پاکستانی معاشرہ اور پولرائزیشن


پولرائزیشن کو سب سے پہلے انیسویں صدی میں سائنسی اصطلاح کے طور پر استعمال کیا گیا جس میں تحقیقی طور یہ معلوم ہوا کہ برق باشی (الیکٹرالسس) کے عمل میں دھات کے الیکٹرولائٹس ایک سرے سے دوسرے سرے کی جانب سفر کرتے ہیں۔ اس سائنسی عمل کو پولرائزیشن کا نام دیا گیا۔ جس کا استعمال بعد میں سماجی، معاشرتی واقتصادی اور سیاسیات میں در آیا۔ اس کے معنی نا اتفاقی، تقسیم اور ایک دوسرے سے جدا کرنا ہے۔ ایک سائنسی اصطلاح ہونے کے ناتے اس میں روشنی، تابکاری اور مقناطیسی عمل میں ایک سمت سے دوسری سمت کا سفر ہے۔

لیکن سائنس کے علاوہ اس اصطلاح کو سیاست میں استعمال کیا جا رہا ہے جس میں عوام کیا سوچ رہے ہیں، ان کی کیا رائے ہے، خصوصاً اس وقت جب سیاسی پارٹیوں کے نظریات کی وجہ سے تصادم کا خطرہ ہو۔ یہ پولرائزیشن ملکی سطح پر ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی طور پر بھی دیکھنے میں آ رہی ہے جس میں طاقت کا ارتکاز خاص مدت میں کسی ایک خاص ملک کے ساتھ دوسرے ممالک اپنے مفادات کو وابستہ کر لیتے ہیں۔ اس سے بین الاقوامی نظام کے بگڑنے کا خدشہ پیدا ہو جاتا ہے۔

سماجی و معاشرتی پولرائزیشن اسے کہا جاتا ہے جو معاشرے میں عدم منصفانہ طریقہ کار کے نتیجے میں رونماء ہو مثلاً دولت کا امیروں کے ہاں ارتکاز کا بہت زیادہ ہو جانا اور غریبوں میں غربت کا از حد بڑھ جانا، اقتصادی طور غرباء کا پس جانا یعنی سماجی گروپوں میں ہر ایک شے کی منصفانہ تقسیم کا نہ ہونا ہے۔ انسانی رویوں میں اعتدال پسندی کا مفقود ہوجانا اور انتہاپسندی کا اپنے پر پھیلانا وغیرہ۔ جب کہ سیاسی پولرائزیشن میں سیاسی جماعتوں کا ایک دوسرے پر عدم اعتماد کے علاوہ جمہوری نظام پر بھی عدم اعتماد جس سے ملک میں افراتفری اور عدم استحکام کا پیدا ہونا ایک لازمی امر ہے۔ یہ سب اقدامات پولرائزیشن کی تعریف کے زمرے میں آتے ہیں۔ جمہوری نظام میں حکومتی بینچ اور اپوزیشن دونوں کا اہم اور کلیدی کردار ہوتا ہے۔ جس میں ایک دوسرے کی بات سننا، اور اپنے اپنے منشور کی ترویج کے جائز و قانونی اقدامات کرنا ہوتا ہے۔ جس سے ملکی معاشرہ ترقی کرے اور عوام کو سہولیات میسر ہوں۔

ایک تحقیق کے مطابق سیاسی پولرائزیشن میں سیاسی جماعتوں لبرلز اور کنزرویٹیو، ریپبلک و ڈیموکریٹٹس کے درمیان فاصلوں کا بڑھ جانا ہوتا ہے۔ آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے اس میں اپنے نظریات کو سرعت کے ساتھ اپنی پارٹی کے ممبران، سپورٹرز اور دوسرے لوگوں تک پہنچانا ہوتا ہے۔ اس میں اپنے نظریات کی ترجمانی اعتدال یا مہذبانہ طور و طریقوں سے پیش کرنا ہوتا ہے۔ یہ دو داری تلوار ہے اس سے معاشرے میں ہم آہنگی کے ایجنڈا کو مثبت طور پیش کرنا اور ان تمام ذرائع ابلاغ پر پیش قدمی کرنا جن سے اس سیاسی پارٹی کو اپنے منشور و نظریات کو پیش کرنے میں دقت کا سامنا ہے۔

یہ سب اقدامات انسانی رویوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس وقت پاکستانی معاشرہ پولرائزیشن کی لپیٹ میں ہے اور باہم تصادم کی طرف بڑھ رہا ہے تمام ارباب اختیار کو اس بارے سنجیدگی سے سوچنا ہو گا۔ ہماری معاشرتی پالیسیاں ناکام ہو رہی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایک قوم نہیں بلکہ قرون اولی کا قبائلی معاشرہ ہیں۔ جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون لاگو ہے۔ ادارے اپنی وقعت کھو بیٹھے ہیں، عوام میں صبر ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ معاشرتی ناہمواریاں بڑھتی چلی جا رہی ہیں ہم خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں اور اس مسئلے کو سرسری طور طریقے پر لے رہے ہیں اس کی بیخ کنی کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں۔

اس طرح کی سماجی و معاشرتی و اقتصادی و سیاسی ناہمواریاں انتہا پسندی کو فروغ دینے کا باعث بنتی ہیں۔ سنگین پولرائزیشن سے ملک عدم استحکام اور اس کی جمہوریت کو سنگین خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ یہ بات تحقیق سے ثابت ہے کہ جہاں کہیں بھی کسی ملک میں منفی گروہی سیاست کا فروغ ہوا اور ایک دوسرے پر عدم اعتماد بڑھا تو جمہوریت کو نہ تلافی نقصان پہنچا۔ اور یہی المیہ مملکت پاکستان کا ہے۔ جب بھی سیاست میں قرون اولی والی قبائلی طرز سیاست اختیار کی گئی جس میں ایک دوسرے پر عدم اعتماد، ہر شے کو دشمنی کی سطح تک لے جانا اور متعصب نظریات کا فروغ پانا ہوا تو پھر جمہوری ادارے کمزور ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

سیاستدانوں کا عوام کو بلا جواز تقسیم کرنا ان کے جذبات و احساسات سے کھیلنا اور انہیں دوسری سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ٹکراؤ کی صورت حال میں رکھنا ملک کے لئے سم قاتل ہے۔ انتہا پسند پولرائزیشن میں عوام ایک دوسرے سے متنفر، شکوک و شبہات اور دوری اختیار کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنے اپنے سیاسی کیمپ میں رہنا پسند کرتے ہیں ان کے نزدیک اپنے متعصب نظریات یا درست معلومات کو صحیح طور پرکھنا لازم نہیں ہوتا۔

پولرائزیشن میں حکومت و اپوزیشن دونوں جب اپنے اپنے بحث و مباحثے کو تحمل و رواداری کے ساتھ طے نہ کریں اور اسے منطقی انجام تک پہنچانے میں تساہل بھرتیں تو ملک انارکی کی طرف چل پڑتا ہے۔ جب پولرائزیشن کی جڑیں گہری ہو جائیں تو عوام نہ صرف سماجی بلکہ سیاسی طور پر بھی منقسم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ جس کی ہم آہنگی کو واپس لانا نہایت جان جوکھم کام ہوتا ہے۔ ٹٹ فار ٹیٹ حربے پولرائزیشن کی جڑوں کو مزید گہرا کر دیتے ہیں جس سے جمہوری نظام کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔

پولرائزیشن سے نمٹنا ناممکنات کا کھیل نہیں، اس سے جمہوری انداز و طور طریقوں سے ہی نبٹنا پڑے گا۔ پاکستانی سوسائٹی کے اندر بڑھتی پولرائزیشن کو کم کرنے کے لئے ریاستی اداروں کے علاوہ عوام کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا یہ اشتراک ازحد ضروری ہے۔ اس میں ہم سیاستدانوں کے کردار کو بھول نہیں سکتے۔ سب سے زیادہ ذمہ داری انہی کی بنتی ہے۔ سیاستدانوں کو اپنے رویوں اور الفاظ کے چناؤ کا خیال رکھنا ہو گا۔ انہیں خود اور اپنی پارٹی ممبران اور سپورٹرز کو عدم تشدد اور رواداری کا سبق یاد دلانا ہو گا ان کی اخلاقی و ذہنی اور سیاسی تربیت کرنا ہوگی۔

پوائنٹ آف نو ریٹرن کی سیاست کو دفن کرنا ہو گا۔ ایک دوسرے کے نظریات و بحث مباحثے کو تحمل و رواداری اور احترام سے سننے اور انسانیت آمیز رویہ کے ساتھ جواب دینے کی عادت ڈالنی ہوگی۔ ملکی حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ تمام سٹیک ہولڈرز رواداری و باہمی احترام سے ایک دوسرے کی بات سنیں، اور اپنے اختلافات کو جمہوری انداز سے سلجھانے کی کوشش کریں۔ کہیں یہ نہ ہو اس انتشار سے پاکستان کے دشمن فائدہ اٹھائیں۔ اگر پاکستان ہے تو ہم سب ہیں۔ اس کی بقاء کے لئے خدارا اپنی بر وقت اصلاح کر لیں۔ کہیں دیر نہ ہو جائے۔ سیاست ویسے بھی کھیل ہے بروقت فیصلے کرنے کا ۔ بروقت درست فیصلے کر لیں۔ آئیے! ہم سب ذرا اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں کیا:

ہمارے رویے جمہوری ہیں؟
ہم جمہوریت کے طور طریقے دل و جاں سے اپنائے ہوئے ہیں۔
ہم روز مرہ زندگی میں اخوت و برداشت پرست ہیں۔
ہم آزادی کا مفہوم سمجھتے ہیں۔
ہم ایک قوم ہیں۔

ان باتوں کے جوابات پاکستانی معاشرہ سے پوچھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ کوئی ایک تو ہو جو ان سوالوں کے جواب دے۔ میں اپنی امنگوں کے قتل کو کس کے ہاتھ پر تلاش کروں، مقتل میں سب ہی اپنے ہیں۔ رب العزت سے دعا ہے ہم سب کو فراغ قلب، ایک دوسرے کی عزت و احترام اور اخلاق کی دولت سے مالا مال کرے۔ آمین،

میں اور آپ ہم سب پاکستان اور پاکستان ہماری پہچان ہے۔ اس پہچان کی حفاظت، عزت و حرمت ہم سب ہر فرض ہے۔
پاکستان پائندہ باد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments