بھگت سنگھ کے بھائی: عمر 14 سال اور 12 سالہ سزائے قید


میں نے گزشتہ اگست میں انڈین آرمی کے افسر ریاٹائرڈ میجر جنرل شیونون Sheonan کو فون کیا تو اس وقت دہلی میں رات کے پونے نو بج رہے تھے۔ میں نے ان کی بڑی بہن اسکارا جی کا حوالہ دے کر بات کی تو جنرل صاحب نے بہت بیزاری اور تھکے ہوئے لہجے میں کہا کہ بھائی اس وقت میرے گھر کی بجلی گئی ہوئی ہے ہم سب لوگ باہر صحن میں بیٹھے ہیں اور مچھر بھی بہت ہیں اس وقت بات نہیں ہو سکتی ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد بجلی آئے گی تو بات ہو سکتی ہے تو زندگی معمول پر آئے گی، بہتر ہے کل دن میں بات ہوگی۔ مجھے ان کا جواب سن کر بہت مایوسی ہوئی اور مجھے یقین نہیں آیا کہ کسی ریٹائرڈ جنرل کے گھر بجلی چلی جائے اور وہ صحن میں بیٹھ کر مچھروں سے لڑرہا ہو۔ مجھے تو پاکستان کے ریٹائرڈ جنرلوں کا احوال معلوم ہے جنرل تو دور کی بات کسی کیپٹن کے گھر پر بھی تصور نہیں کہ کبھی بجلی چلی جائے اور کسی مچھر کی اتنی ہمت کہ ان کے صحن میں دندناتا پھرے۔ میں نے اپنے دوست رحمان کاکیپوٹہ سے جن کے گھر واقع سان فرانسسکو میں ٹھہرا تھا کہا کہ جنرل صاحب ہمیں کاٹ رہے ہیں یہ بھی پاکستانی جنرل کی طرح لگتے ہیں۔ وہ بہت ہنسا اور یقین دلایا کہ ایسی بات نہیں، صبح فون کرلینا۔

دوسرے دن میں نے جیسے ہی فون ملایا انہوں نے خود فون اٹھایا اور انتہائی پرتپاک انداز سے بہترین اردو میں گفتگو کی۔ کچھ دیر تک وہ معذرت کرتے رہے کہ رات کو بات نہ ہو سکی، میں حیران کہ کیا انڈیا کا ریٹائرڈ جنرل کسی بھی انجان شخص سے اس طرح نرم لہجے میں بات کرتا ہے۔ ریٹائرڈ میجر جنرل شیونون شہید بھگت سنگھ کے سب سے چھوٹے بھائی رنبیر سنگھ کے بیٹے ہیں جو ان کی پھانسی کے وقت صرف 6 سال کے تھے جنہیں گھر والوں نے برطانوی پولیس کے ڈر سے روپوش کر دیا تھا۔ دوران گفتگو میجر جنرل صاحب نے اپنی بہن میڈم اسکارا کی بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ بھگت سنگھ کی پھانسی کے بعد جیل کے عقبی حصے کی دیوار توڑ کر ان کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے بوری میں بند کیا اور فیروزپور میں ان کی یادگار کے قریب جلانے کی کوشش کی، ناکامی کی صورت میں سپاہیوں نے بوری دریائے ستلج میں پھینک دی جس کے بعد لوگوں کے ہاتھ جو بھی ٹکڑے لگے لے کر بھاگ گئے۔

انہوں نے بتایا کہ بھگت سنگھ کے منجھلے بھائی سردار کلبیر سنگھ کو اس وقت جب وہ 14 سال کی عمر کے تھے گرفتار کر کے 12 سال کے لئے قید کر دیا گیا۔ اسی طرح دوسرے بھائی سردار کلتار سنگھ سندھو جیسے ہی 14 سال کی عمر کو پہنچے تو انہیں بھی بارہ سال کے لئے قید کر دیا گیا۔ پروفیسر چمن لعل نے بھگت سنگھ کی چھوٹی بہن امر کور کے بارے لکھا کہ انہیں بھی کئی سال تک قید میں رکھا گیا تھا، (سردار کلویر سنگھ کا نام چمن لعل کی کتاب میں کلبیر سنگھ لکھا گیا ہے)۔ جنرل شیونون نے بتایا کہ ان کے والد رنبیر سنگھ جو بھگت سنگھ کے تیسرے بھائی تھے اور بہن بھائیوں میں آٹھویں نمبر پر تھے اور پھانسی کے وقت صرف چھ سال کے تھے انہیں والدہ نے کہیں غائب کر دیا تاکہ وہ بھی بڑے بھائیوں کی طرح بارہ سال کے لئے قید نہ کردیے جائیں۔ بھگت سنگھ کی والدہ ایک خوشحال خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اس لئے انہوں نے پورے خاندان کو مصیبت کے اس مرحلے پر سنبھال کر رکھا۔ سردار رنبیر سنگھ ایک کمیٹڈ شخص تھے انہوں نے کسانوں اور ٹریڈ یونین تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، وہ پنجاب اسمبلی کے ممبر بھی رہے ہیں۔ جبکہ چمن لعل کی تازہ ترین کتاب Life and Legend of Bhagat Singh (a pictorial Volume) میں تحریر ہے کہ بھگت سنگھ کی چھوٹی بہن امر کور کو بھی کئی سال قید میں رکھا گیا تھا۔ دونوں بھائیوں کو دولائی کیمپ جیل میں رکھا گیا تھا۔ چمن لعل کی یہ کتاب 2022 میں شائع ہوئی۔ مجھے ایس عرفان حبیب صاحب کی کتاب ‏Bhagat Singh، a shared revolutionary legacy between India and Pakistan نہیں مل سکی جسے بھگت سنگھ کے بارے ایک مصدقہ تحقیق مانا جاتا ہے۔

اب آئیے شہید اعظم کی جدوجہد اور ان کی زندگی پر کچھ گفتگو کی جائے۔ بھگت سنگھ بچپن سے ہی مطالعہ کے بہت شوقین تھے، چوتھی کلاس میں ہی وہ اپنے چچا اجیت سنگھ، صوفی امبا پراساد، اور لالہ ہردیال کی 50 سے زائد کتابوں کے علاوہ پرانے اخبارات میں شائع ہونے والے لالہ لجپت رائے اور چچا اجیت سنگھ کے مضامین ان سے متعلق خبریں بھی پڑھ چکے تھے۔ وہ غدار پارٹی کے سردار کرتار سنگھ سرابھا کی تحریروں اور ان کی گفتگو سے بہت متاثر تھے جو ان کے والد کشن سنگھ کے قریبی دوست تھے سردار سرابھا کو نوجوانی میں 1914 میں پھانسی دیدی گئی تھی۔ بھگت سنگھ اپنی عملی سیاسی جدوجہد کے دوران تحریروں کے ذریعے بھی لوگوں کو متحرک رکھتے۔ پھانسی سے ایک روز قبل 22 مارچ کو انہوں چند گھنٹے قبل تمام کامریڈز کو آخری خط لکھا جبکہ انہوں نے 130 خطوط، پٹیشنز، بیانات، اور مضامین اس سے قبل لکھ چکے تھے۔ نیز انہوں نے ایک سو سے زائد صفحات پر مشتمل جیل نوٹ بک بھی مرتب کی جو کہ ان تمام کتابوں کے نوٹس پر مشتمل ہے جو جیل میں ان کے زیر مطالعہ رہی ہیں۔ ان کی ابھی بے شمار تحریں منظر عام پر نہ آ سکیں جو انگریزوں نے غائب کردی تھیں۔ تاہم ان کی چار زبانوں اردو، پنجابی، اور ہندی میں تحریریں 500 صفحات پر مشتمل ہیں۔ وہ سنسکرت اور بنگالی زبانوں پر بھی عبور رکھتے تھے۔ اس طرح وہ چھ زبانوں کے ذریعے سامراج کے خلاف اپنے سیاسی نظریات کو پھیلاتے تھے۔

ہندوستان کی تاریخ میں وہ پہلے انقلابی تھے جنہوں نے زیر زمیں انقلابی تحریک کو منظم کرنے کے لئے عوامی پلیٹ فارم یا عوامی سطح پر مختلف تنظیمیں تشکیل دیں جس کے ذریعے انہوں نے اپنی انقلابی تحریک کو عام کیا۔ جب انہوں نے 1924 میں ایچ آر اے میں شمولیت اختیار کی تو نوجوانوں کے لئے نوجوانان بھارت سبھا اور بغاوتی چرن وہرہ بنائی۔ سب سے بڑھ کر انہوں نے بچوں کی سطح پر بھی بال بھارت سبھا اور بال اسٹوڈنس یونین جیسی بہت ہی متحرک اور فعال تنظیمیں منظم کیں، ان تنظیموں میں 10 سے سولہ سال کے بچوں کو سیاسی طور پر منظم کیا جاتا تھا۔ وہ ہر عمر کے لوگوں میں ہر سطح پر انقلابی شعور پھیلانے کے عمل میں مصروف رہتے تھے۔ ان کی سیاسی حکمت عملی میں سب سے موثر ہتھیار بھوک ہڑتال ہوتی تھی۔ انہوں نے مجموعی طور پر 157 روز کی بھوک ہڑتالیں کیں جن میں ایک بھوک ہڑتال 110 دس دن کی طویل ترین تھی۔ ان کے ساتھی بی کے دت جتن داس اور دیگر بھی بھرپور طریقے سے شرکت کرتے تھے۔ انہوں نے متحدہ ہندوستان کی سیاست میں جو کہ اس وقت جمود کا شکار تھی نئے نئے انداز متعارف کرائے جنہیں اس وقت کی سب سے بڑی جماعت کانگریس کو بھی ان پر مجبور ہو کر عمل کرنا پڑا۔ 1929 میں ہی کانگریس کو بھگت سنگھ کی تحریک ان کے نعروں سے متاثر ہو کر ”مکمل آزادی“ یعنی پورنا سوراج کا اعلان کرنا پڑا۔ اس کے بعد سوبھاش چندر بوس کے فاورڈ بلاک اور آچاریہ نریندر دیو، رام منوہر لوبیا اور جے پرکاش نارائن کی کانگریس سوشلسٹ پارٹی نے سوشلزم کو اپنی پارٹیوں کا ایجنڈا بنایا۔ ”مکمل آزادی“ کے نعرے کو گاندھی جی کو بھی مجبور ہو کر تسلیم کرنا پڑا۔

13 اپریل 1919 کے جلیانوالہ باغ کے قتل عام کے موقع پر بھگت سنگھ 12 سال کے تھے انہیں اسکول پہنچنے پر اس خبر کی اطلاع ملی وہ لائلپور سے سیدھا امرتسر جلیانوالہ باغ چلے گئے۔ جہاں انہوں نے خون آلود مٹی کو اٹھا کر چوما اور اسے سیلوٹ کر کے ایک بوتل میں بھر کر گھر لے آئے۔ جب وہ واپس آئے تو پورا گھر ان کی طرف سے فکر مند تھا انہوں نے اپنی بہن امر کور کو مٹی دکھائی اور روتے رہے۔ آج بھی وہ بوتل بھگت سنگھ میموریل میوزیم میں محفوظ ہے۔

بھگت سنگھ کی پیدائش یا ان کی آمد سے قبل ہی انہیں ”بھاگوں والا“ یعنی قسمت والا کہا جانے لگا کیونکہ ان دنوں میں ان کے چچا اجیت سنگھ کی 38 سالہ جلاوطنی ختم کردی گئی تھی جنہیں کسانوں کی تحریکیں منظم کرنے اور ہڑتالیں کرانے پر برما میں جلاوطن کر دیا گیا تھا۔ اسی دوران ان کے والد کشن سنگھ اور دوسرے چچا سورن سنگھ کو طویل قید کے بعد رہا کر دیا گیا تھا۔ (بحوالہ Burried Alive۔ چچا اجیت سنگھ کی سوانح حیات) اجیت سنگھ کا بھگت سنگھ کی زندگی پر بڑا اثر رہا ہے اور ان کی جلاوطنی کے سبب ان کی کوئی اولاد نہیں تھی جن کی بیگم حکم کور نے بھگت سنگھ کو پالا اور اپنے شوہر کی جدوجہد اور انقلابی کارنوں پر مشتمل کہانیاں بھگت کو سناتی تھیں۔ اجیت سنگھ پنجاب میں ”پگڑی سنبھال جٹا“ تحریک کے بانی تھے جو انگریزوں کے خلاف بہت مقبول تحریک تھی۔ بھگت سنگھ کے والد کشن سنگھ کسان تحریک کے لیڈروں میں شمار ہوتے تھے۔ وہ غصے کے بہت تیز تھے۔ وہ بھگت سنگھ کی پٹائی بھی کرتے تھی اور بھگت اپنے جسم پر ان کی مار کے نشانات ہمیشہ ہنستے ہوئے دکھاتے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments