انڈیا کے زیر انتظام کشمیر: ’25 روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے، سوچتی ہوں اس سے روٹی خریدوں یا صابن کی ٹکیہ‘


سارہ بیگم
سارہ بیگم کو 30 سال پہلے ماہانہ تین روپے کے عوض عاجرہ گاؤں کے مڈل سکول میں خاکروب کی نوکری پر رکھا گیا تھا
’مہینے بھر صفائی ستھرائی کا کرتی ہوں، یہ کام کرتے ہوئے پورا جسم اور کپڑے گرد آلود ہو جاتے ہیں۔ اتنے مشکل کام کے بعد جب مہینے کے پہلی تاریخ کو صرف 25 روپے تنخواہ ملتی ہے تو سوچتی ہوں کہ اس کی ایک روٹی خریدوں یا صابن کی ایک ٹکیہ؟‘

یہ کہنا ہے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ کے ایک سرکاری سکول میں دہائیوں سے صفائی کا کام کرنے والی سارہ بیگم کا۔

آج سے لگ بھگ 30 سال پہلے انھیں ماہانہ تین روپے کے عوض عاجرہ گاؤں کے مڈل سکول میں خاکروب کی نوکری پر رکھا گیا تھا۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’چند سال بعد یہ تنخواہ تین روپے سے بڑھا کر 25 روپے ماہانہ کر دی گئی اور اس کے بعد طویل خاموشی چھا گئی۔‘

سارہ بیگم

سارہ بیگم کے خاوند نابینا ہیں

سارہ بیگم ضلع بانڈی پورہ کی ان 500 سے زیادہ خواتین میں شامل ہیں جو ضلعے کے مختلف سکولوں میں گذشتہ کئی برسوں سے 25 روپے سے 75 روپے ماہانہ کی اُجرت پر صفائی کا کام کرتی ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ایسی خواتین کی تعداد 4000 کے قریب ہے۔

سارہ بیگم کے خاوند نابینا ہیں۔ اُن کے دو بیٹے تھے جن میں سے ایک وفات پا چکے ہیں۔

’جو بیٹا بچا تھا وہ تو شادی کرکے الگ ہو گیا۔ جو چل بسا تھا اُسی کا یتیم بیٹا بھی میرے ساتھ ہے۔ وہ مزدوری کرتا ہے اور اب وہی ہم دونوں میاں، بیوی کا سہارا ہے، ورنہ 25 روپے میں زندگی کا بوجھ کون اُٹھا سکتا ہے؟‘

بانڈی پورہ کے ہی سونروانی گاؤں کی نِثارہ بیگم کی حالت بھی کچھ مختلف نہیں۔ چند سال قبل حکومت کی جانب سے اُن کی تنخواہ 25 روپے سے بڑھا کر 75 روپے کر دی گئی تھی۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’میرا خاوند چل بسا، پھر میرا جوان بیٹا بیمار ہو کر فوت ہو گیا۔ معذور بیٹی کے ساتھ اکیلی رہتی ہوں، میرا اس پیسے سے کیا ہو گا۔ میں سب سے ملی لیکن کسی نے (میری درخواست پر) غور نہیں کیا۔‘

نثارہ بیگم

نِثارہ بیگم کی حالت بھی کچھ مختلف نہیں، چند سال قبل حکومت کی جانب سے اُن کی تنخواہ 25 روپے سے بڑھا کر 75 روپے کر دی تھی

نِثارہ کے کئی رشتہ دار ہیں، اُن میں سے صرف ایک بھائی اُن کی کبھی کبھی مدد کرتے ہیں، جس سے ان کا گزر بسر چلتا ہے۔ ’وہ بے چارا بھی غریب ہے، اُس کی اپنی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔‘

سارہ اور نِثارہ کی طرح باقی سینکڑوں خواتین بھی قلیل اُجرت کی وجہ سے پریشان ہیں۔ ان میں سے بعض کو سماجی بہبود محکمے کی طرف سے ہر ماہ ایک ہزار روپے دیے جاتے ہیں لیکن ان کے ذہن پر اس بات کا دباؤ ہے کہ دہائیوں سے کام کرنے کے بعد بھی ان کی مہینے کی تنخواہ اتنی ہی ہے کہ مشکل سے چائے کا ایک کپ بن سکے۔

قلیل اُجرت پر خواتین سے کام لینے کی پالیسی؟

نثارہ بیگم

نثارہ بیگم کی ایک بیٹی معذور ہے

ان خواتین کو محکمہ تعلیم نے 30 سال قبل ہنگامی بنیادوں پر انگیج کیا تھا لیکن دہائیاں گزرنے کے بعد بھی انھیں مستقل کیا جا رہا ہے اور نہ ہی تنخواہ میں اضافہ ہو رہا ہے۔

کیا یہ ایک غیرانسانی پالیسی تھی؟ بانڈی پورہ کے چیف ایجوکیشن افسر عبدالمجید ملک نے اس سوال کا جواب تو نہیں دیا تاہم وہ کہتے ہیں ’حکومت نے اب ایک پالیسی بنائی ہے کہ ان میں سے جو خواتین آٹھویں کلاس تک پڑھی ہوئی ہوں گی اُن کو مستقل کر دیا جائے گا لیکن یہ کوٹا بھی صرف پچاس فیصد ہے۔‘

عبدالمجید ملک کے مطابق سکولوں کی صفائی ستھرائی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر خاکروب خواتین کو انگیج کرنے کی پالیسی پر کئی سال پہلے پابندی عائد کر دی گئی تھی جس کے بعد نئی خواتین کی بھرتیاں نہیں کی گئیں۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر محکمہ تعلیم کے بعض افسروں نے اعتراف بھی کیا کہ ان خواتین کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تاہم وہ کہتے ہیں کہ انھیں ’لوکل فنڈز‘ سے تنخواہ دی جاتی تھی جو دو سے تین ہزار روپے بھی ہوتی تھی۔

عبدالمجید ملک نے بھی اس کی تصدیق کی اور کہا کہ ’چونکہ سرکاری سکولوں میں بچوں سے ہر مہینے باقاعدہ فیس لی جاتی تھی۔ اُسی فیس سے ان خواتین کو مناسب اجرت ملتی تھی لیکن یہ ہر جگہ ممکن نہیں تھا اور پھر حکومت ہند نے سرکاری سکولوں میں مفت تعلیم کا اعلان کیا تو فیس آنا بند ہو گئی، اسی لیے فنڈز کی کمی کی وجہ سے ان کی کوئی مناسب تنخواہ مقرر نہ ہو سکی۔

سکول

کم تنخواہ پر دہائیوں تک انتظار کیوں؟

سارہ بیگم اور نِثارہ بیگم اس سوال کے جواب میں کہتی ہیں کہ شروعات میں اُن کو یقین دلایا گیا تھا کہ چند سال کام کرنے کے بعد انھیں مستقل سرکاری نوکری ملے گی اور اُسی وعدے کی وجہ سے انھوں نے یہ کام چھوڑنا مناسب نہیں سمجھا۔

سینیئر صحافی ہارون ریشی کہتے ہیں کہ مستقل نوکری کے لالچ میں لاکھوں کشمیریوں نے اپنی زندگی کے 20، 20 سال ضائع کیے ہیں۔

’اب یہ یہاں کا کلچر بن چکا ہے۔ چونکہ کشمیر کوئی صنعتی خطہ نہیں اور تجارت کے مواقع بھی محدود ہیں، اس لیے سرکاری نوکری یہاں روزگار کا سب سے بڑا اور محفوظ آپشن ہے۔ محکمہ تعلیم میں ہی ایک پالیسی کے تحت ’رہبرِ تعلیم‘ تعینات کیے گئے تھے۔ وہ پڑھے لکھے نوجوان تھے جنھیں ماہانہ 1500 روپے ملتے تھے لیکن انھوں نے بھی نوکری چھوڑنے کی ہمت نہیں کی۔ یہی معاملہ ان خواتین کا رہا ہے۔‘

چیف ایجوکیشن افسر عبدالمجید ملک نے اس امید کا اظہار کیا کہ نئی پالیسی کے تحت بیشتر خواتین کا مسئلہ حل ہو جائے گا ’لیکن اس کے لیے بھی آٹھویں پاس ہونا لازمی ہو گا۔‘

اس نئی پالیسی کے حساب سے بیشتر خواتین کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ جب انھیں رکھا گیا تو کوئی تعلیمی معیار مقرر نہیں کیا گیا تھا اور انھیں فقط سکولوں میں صفائی ستھرائی کا کام کرنا تھا۔

سارہ بیگم کہتی ہیں کہ ’عمر بھر انتظار کیا کہ یہ لوگ وعدہ پورا کریں گے۔ اب 30 سال بعد یہ کہیں گے کہ تم آٹھویں پاس نہیں ہو، اس لیے نوکری نہیں ملے گی۔ آپ ہی بولو ، کیا یہ انصاف ہے؟‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments