اسلامو فوبیا اور اجنبی کا خوف


گزشتہ دنوں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اقوم متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا ہے۔ مختلف حلقوں میں اس خطاب کی ستائش بھی ہوئی، اور اس پر تنقید بھی کی گئی۔ بلاول کے خطاب کا ایک اہم نقطہ اسلامو فوبیا تھا۔ اگر تقریر کے متن کو غور سے پڑھا اور سنا جائے تو در حقیقت بلاول بھٹو نے اسلامو فوبیا پر کوئی نئی بات نہیں کی۔ اس موضوع پر ان کے خیالات لفظ با لفظ وہی تھے، جن کا اظہار چند برس قبل عمران خان بطور وزیر اعظم اسی فورم پر کر چکے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار ملتے جلتے الفاظ میں پاکستان کے سفارتی حلقے بھی حالیہ چند برسوں کے دوران اس موضوع پر لابی کے دوران بار بار کرتے رہے ہیں۔ یہ سفارت کاری دنیا میں چند اسلامی ممالک اور پاکستان کی طرف سے اسلامی فوبیا کے بڑھتے ہوئے رجحانات کے خلاف ہوتی رہی۔ اس سفارت کاری کے نتیجے میں پندرہ مارچ کو عالمی سطح پر اسلاموفوبیا کے خلاف دن منایا جا رہا ہے۔ بلاول بھٹو کے خطاب اور اس کی ضرورت و اہمیت کا جائزہ لینے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اسلامو فوبیا در اصل ہے کیا؟

ایسا کرنا اس لیے ضروری ہے کہ اس وقت مختلف عالمی حلقوں میں اس اصطلاح کو الگ الگ معنی میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ اسلامو فوبیا کا لفظ تو دنیا میں عام ہو چکا ہے، لیکن بیشتر لوگ اس کے معنی اپنی اپنی عقل و فہم کے مطابق نکال رہے ہیں، جس کی وجہ سے سے یہ اصطلاح ایک بڑے کنفیوژن کا شکار ہو رہی ہے۔ ان حالات میں سب سے پہلے عام آدمی کی آسانی کے لیے بہت ہی سادہ الفاظ میں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اسلامو فوبیا کیا ہے۔

کہاں کہاں اس کا درست استعمال ہو رہا ہے، اور کہاں کہاں اس اصطلاح کو مغالطہ آمیز انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اسلامو فوبیا کی اصطلاح اسلام اور فوبیا کو مل کر تشکیل پائی ہے۔ عام طور پر اسلامو فوبیا کچھ ممالک میں مذہب اسلام یا مسلمانوں کے خلاف پائے جانے والے خوف، نفرت، یا تعصب کو کہا جاتا ہے، خاص طور پر جب بعض حلقوں میں اسلام یا مسلمانوں کو مذہبی سے زیادہ ایک سیاسی قوت یا دہشت گردی کے کے ساتھ جوڑ کر دیکھا اور پیش کیا جاتا ہے۔

گزشتہ دو دہائیوں کے دوران دنیا کے دانش ور حلقوں میں اسلامو فوبیا کی اصطلاح اور اس کی تعریف پر بہت زیادہ بحث ہوئی ہے۔ اس پر ہزاروں تحقیقاتی مضامین، اور کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ یہ بحث ابھی تک جا ری ہے، اور شاید آنے والے کئی برسوں تک جاری رہے گی۔ اس اصطلاح کی کسی ایک تعریف پر تا حال اتفاق نہیں ہو سکا ہے۔ اس اصطلاح پر دانش وروں کی رائے میں سخت اختلاف ہے۔ دانش وروں کی ایک بہت بڑی تعداد کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اسلامو فوبیا کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

بلکہ یہ ایک طرح کا ”زینو فوبیا“ ہے۔ عام آدمی کے استفادہ کے لیے عرض ہے کہ زینو کا مطلب اجنبی اور فوبیا کا مطلب خوف ہے۔ اس طرح زینو فوبیا کسی اجنبی سے ڈرنے کو کہتے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر ایک قدیم یونانی اصطلاح ہے، جس کا مطلب کسی غیر ملکی یا اجنبی شخص کو نا پسند کرنا ہے۔ قدیم یونان کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں دوسری ریاستوں کے باشندوں کے خلاف اس طرح کے جذبات عام پائے جاتے تھے۔ اس کی وجہ ان ریاستوں کے باشندوں کے ایک دوسرے پر حملے، جنگ و جدل، لوٹ مار اور قتل و غارت گری تھی۔

یہ سلسلہ صرف قدیم یونانی تہذیب تک ہی محدود نہیں تا۔ دنیا کی اس دور کی بیشتر قدیم تہذیبوں میں اس طرح کا کلچر، خیالات اور جذبات عام پائے جاتے تھے۔ یونان کی طرح قدیم مصر کی تہذیب میں اجنبی سے نفرت یا زینو فوبیا کے جذبات و احساسات عام تھے۔ اس کی وجہ اس وقت دوسری ریاستوں کی طرف سے حملے اور لوٹ مار جیسی کارروائیاں عام تھی۔ قدیم مصر کے لوگوں کو یونانی، سوڈانی اور ترکی دیگر گرد و نواح کی ریاستوں سے آنے والے حملہ آوروں سے واسطہ تھا، جن ان پر حملے کرتے اور ان کا مال و متاع لوٹ لیتے تھے، جس کی وجہ سے ایسے لوگوں کے خلاف ایک خاص قسم کے خوف یا نفرت کے جذبات عام تھے۔

اس طرح یورپ کی دیگر قدیم ریاستوں میں بھی اس طرح کے جذبات اور تعصبات عام تھے۔ اس کا کھلا اظہار ہوتا تھا، جہاں غیر ملکیوں اور اجنبیوں کو بربر یا ”باربیرک“ کہا جاتا تھا۔ قدیم یونان میں یہ تصور عام تھا کہ یونانی کلچر و ثقافت سب سے برتر ہے، اس لیے یونانیوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنے سے کم تر درجے کو لوگوں کو غلام بنائیں۔ قدیم رومن تہذیب میں بھی اس طرح کے تعصبات اور خیالات عام تھے۔ بعض رومن حکم رانوں کا خیال تھا کہ دوسری نسل یا رنگ کے لوگ صرف غلام بنائے جانے کے قابل ہیں۔

اس پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ دانش وروں کا خیال ہے کہ زینو فوبیا اور اسلامو فوبیا کو آپس میں گڈ مڈ نہیں کرنا چاہیے، اور نہ ہی ان اصطلاحوں کو ایک دوسرے کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف ایسے دانش وروں کی بھی کمی نہیں ہے، جن کی دلیل ہے کہ جس چیز کو ہم اسلامو فوبیا کا نام دیتے ہیں، وہ دراصل نسل پرستی کی ایک شکل ہے، اور بنیادی طور پر اس نفرت، تعصب یا خوف کا تعلق مذہب سے نہیں، بلکہ نسل سے ہے۔

البتہ اسلامو فوبیا اور نسل پرستی کا کئی کئی ایک گہرا باریک تعلق بھی بن جاتا ہے، یا یہ دونوں تصورات جزوی طور پر غلط طریقے سے گڈ مڈ ہو جاتے ہیں یا ”اور لیپ“ کر جاتے ہیں، لیکن ایسا ہونا نہیں چاہیے۔ بنیادی طور اسلام ایک مذہب ہے، کوئی نسل نہیں ہے۔ یا کسی ایک نسل تک محدود نہیں ہے۔ جبکہ اسلامو فوبیا کی بعض شکلیں مکمل طور پر نسلی بنیاد پر ظاہر ہوتی ہیں۔ لہذا یہ ایک نسلی مسئلہ ہے۔ خود مغرب کے دانش ور حلقوں میں بھی اس اصطلاح کی متعین تعریف نہیں ہے، جس کی وجہ سے اس اصطلاح کو لے کر عام آدمی میں بہت کنفیوژن پایا جاتا ہے۔

آکسفورڈ انگلش ڈکشنری کے مطابق، اس لفظ کا مطلب ہے ”اسلام سے شدید ناپسندیدگی یا خوف، خاص طور پر ایک سیاسی قوت کے طور پر ؛ مسلمانوں کے ساتھ دشمنی یا تعصب“ ۔ انگریزی زبان میں یہ نسبتاً ایک نئی اصطلاح ہے، جو انیس سو تئیس کے اوائل میں استعمال ہونا شروع ہوئی۔ اس استعمال کے لیے فرانسیسی لفظ Islamophobie کا حوالہ دیا گیا، جو انیس سو دس میں Alain Quellien کے شائع کردہ ایک مقالے میں استعمال کیا گیا تھا، جس میں ”اسلام کے خلاف ایک خاص قسم کا تعصب جو اس وقت کے کچھ مغربی اور عیسائی تہذیب کے لوگوں میں پھیلا ہوا تھا، کو بیان کیا گیا تھا۔

یہ اصطلاح مسلم دنیا میں موجود نہیں تھی، اور بعد میں 1990 کی دہائی میں اس کا ترجمہ عربی میں روحاب الاسلام یا رہاب الاسلام کے طور پر کیا گیا، جس کا مطلب اسلام کا خوف ہے۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے میں بھی ایک مشہور اسلامو فوبیا ریسرچ اینڈ ڈاکومینٹیشن پروجیکٹ قائم ہے۔ اس پروجیکٹ کے تحت یونیورسٹی آف کیلیفورنیا نے بھی اسلامو فوبیا کی تعریف تجویز کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس تعریف کے مطابق“ اسلامو فوبیا موجودہ یورو سینٹرک اور اورینٹلسٹ عالمی طاقت کے ڈھانچے کے ذریعے پیدا کیا گیا ایک خوف یا تعصب ہے۔ اس طرح اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو اسلامو فوبیا کوئی اتنا سیدھا سادہ مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک پیچیدہ سلسلہ ہے، جس کے ساتھ کئی دوسرے مسائل جڑے ہوئے ہیں۔ ان مسائل کو الگ الگ کر کہ اپنے درست تناظر میں پیش کرنا ضروری ہے، جس کا تفصیلی جائزہ آئندہ کسی کالم میں لیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments