چیف جسٹس کا عزم، آئین کا احترام اور صدر مملکت کا انتباہ


اس بات کا امکان نہیں ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف، صدر عارف علوی کے خط کا نوٹس لیں گے یا الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات کا مشورہ دیں گے۔ صدر مملکت نے ایک خط میں وزیر اعظم سے کہا ہے کہ وہ متعلقہ محکموں کو ہدایت دیں کہ الیکشن کمیشن کو انتخابات کے انعقاد کے لئے ضروری سہولتیں فراہم کریں۔

یوں تو ایک آئینی عہدے پر سرفراز صدر کی طرف سے وزیر اعظم کے نام ایسا خط بنیادی طور پر ایک غیر معمولی پیش رفت ہے لیکن پاکستان اس وقت غیر معمولی حالات سے ہی گزر رہا ہے۔ فریقین کی طرف سے اپنی حدود کا احترام کرنے اور ذمہ داریاں پوری کرنے پر توجہ دینے کی بجائے دوسروں کو ان کے فرائض سے آگاہ کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ البتہ صدر عارف علوی کے خط کا یہ حصہ کسی حد تک تشویشناک ہے جس میں وزیر اعظم کو متنبہ کیا ہے کہ ’میری رائے میں ایگزیکٹو اتھارٹیز اور سرکاری محکموں نے آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے۔ توہین عدالت سمیت مزید پیچیدگیوں سے بچنے کے لئے وزیر اعظم، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے متعلقہ حکام کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں مقررہ وقت میں عام انتخابات کے لئے الیکشن کمیشن سے معاونت کی ہدایت کریں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تمام متعلقہ انتظامی حکام کو انسانی حقوق کی پامالی سے باز رہنے کی ہدایت کی جائے‘ ۔

صدر کے خط کا یہ متن آئین میں تعطل کی تمام تر ذمہ داری وزیر اعظم پر ڈالتے ہوئے انہیں آئینی خلاف ورزی کے بارے میں انتباہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ خاص طور سے اگر اس خط کو تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کے اس بیان کی روشنی میں پڑھا جائے کہ انتخابات میں تعطل کا سبب بنے والے سب عناصر کے خلاف آئین کی شق 6 کے تحت کارروائی ہونی چاہیے۔ ان کا خیال ہے کہ سول حکام اس وقت آئین شکنی کے مرتکب ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے اب ان کے خلاف آئین سے غداری کے مقدمے ضروری ہو گئے ہیں۔ اسی پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر مملکت بھی جب ایک باقاعدہ خط میں اسی طرف اشارہ کر رہے ہوں تو یہ سمجھنا دشوار نہیں ہونا چاہیے کہ تحریک انصاف مستقبل میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سیاسی مخالفین اور بیوروکریسی میں موجودہ حکومت کا ساتھ دینے والے عناصر کے خلاف کس قسم کی کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

عمران خان نے اپنے ایک کارکن اظہر مشوانی کی گرفتاری پر رد عمل دیتے ہوئے بھی کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب حکومت ہر حد سے گزر رہی ہے اور ہماری قوت برداشت جواب دے چکی ہے۔ ایک بیان میں تحریک انصاف کے چیئرمین کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ ان تمام سرکاری افسروں کی تصاویر اور تفصیلات انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو فراہم کر رہے ہیں تاکہ وہ جان لیں کہ کون سے عناصر موجودہ فاشسٹ حکومت کا ’آلہ کار‘ بن کر تحریک انصاف کے کارکنوں کے خلاف مصروف عمل ہیں۔

یہ طریقہ اگرچہ تحریک انصاف کی سیاسی قیادت کی انتہائی مایوسی کو ظاہر کرتا ہے کیوں کہ عمران خان نے جلد انتخابات کے انعقاد کے لئے اب تک جو بھی کارروائی کی ہے، اس کا کوئی اثر مرتب نہیں ہوا۔ حتی کہ سوموٹو نوٹس کے تحت سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود اب الیکشن کمیشن نے پنجاب میں مقررہ وقت پر انتخابات منعقد کروانے سے معذوری ظاہر کی ہے۔ تحریک انصاف اگرچہ اس معاملہ پر داد رسی کے لئے سپریم کورٹ جانے کا ارادہ رکھتی ہے لیکن کوئی عدالتی کارروائی اس وقت تک مزید الجھنیں پیدا کرنے کا سبب بنے گی جب تک چیف جسٹس عمر عطا بندیال عدالتی گروہی سیاست سے بلند ہو کر وسیع تر قومی مفاد میں بنچ بنانے اور معاملات کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر غور کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔

فروری کے دوران پنجاب میں انتخابات کے سوال پر لئے گئے سوموٹو میں یہی غلطی کی گئی تھی۔ ایک تو بنچ میں شامل ججوں کی طرف سے سو موٹو کے تحت کارروائی کے خلاف رائے پر توجہ نہیں دی گئی، دوسرے نہایت عجلت میں ایک الجھے ہوئے سیاسی معاملہ پر یک طرفہ فیصلہ صادر کر کے یہ سمجھ لیا گیا کہ ملک میں آئین کی بالادستی کا اہتمام کر لیا گیا ہے۔ حکومت کو مسلسل یہ اعتراض ہے کہ اس کا موقف نہیں سنا گیا۔

حکومت نے اب انتخابات میں التوا کے لئے پارلیمنٹ کے پیچھے پناہ لینے کی کوشش کی ہے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ارکان سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی تصاویر اٹھا کر انہیں انصاف کا قاتل قرار دے رہے تھے۔ ایک سابق چیف جسٹس سے ناپسندیدگی کے ایسے مظاہرے سے کوئی سیاسی مقصد حاصل نہیں ہو سکتا لیکن حکمران جماعتیں اس طریقے سے عدلیہ کو یہ پیغام دے رہی ہیں کہ اگر اسے انصاف کا علمبردار اور آئین کا محافظ بننا ہے تو انہیں ماضی قریب میں ہونے والی عدالتی زیادتیوں کا ازالہ کرنا ہو گا اور اہم معاملات میں پارلیمنٹ میں سامنے آنے والے خیالات کو بھی پیش نظر رکھنا ہو گا۔

وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے پارلیمنٹ میں تقریر کے دوران واضح کیا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ تن تنہا آئین کی حفاظت کا فرض پورا نہیں کر سکتی۔ اس سلسلہ میں کارروائی کرتے ہوئے اگر اختلافی فیصلے کیے جائیں گے اور ماضی قریب میں ہونے والے سیاسی مقاصد کے لیے عدلیہ کو استعمال کرنے کے طریقہ کا نوٹس نہیں لیا جائے گا تو عدلیہ کا اعتبار و احترام بحال نہیں ہو سکے گا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال ابھی تک اپنی پوزیشن واضح نہیں کرسکے ہیں۔ انہوں نے ایک پولیس افسر کے تبادلہ کے مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیتے ہوئے یہ ضرور کہا ہے کہ عدالت شفاف انتخابات کی ضامن بنے گی اور اگر انتخابات کے دوران کسی قسم کی بے قاعدگیاں دیکھنے میں آئیں تو سپریم کورٹ مداخلت کرے گی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ آڈیو لیکس سے متاثر نہیں ہوگی اور اپنے فرائض ادا کرتی رہے گی۔

چیف جسٹس کے ان پرجوش خیالات ہی کی وجہ سے عمران خان بار بار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اب سپریم کورٹ ہی ملک میں آئینی بالادستی کا اہتمام کر سکتی ہے اور تحریک انصاف کی تمام امیدیں سپریم کورٹ سے وابستہ ہیں۔ اہم اپوزیشن پارٹی کے لیڈر کا یہ بیان درحقیقت چیف جسٹس کے غیر متوازن رویہ سے اپنے لیے سہولت حاصل کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ تحریک انصاف ایک طرف تاثر عام کر رہی ہے کہ حکومت عدالتوں کو دباؤ میں لانا چاہتی ہے تو دوسری طرف وہ عدالتوں کو تمام مسائل کا واحد حل قرار دے کر ملکی عدلیہ کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اب جو توقعات عدالتوں سے وابستہ کی جا رہی ہیں، کچھ عرصہ پہلے تک یہی اعزاز پاک فوج کو دیا جاتا تھا۔ ابھی کچھ سال پہلے ہی فواد چوہدری نے وزیر اطلاعات کے طور پر جنرل قمر جاوید باجوہ کی توصیف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’آرمی چیف قوم کا باپ ہوتا ہے‘ ۔ اب اسی باجوہ کو تحریک انصاف کا شدید دشمن سمجھا جا رہا ہے۔ اس سے کم از کم ایک بات تو واضح ہوتی ہے کہ فوج تن تنہا ملکی مسائل حل نہیں کر سکتی۔ دہائیوں کے تجربات کے بعد اگر یہ بات فوج کے بارے میں کہی جا سکتی ہے تو عدالت عظمی کے بارے میں بھی یہی اصول تسلیم کر لینا چاہیے۔

سپریم کورٹ اہم معاملات میں رہنمائی کرنے والا ایک ادارہ ضرور ہو سکتا ہے لیکن اسے نہ تو تشریح کے نام پر آئین میں ترمیم و اضافہ کا حق دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی خفیہ منصوبہ کے لئے سیاسی لیڈروں کو نا اہل قرار دینے کے لئے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال ہونا چاہیے۔ 2018 کے انتخابات اور اس سے چند برس پہلے رونما ہونے والے حالات اور ان میں عدلیہ کے کردار کے بارے میں جو معلومات سامنے آئی ہیں، ان کی روشنی میں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے مقام فضیلت کو زک پہنچی ہے اور کئی ججوں کی نیک نیتی کے بارے میں سوالات سامنے آئے ہیں۔ خاص طور سے جب آڈیو لیکس جیسا معاملہ سامنے آنے کے بعد متعدد ججوں کی جانبداری پر سوال اٹھائے جا رہے ہوں تو تشویش و پریشانی میں اضافہ فطری ہے۔ چیف جسٹس ضرور آڈیو لیکس کا اثر قبول نہ کریں لیکن موجودہ حالات میں یا اس قسم کی گفتگو کے شریک جج حضرات ان لیکس کی تردید کریں یا چیف جسٹس سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراہ کے طور پر ان ججوں کے خلاف الزامات کی سماعت کر کے فیصلے صادر کریں۔

اسی طرح چیف جسٹس کا یہ بیان بھی ناقابل فہم ہے کہ شفاف انتخاب کروانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے لیکن سپریم کورٹ کسی بھی بے قاعدگی کا نوٹس لے گی۔ سوال ہے کہ اگر چیف جسٹس یا عدالت عظمی ہی کسی آئینی ادارے کی خود مختاری کو یقینی بنانے کی ذمہ داری قبول کرنے کی بجائے اس کی اتھارٹی کم کرنے کی کوشش کریں گے تو ملک میں انتخابی نظام کیوں کر مروجہ قوانین اور طریقہ کار کے طور پر کام کرسکے گا؟ الیکشن کمیشن کو انتخابات منعقد کروانے اور اس حوالے سے تمام ضروری فیصلے کرنے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ الیکشن کمیشن کا ہر فیصلہ کسی نہ کسی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں چیلنج ہوتا ہے اور جج حضرات الیکشن کمشنر اور دیگر حکام کو باقاعدگی سے حاضر ہونے کا حکم جاری کرتے رہتے ہیں۔

شدید سیاسی بحران کے دوران اعلیٰ عدلیہ الیکشن کمیشن سمیت اگر تمام اہم اداروں کی خود مختاری کے بارے میں کچھ قواعد مرتب کر لیتی اور ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کو سیاسی معاملات کا دنگل بنانے کی حوصلہ شکنی کی جاتی تو شاید معاملات اس حد تک بے یقینی کا شکار نہ ہوتے اور سیاسی پارٹیاں مل بیٹھ کر معاملات طے کرنے پر آمادہ ہوتیں۔ لیکن اب یہ سمجھا جا رہا ہے کہ کسی بھی معاملہ میں اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کر لیا جائے۔ دوسری طرف فاضل جج حضرات بھی ریمارکس کے نام پر قانونی حدود سے باہر نکل کر کھیلنے کی شہرت حاصل کر رہے ہیں۔ اسی لئے حالات پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔

انتخابات کے حوالے سے حکومت کا رویہ ناقابل قبول ہے۔ اس طریقہ سے آئین کو موم کی ناک بنانے کا طرز عمل اختیار کیا گیا ہے جس کے ملکی سیاست اور مستقبل پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ لیکن عدلیہ کے فیصلوں، ججوں کے ریمارکس اور بعض ججوں کے طرز عمل نے حکومت اور الیکشن کمیشن کو بھی آئین کو قانون کی بالادستی کے لیے استعمال کرنے کی بجائے اپنے ہاتھ کی چھڑی بنانے کا حوصلہ دیا ہے۔ گزشتہ پانچ چھ برس کے حالات پر نگاہ دوڑا لی جائے تو سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر فوجی حکمت عملی نے ملکی سیاست کو آلودہ کیا ہے تو عدلیہ نے بھی معاونت کے نام پر انصاف کا خون کر کے حالات خراب کیے ہیں۔

یہ سمجھ لینا نادانی ہوگی کہ صدر کے ایک خط سے آئین کی روح کے مطابق فیصلے ہونے لگیں گے یا سپریم کورٹ اپنی پوزیشن واضح کیے بغیر سیاسی الجھنوں کو آئینی طریقے سے حل کرنے میں رہنمائی کرسکے گی۔ یقیناً آئین کا احترام ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس انتخابات ملتوی کرنے کے بارے میں الیکشن کمیشن کے فیصلہ کے خلاف اپیل کے دوران فل کورٹ بنچ بنا کر مسائل حل کرنے کے لئے راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ آئینی غداری کو کوئی ایسا نعرہ نہ بنالیا جائے کہ ملک میں قانون کا احترام ہی ختم ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments