالت نے حکم دیا کہ وہ سات فروری کو عدالت میں پیش ہوں تاکہ ان پر فرد جرم عائد کی جا سکے۔

عمران خان کو ایک بار طبی بنیادوں پر عدالت نے حاضری سے استثنی دی اور یوں سات فروری کو بھی ان کی عدم حاضری کے باعث ان پر فرد جرم عائد نہ ہو سکی۔

فرد جرم کے لیے عمران خان کو 20 فروری کو عدالت نے طلب کیا تاہم وہ ایک بار پھر عدالت میں پیش نہ ہوئے جس کے بعد 28 فروری کی تاریخ مقرر کی گئی مگر ایک بار پھر پیشی نہ ہونے پر بالآخر عدالت نے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے۔

واضح رہے کہ عمران خان 28 فروری کو اسلام آباد میں ہائیکورٹ سمیت دو دیگر عدالتوں میں پیش ہوئے تھے تاہم وہ توشہ خانہ کیس میں اسلام آباد کی ضلعی عدالت پیش نہ ہو سکے۔

پی ٹی آئی

عمران خان کی گرفتاری کے لیے زمان پارک میں آپریشن

اس کے بعد اسلام آباد کی ضلعی عدالت نے عمران خان کے خلاف ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے کہا کہ انھیں سات مارچ کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا جائے۔

عدالتی احکامات پر پانچ مارچ کو پولیس ان کے وارنٹ گرفتاری لے کر ان کی لاہور زمان پارک میں رہائش گاہ پہنچی تاہم انھیں پی ٹی آئی کارکنان کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں پی ٹی آئی کے رہنما شبلی فراز نے پولیس کو بتایا کہ عمران خان رہائش گاہ پر موجود ہی نہیں ہیں جس کے بعد پولیس گرفتاری کا آپریشن معطل کر کے واپس اسلام آباد روانہ ہو گئی۔

چھ مارچ کو عمران خان کے وکلا نے سیشن کورٹ اسلام آباد سے رجوع کیا اور درخواست کی کہ ان کے وارنٹ گرفتاری منسوخ کیے جائیں تاہم ان کی درخواست رد کر دی گئی۔

سات مارچ کو عمران خان کے وکلا نے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کی منسوخی نہ کرنے کے فیصلے کے خلاف اسلام ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں عارضی ریلیف دیتے ہوئے یہ وارنٹ 13 مارچ تک معطل کیے اور انہیں 13 مارچ کو عدالت میں حاضری یقینی بنانے کا حکم دیا۔

لیکن عمران خان 13 مارچ کو بھی سیشن کورٹ میں پیش نہ ہوئے اور یوں ایک بار پھر ان پر فردجرم عائد نہ ہو سکی۔ عدالت نے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے اور پولیس کو حکم دیا کہ انھیں گرفتار کر کے 18 مارچ کو عدالت میں پیش کیا جائے۔

پولیس عدالت کا حکم نامہ لے کر 14 مارچ کو زمان پارک لاہور پہنچی اور پی ٹی آئی کے سینکڑوں کارکنان کے ساتھ تصادم ہوا۔

یہ بھی پڑھیے:

توشہ خانہ کیا ہے اور کون سے سابق حکمران تحائف کے معاملے پر مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں؟

توشہ خانہ ریفرنس میں عمران خان پر الزامات ثابت، قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار

پنجاب، خیبرپختونخوا میں انتخابات: کیا حکومت دانستہ طور پر تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے؟

urdu

اسی دوران عمران خان کے وکلا نے ایک بار پھر اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور کہا ’عمران خان کے وارنٹ گرفتاری معطل کیے جائیں کیونکہ عمران خان 18 مارچ کو اسلام آباد کی سیشن کورٹ میں پیش ہوں گے اور وہ بیان حلفی دے رہے ہیں۔‘

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس خارج کرتے ہوئے وکلا کو ہدایت کی کہ وہ متعلقہ ٹرائل کورٹ میں جائیں اور وارنٹ گرفتاری معطل یا منسوخ کرنے کی استدعا کریں۔

عمران خان کے خلاف اسی مقدمے پر سماعت جمعرات کے روز اسلام آباد کی ضلعی عدالت میں جاری ہے۔

اس دوران عمران خان کا موقف یہ رہا ہے کہ ان پر ایک بار قاتلانہ حملہ ہو چکا ہے جبکہ ان کی اطلاعات کے مطابق ان پر دوبارہ حملہ کیا جا سکتا ہے۔ اپنی تقاریر میں انھوں نے متعدد مرتبہ یہ استدعا کی ہے انھیں ویڈیو لنک کے لیے عدالتوں میں زیر التوا مقدمات میں پیش ہونے کی اجازت دی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments