لاہور اور اسلام آباد میں تصادم: جمہوریت پر ایک اور شب خون کا اندیشہ


آج اسلام آباد اور لاہور میں دکھائی دینے والے مناظر سے یہ اندازہ کرنا ممکن نہیں ہے کہ اس ملک میں مہنگائی کی شرح چالیس فیصد سے تجاوز کر رہی ہے اور عالمی مالیاتی فنڈ پاکستان کے ساتھ طے شدہ مالی پروگرام مکمل کرنے کے لئے اب اس کے دور مار کرنے والے میزائل پروگرام کو بند کروانے کے لئے زور ڈال رہا ہے۔ لاہور میں پنجاب پولیس کی زمان پارک پر ریڈ اور اسلام آباد میں تحریک انصاف کی سینہ زوری سے ملک میں سیاسی کشیدگی ایک نیا رخ اختیار کر رہی ہے۔ ان حالات میں صدر مملکت عارف علوی بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ’اللہ کا شکر ہے کہ ملک آج ایک بڑے حادثہ سے بچ گیا‘ ۔

حکومت اور تحریک انصاف میں جاری موجودہ تصادم کو محض سیاسی جد و جہد کا نام نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی اس میں صرف سیاسی عناصر برسر پیکار ہیں۔ بلکہ اس چپقلش میں متعدد ریاستی ادارے آمنے سامنے ہیں اور عدلیہ کے کردار پر مسلسل انگشت نمائی ہو رہی ہے۔ آج اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس میں ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال کی بے بسی اور بے چارگی دیدنی تھی، جب وہ عدالت کے باہر جنگ نما صورت حال سے مجبور ہو کر عمران خان کو عدالت میں پیش ہونے سے استثنا دینے اور گاڑی میں بیٹھ کر ہی ’حاضری‘ لگوانے کی اجازت دینے پر مجبور ہو گئے۔ اس کے بعد وقوعہ کے بارے میں عمران خان کے وکیل اور سپرنٹنڈنٹ پولیس کے درمیان مباحثہ میں سر پکڑ کر بیٹھے رہے کیوں کہ جس عدالتی دستاویز پر عمران خان نے دستخط کیے تھے، وہ غائب تھی۔ تحریک انصاف کے وکیل اور پولیس ایک دوسرے پر اسے غائب کرنے کا الزام لگا رہے تھے۔ بالآخر جج ظفر اقبال نے فریقین کو اپنا اپنا موقف تحریری طور پر عدالت میں جمع کروانے کا حکم دیا اور عدالتی کارروائی 30 مارچ ملتوی کردی۔ عمران خان کو ایک بار پھر اس تاریخ پر ذاتی طور پر حاضر ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔

آج رونما ہونے والے واقعات کا جائزہ لیا جائے تو لاہور میں پولیس اور اسلام آباد میں تحریک انصاف اور عمران خان نے ناجائز اور ناقابل قبول رویہ اختیار کیا۔ عمران خان کے لاہور روانہ ہونے کے بعد پنجاب پولیس نے تجاوزات ہٹانے اور مشکوک عناصر کو گرفتاری کرنے کے بہانے زمان پارک میں ان کی رہائش گاہ پر دھاوا بول دیا۔ اس موقع پر تحریک انصاف کے حامیوں سے تصادم بھی ہوا تاہم پولیس ساٹھ افراد کو گرفتار کرنے اور بعض تجاوزات ہٹانے میں کامیاب رہی۔ بعد میں انسپکٹر جنرل پولیس نے درجنوں افراد گرفتار کرنے کے علاوہ اسلحہ، دیگر آلات اور پیٹرول بم تیار کرنے والا مواد برآمد کرنے کا دعویٰ کیا۔ تاہم یہ کارروائی ایک ایسے وقت کی گئی جب عمران خان موجود نہیں تھے اور پولیس کے پاس اس قسم کا ایکشن لینے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں تھا۔ لاہور ہائی کورٹ نے ایک روز پہلے ضرور پولیس کو تفتیش کے لئے زمان پارک جانے کی اجازت دی تھی لیکن جس طرح سے آج عمران خان کے گھر پر کارروائی کی گئی، اس کا کوئی جواز موجود نہیں تھا۔ اگر وہاں کی جانے والی سرگرمیاں غیر قانونی تھیں تو یہ سب کام کسی سے چھپا کر نہیں کیا جا رہا تھا بلکہ تحریک انصاف کے حامی علی الاعلان زمان پارک کی رہائش گاہ کو پولیس مقابلہ کا مرکز بنائے ہوئے ہیں۔ گزشتہ ہفتہ کے شروع میں اسلام آباد اور پنجاب پولیس، رینجرز کی مدد کے باوجود اسی رہائش گاہ سے عمران خان کو گرفتار کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی تھی۔ کئی گھنٹوں پر طویل تصادم میں درجنوں پولیس افسر زخمی ہوئے تھے۔ تاہم بعد میں لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر پولیس ایکشن بند کیا گیا تھا۔ آج کیے گئے پولیس ایکشن کے بارے میں تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ پولیس کے پاس زمان پارک میں گھر کی تلاشی کے وارنٹ نہیں تھے۔ اسی لئے عمران خان اس ایکشن کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔

زمان پارک میں عمران خان کا گھر اگر جرائم کا مرکز بنا ہوا ہے تو پولیس اور پنجاب حکومت کو اس کے خلاف باقاعدہ عدالتی احکامات کے تحت تلاشی لینے اور مناسب طریقہ سے کارروائی کرنی چاہیے تھی۔ عمران خان کی غیر موجودگی میں جس وقت ان کی اہلیہ گھر میں تنہا تھیں، اس قسم کی کارروائی کو ہراساں کرنے اور گزشتہ ہفتہ کے دوران اٹھائی جانے والی خفت کا ’بدلہ‘ لینے کا طریقہ کہا جائے گا۔ اس پولیس ایکشن کا ملک کے سیاسی ماحول پر بھی اثر مرتب ہو گا اور باہمی تلخیوں میں اضافہ ہو گا۔ پولیس اور وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے دعویٰ کیا ہے کہ زمان پارک کی رہائش گاہ سے ناجائز اسلحہ برآمد ہوا ہے اور مشکوک لوگوں کی بڑی تعداد پکڑی گئی ہے۔ لیکن کیا ’غیر قانونی‘ سرگرمیوں کے مرکز پر پولیس ایکشن کے لئے ’چوروں‘ کی طرح جانا ضروری تھا؟ رانا ثنا اللہ اور پنجاب پولیس کو ضرور اس سوال کا جواب دینا چاہیے۔ رانا ثنا اللہ کا یہ بیان ملکی سیاسی صورت حال میں مزید بے یقینی پیدا کرے گا کہ حکومت تحریک انصاف پر پابندی کے لئے ریفرنس دائر کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس حوالے سے کافی شواہد حکومت کے ہاتھ آئے ہیں۔ بظاہر یہ ’شواہد‘ عمران خان کی رہائش گاہ پر ایکشن میں حاصل کیے گئے ہیں۔

دوسری طرف عمران خان بعد از خرابی بسیار، زمان پارک میں پولیس مقابلے اور متعدد عدالتی وارننگز نظر انداز کرنے کے بعد آج اسلام آباد میں سیشن کورٹ میں پیشی کے لئے گئے۔ لیکن وہ سینکڑوں حامیوں کے ساتھ جوڈیشل کمپلیکس پہنچے اور چند قدم کے فاصلے پر پیدل چل کر عدالت میں پیش ہونے کی بجائے اپنی گاڑی پر سوار ہو کر عدالت کے دروازے تک جانے اور سینکڑوں حامیوں کو ساتھ لے جانے پر اصرار کرتے رہے۔ ان کے طرز عمل سے واضح تھا کہ وہ عدالت میں پیش نہیں ہونا چاہتے لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ کی اس وارننگ سے بھی بچنا چاہتے تھے کہ اگر وہ سیشن کورٹ میں حاضر نہ ہوئے تو ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوگی۔ اسی لئے عمران خان حامیوں کے جلو میں اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس پہنچے۔ تحریک انصاف کے حامیوں نے پولیس پر پتھراؤ کیا، ایک پولیس چوکی تباہ کی اور متعدد گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا۔ پولیس نے آنسو گیس کا استعمال کیا۔ رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ عمران خان کے ساتھ ایک سو سے زیادہ مسلح افراد موجود تھے۔

اس موقع پر اسلام آباد میں دفعہ 144 لگائی گئی تھی لیکن عمران خان اور تحریک انصاف نے اس کی پابندی کرنا اپنی توہین سمجھا۔ عمران خان کو خوف تھا کہ اگر وہ اپنی گاڑی سے اترے اور ان کے ساتھی ان کے ارد گرد نہ ہوئے تو اسلام آباد پولیس انہیں گرفتار کر لے گی۔ اسی خوف میں انہوں نے حامیوں کو اکٹھا کیا اور جوڈیشل کمپلیکس کے باہر کھڑے ہو کر یہ دعویٰ کیا کہ وہ تو حاضری کے لیے آ گئے ہیں لیکن پولیس رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ انہیں حالات میں جج ظفر اقبال نے گاڑی ہی میں حاضری قبول کرتے ہوئے عمران خان کے وارنٹ گرفتاری منسوخ کر دیے۔ انہیں اس ماہ کے آخر میں دوبارہ طلب کیا گیا ہے۔ آج بھی توشہ خانہ کیس میں عمران خان پر فرد جرم عائد نہیں ہو سکی۔ شاید یہی عمران خان اور ان کے قانونی معاونین کی حکمت عملی بھی تھی۔ تحریک انصاف اسلام آباد پولیس پر فسطائی ہتھکنڈے اختیار کرنے کا الزام ضرور عائد کر رہی ہے لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عمران خان اور ان کی پارٹی کے لیڈروں نے عمران خان کی جان کو خطرے کے بارے میں اتنے دعوے کیے تھے کہ پولیس کو تمام ممکنہ حفاظتی اقدامات کرنا پڑے۔ اس صورت میں عمران خان کا فرض تھا کہ وہ اور ان کے کارکن پولیس کی عائد کی ہوئی پابندیوں اور رکاوٹوں کا احترام کرتے اور پولیس جس طریقہ سے انہیں کمرہ عدالت تک جانے کی ہدایت کر رہی تھی، اس پر عمل کیا جاتا۔ لیکن عمران خان کی سربراہی میں ان کے ساتھ آنے والے گروہ نے پولیس کا مقابلہ کرنے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کا اقدام کیا۔ آج ہونے والی جھڑپوں میں اسلام آباد پولیس کے بیس افسر زخمی ہوئے ہیں۔

لاہور میں اگر پنجاب پولیس ایکشن کو بدنیتی کہا جائے گا تو اسلام آباد میں عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے رویہ کو بھی نیک نیتی پر مبنی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بدنصیبی سے اقتدار پر قابض اور اسے چیلنج کرنے والی سیاسی قیادت باہمی تصادم میں ملکی وسائل کو ضائع کر رہی ہے۔ کسی بھی مہذب ملک میں کوئی بھی شہری خواہ اس کا سماجی رتبہ کچھ ہی کیوں نہ ہو پولیس کی مقرر کی ہوئی حد پار نہیں کرتا اور نہ ہی پولیس احکامات کو چیلنج کیا جاتا ہے۔ عمران خان پاکستان کو مثالی ریاست بنانے کے دعوے کرتے ہیں اور ایک نئی مدینہ ریاست کو اپنا خواب قرار دیتے ہیں لیکن انہوں نے ایک بار پھر قانون کو مسترد کرنے اور کسی بھی پابندی کو قبول کرنے سے انکار کر کے ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے خلاف کسی رکاوٹ کو خاطر میں لانے پر تیار نہیں ہیں۔ وہ کھلم کھلا ریاستی اداروں کی اتھارٹی کو چیلنج کرتے ہیں اور اس طریقہ کو عوامی احتجاج کے سہانے نعرے میں لپیٹ کر جائز قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاہم قانون تو وہی ہے جو سب کے سامنے ہے اور یہ بھی دکھائی دے رہا ہے کہ کون اسے کیسے اپنے مفاد اور مقصد کے لئے استعمال کر رہا ہے۔

سیاسی تصادم میں ہمہ قسم قانون و قاعدہ کو ماننے سے انکار کی اس صورت میں ملک میں جمہوریت کا راستہ مسدود کرنے کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ انتخابات کے لئے عمران خان کا مطالبہ جائز اور مناسب ہے لیکن وہ یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے زور زبردستی کے جو ہتھکنڈے اختیار کر رہے ہیں، ان سے جمہوریت کمزور اور ملک کا مستقبل مخدوش ہو گا۔ عمران خان کا موجودہ احتجاجی طرز عمل شاید انہیں اقتدار تک تو نہ پہنچا سکے لیکن کوئی ایسا بحران ضرور پیدا ہو سکتا ہے کہ ملکی فوج سیاست سے علیحدگی کا اعلان کرنے کے باوجود ایک بار پھر سیاسی و جمہوری عمل کو ’ملک دشمن‘ قرار دے کر اقتدار پر قبضہ کرنے کا ارادہ کر لے۔ جمہوریت میں سیاسی لیڈروں سے ذمہ داری کی توقع کی جاتی ہے۔ اس وقت عمران خان اور حکومتی لیڈر ہوشمندی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments