تجزیے اور خواہش بھری دانش


پاکستان کی موجودہ سیاسی اور عدالتی فیصلوں کی گمبھیر صورتحال میں الیکشن کمیشن کی جانب سے سپریم کورٹ کے متنازع فیصلے کے نتیجے میں 30 اپریل کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات کو حالات کی روشنی میں ملتوی کر کے امسال اکتوبر میں کرانے کا آٹھ صفحات پر مشتمل فیصلہ قوم کے سامنے رکھ دیا گیا ہے۔ اس فیصلے کو حکومتی سطح پر کابینہ میں غور و فکر کے بعد تسلیم کر لیا گیا جبکہ تحریک انصاف کی جانب سے شدید ردعمل کے طور پر اسے غیر آئینی قدم اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی توہین قرار دیا ہے۔

تحریک انصاف کے چیئرمین نے اسے آئین کے خلاف ایک سازش قرار دیا ہے جس پر سیاسی اور صحافتی حلقوں میں الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کی تاریخ تبدیل کرنے پر بحث جاری ہے اور مختلف زاویوں سے اس کا تجزیہ کیا جا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کی سیاسی اور معاشی صورتحال کا تجزیہ کیا جانا چاہیے اور اس پر رائے بنانے کا بھی ہر ایک کو مکمل اختیار ہے کہ وہ آزادانہ طور سے اپنی رائے بنائے اور اس کا اظہار کرے، مگر صحافت ایسے مقدس پیشے کی بنیادی ضرورت ہے کہ جب بھی کسی فیصلے یا سیاسی واقعہ کا بطور صحافی تجزیہ کیا جائے تو واقعے کے تمام سیاق و سباق کو پیش نظر رکھے اور اسے تجزیہ کا انتہائی اہم نکتہ بنائے۔ کیونکہ صحافت کا بنیادی کردار سماج کے افراد کی جہاں شہری آزادیوں کے حقوق پر آواز اٹھانا ہے، وہیں بطور صحافی اس کا یہ فرض ہے کہ وہ عوام کو درست حقائق بتانے میں مکمل ایمانداری روا رکھے اور حقائق کا جائزہ ایک ذمہ دارانہ دانش کی سطح پر کرے، جو کہ معذرت کے ساتھ ہمارے نامور اور کسی قدر معتدل صحافی دوست موجودہ صورتحال میں نہیں کر پا رہے۔

اس کی متعدد مثالیں عوام کے سامنے آئے دن آتی رہتی ہیں جس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ صحافت ہے۔ صحافتی تجزیہ کار پر واضح ہونا چاہیے کہ صحافت کا وقار اور اس کی قدر ہی غیر جانبدارانہ تجزیوں میں چھپی ہوئی ہے۔ اسی دوران چونکہ صحافی بھی اس سماج کا فرد ہے اور اس پر بھی سماجی اثرات پڑتے ہیں۔ جس کے تناظر میں اسے بھی پسند اور ناپسند رکھنے کا اختیار ہے۔ مگر پسند اور نا پسندیدگی کا یہ زاویہ اس کا ذاتی ہو سکتا ہے مگر اگر اس کی ذاتی پسند و نا پسندیدگی اس کے کسی سیاسی معاشی یا سماجی تجزیے سے جھلک رہی ہو تو کم از کم نہ وہ صحافتی اصول کہلائے گا اور نہ ہی کسی طور غیر جانب دارانہ طرز عملی یا تجزیہ۔

موجودہ سیاسی اور آئینی بحران میں دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے اکثر تجزیہ کار سپریم کورٹ کے شارٹ آرڈر پر تبصرہ کر رہے ہیں جبکہ آج کی تاریخ تک سپریم کورٹ کا پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن کروانے کے متعلق تفصیلی اور مکمل فیصلہ نہیں آ سکا ہے لیکن اس پر ید الہی تجزیے جاری و ساری ہیں اور لگتا ہے کہ مقابلے اور پہلے نمبر پہ تجزیہ کرنے کی ایسی دوڑ لگی ہوئی ہے جو سیاسی صورتحال یا حقائق تک عوام کو لے جانے کے برعکس عوام کو سیاسی ماحول اور صحافت کے وقار سے پرے کر رہی ہے۔

یہ کیوں ہو رہا ہے۔ کیوں کیا جا رہا ہے یا کیوں کرنے کی جلدی ہے۔ اس کا نفسیاتی تجزیہ یہی نکلتا ہے کہ سماج کے عوام میں سیاسی شعور پھیلانے کے کٹھن کام کے مقابلے میں سیاست سے قدر و احترام کی جگہ لغو، جھوٹ اور حقائق کے برعکس بیانیے کی منفی طاقت کو عوام میں اس قدر راسخ کر دیا جائے کہ سماج میں اصل جمہوری اور سیاسی قدریں پروان نہ چڑھیں اور عوام کو لاقانونیت اور طاقت کے منفی ذرائع کا اتنا عادی بنا دیا جائے کہ عوام سیاست، آئین اور انصاف کے مرکزی حق کو بھول کر شخصیت پرستی میں لگ جائیں۔ اس سیاسی خانہ خرابی میں ہمارا معتبر اور سنجیدہ صحافت کا طبقہ اس طرح الجھ گیا ہے کہ وہ بھی بریک کرنے کی اودھم نگری کا شکار ہو کر سماج سے اپنا سنجیدہ کردار ختم کر بیٹھا ہے۔ یہ عمل جہاں تکلیف دہ ہے وہیں یہ عمل صحافتی قدروں کی بلندی میں زہر قاتل ثابت ہو رہا ہے جبکہ سماج میں صحافت کی توقیر اور اعتبار ایک سوال بنتا جا رہا ہے جسد رکھا جائے کہ غیر سنجیدہ تجزیے سماج کو گمراہ تو کر سکتے ہیں مگر قطعی طور سے سماج کی درست سمت کا تعین یا سماج میں جمہوری سوچ پروان نہیں چڑھا سکتے۔

اس بوجھل تحریر کا محرک ہمارے معتبر صحافی دوست مظہر عباس بنے ہیں جو جیو کے ایک پروگرام میں گزشتہ روز کہہ رہے تھے کہ ”میں عمران خان کے الیکشن کے موخر ہونے کو غیر آئینی قرار دینے کی سوچ کو درست سمجھتا ہوں اور الیکشن کمیشن کا یہ عمل کسی طور درست نہیں“ ذاتی طور سے مظہر عباس میرے لئے محترم ہیں اور ان کا شمار کسی حد تک ایک غیر جانبدار تجزیہ کار کی حیثیت سے کیا جاتا ہے۔ مگر کچھ دنوں سے ان کے تجزیوں میں درست رائے تک پہنچنے کا فقدان دکھائی دیتا ہے اور وہ اپنی سوچ سے اس احساس کو توانا کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ عمران خان کی طرز سیاست اور شہرت کو معروض کی وہ ضرورت سمجھتے ہیں کہ جس کے بغیر سیاسی نظام میں بہتری نہیں آ سکتی۔

ذاتی حیثیت میں یہ رائے رکھنا کسی کا بھی مکمل حق ہے مگر جب آپ صحافت کے مقدس پیشے سے وابستہ ہوتے ہیں تو صحافت کی ذمہ داریوں کے بھی فرائض ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ میں نے صرف مظہر عباس کا نام کیوں لیا؟ اس کی بنیادی وجہ مظہر عباس ایسے قبیل کے صحافی اب کم کم ہوتے جا رہے ہیں جو صحافت کی اونچ نیچ اور اس کی قدر سے واقف ہیں گو یک طرفہ تجزیہ کرنے والے ایسے ایسے معتبر نام بھی ہیں جو تجزیہ کرتے وقت حقائق کا ایک رخ دکھا کر اپنے ایجنڈے یا پیغام پہنچانے کا کام کر رہے ہیں۔

شاید کہ اس کی وجہ ہماری صحافت کی وہ پستی ہو جس میں ہم یوٹیوبر اور ایک خاص جماعت کے ترجمان کو بھی صحافی بتانے میں کوئی تردد نہیں کرتے یا ان یو ٹیوبرز کی فالوئنگ سے گھبرا کر اپنی ساکھ پر وقتی سمجھوتہ کر لیتے ہیں اور خواہشات میں بہہ کر سننے دیکھنے اور پڑھنے والوں میں اپنی شخصیت کو ایک سوالیہ نشان بنا لیتے ہیں جو کسی طور درست عمل نہیں۔

کیا ہمارے محترم صحافی تجزیہ کار نہیں جانتے کہ سپریم کورٹ میں آج کل متنازع ہونے والے جسٹس مظاہر علی نقوی اور جسٹس اعجازالاحسن کی درخواست پر سوموٹو اختیارات کے تحت 9 رکنی بنچ تشکیل دیا جو سکڑ کر 5 رکنی بنچ بنا دیا گیا جس کے ایک فیصلے نے یہ حکم جاری کیا کہ الیکشن کمیشن صدر اور گورنر کی مشاورت سے الیکشن کی تاریخ مقرر کرے اور اس بات کو یقینی کیا جائے کہ آئین کی روشنی میں دیے گئے وقت یعنی 90 روز میں الیکشن ممکن ہو سکیں، سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے پر حکومتی موقف یہ رہا کہ تیکنیکی طور پر یہ فیصلہ تین کے مقابلے میں چار ججز کا تصور ہو گا جنہوں نے سوموٹو اور الیکشن کے انعقاد پر آئینی نکتے اٹھا کر الیکشن کمیشن کو انتخابات کے حکم کو درست قرار نہیں دیا، جبکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اسے پانچ رکنی بنچ تصور کیا اور فیصلہ دو کے مقابلے میں تین کی اکثریت سے سنا کر الیکشن کمیشن کو انتخابات کرانے کا حکم جاری کیا۔

اس موقع پر یہ امر دلچسپی کا باعث ہے کہ سوموٹو اختیارات کے تحت قائم کیے جانے والے 9 رکنی بنچ پر حکومت اور سماج کے مختلف طبقات کے علاوہ وکلا کی تنظیموں اور نامور وکلا نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے فل کورٹ بنچ بنانے کی ضرورت پر زور دیا، مگر چیف جسٹس عمر بندیال نے فل کورٹ بنچ کی درخواست نہ مانی اور ملک کی دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات پر کارروائی شروع کردی، کارروائی کے پہلے ہی روز جسٹس مندوخیل نے سوموٹو ہی کے طریقہ پر سوالات اٹھا دیے جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ پہلے یہ طے ہو کہ اسمبلیاں توڑنے کی آخر ضرورت کیا تھی؟

جبکہ جسٹس منصور شاہ نے اس بنچ کے قیام کا سوال اٹھایا اور اور سیاسی معاملات کو پارلیمنٹ میں طے کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اس دوران جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس اعجاز سیاسی جماعتوں کے عدم اعتماد کے سبب رضاکارانہ طور پر بنچ سے الگ ہو گئے جبکہ جسٹس آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ نے بنچ میں اپنے تحفظات ریکارڈ کروائے اور اس طرح یہ 9 رکنی بنچ 7 ارکان کا رہ گیا۔ یاد رہے کہ اس بنچ سے جسٹس آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ نے بنچ سے علیحدگی اختیار نہیں کی تھی بلکہ چیف جسٹس کی مرضی پر معاملات چھوڑ دیے تھے جس کے بعد چیف جسٹس نے اپنے طور پر 5 رکنی بنچ بنا کر دو سے تین روز میں فیصلہ سنایا، جو آج تک عجلت میں سنائے گئے فیصلے کے پیش نظر وکلا، سیاست دان اور عوام میں متنازع بنا ہوا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ملک کے اہم معاملات کی تشریح کے لئے تمام معزز ججز کے فہم و ادراک کا کیوں خیال نہیں رکھا گیا؟ یا کہ کیا اس متنازعہ فیصلے کی روشنی میں سیاسی اور سماجی طور سے تقسیم زیادہ ہوئی یا ہیجان خیزی میں ٹھہراؤ آیا؟ تحریک انصاف کے ڈھونگ اصولی رہنما کہہ رہے تھے کہ آئین میں درج 90 روز سے ایک گھنٹہ بھی مزید نہیں دیا جا سکتا، کیا تحریک انصاف کے وہ رہنما آئین کی یہ شرط رکھوا پائے۔ 15 جنوری کو تحلیل کی جانے والی اسمبلی کے انتخابات اگر 30 اپریل کو ہوتے تو کیا یہ آئین کی صریح خلاف ورزی نہ ہوتے؟

سوال تو یہ بھی ہے کہ آئین کی اس خلاف ورزی کروانے کے متحرک کردار تحریک انصاف، عمران خان اور تین ججز 90 روز کی شرط پوری نہ رکھنے پر آئین کے آرٹیکل 6 کے سزاوار ہیں کیا؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ پھر تین ججز کی 30 اپریل کی تاریخ پر خاموش رضامندی کیا آئین شکنی نہیں؟ اس نکتے پر صحافتی تجزیہ کاروں کی دانش جمہور کے لئے وہ سوال ہے جس کا جواب آنا ضرور چاہیے۔

وارث رضا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وارث رضا

وارث رضا سینیئر صحافی، تجزیہ کار اور کالم نگار ہیں۔ گزشتہ چار عشروں سے قومی اور بین الاقوامی اخبارات اور جرائد میں لکھ رہے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کے کہنہ مشق استاد سمجھے جاتے ہیں۔۔۔

waris-raza has 33 posts and counting.See all posts by waris-raza

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments