وفاقی حکومت کے عجلت میں اٹھائے اقدامات


عملی صحافت سے عرصہ ہوا ریٹائر ہوئے رپورٹر کو ہرگز یہ خبر نہیں تھی کہ شہباز حکومت چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کے ازخود اختیارات کو لگام ڈالنے کے لئے کچھ قوانین متعارف کروانا چاہ رہی ہے۔منگل کی صبح اٹھتے ہی لکھے کالم میں اس ضمن میں ”حدود و قیود“ کا ذکر جبلی سوچ کی روانی ہی میں کر دیا تھا۔ میری سوچ کو انگیخت 27 صفحات پر مشتمل اس فیصلے نے دی جو سپریم کورٹ ہی کے دو عزت مآب ججوں نے باہم مل کر لکھا تھا۔ وہ پیر کی شام منظر عام پر آیا تھا۔

بہرحال وزیر اعظم شہباز شریف سے قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایک طولانی تقریر کروانے کے بعد ان کے قانونی مشیروں نے حدودوقیود متعارف کروانے والے بل کا مسودہ تیار کر لیا۔ منگل کی شام وفاقی کابینہ نے مذکورہ مسودے کو سرعت سے منظور بھی کر لیا۔ مجھے شک ہے کہ وفاقی کابینہ سے تیار ہوئے قانون کو قومی اسمبلی بھی عجلت میں منظور کرلے گی۔وہاں سے منظور ہوجانے کے بعد یہ جھٹ سے ایوان بالا کے روبرو رکھ  دیا جائے گا۔عاجلانہ منظوری وہاں سے بھی یقینی ہے۔

پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظور ہوا قانون جب صدر کے دستخطوں کے لئے بھیجا جائے گا تو وہ عمران خان سے اپنی وفاداری نبھانے کو ایک بار پھر مجبور ہو جائیں گے۔ پارلیمان کو نظرثانی کا مشورہ دیتے ہوئے منظور ہوئے قانون واپس بھجوا سکتے ہیں۔ ان کا عدم تعاون حکومت کو پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلانے کو مجبور کرے گا۔ جو منظور ہوئے قانون پر ایک بار پھر اپنے انگوٹھے ثبت کر سکتی ہے۔ سوال اٹھے گا کہ اس کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اپنے ”اختیارات“ میں ”پارلیمان کی مداخلت“ برداشت کریں گے یا نہیں۔ وہ اگر مزاحمت کو ڈٹ گئے تو ایک اور قضیہ کھڑا ہوجائے گا۔ کئی مہینوں سے جاری آئینی اور سیاسی بحران ان کے ممکنہ طور پر اپنائے رویے سے سنگین تر ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد کیا ہو گا؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لئے دور کی کوڑی ڈھونڈنا ہو گی جس کی مجھے عادت نہیں۔ پیش بینی کی بصارت سے ویسے بھی محروم ہوں۔ معاملات کو ”تاریخی پس منظر“ ہی میں بیان کرتے ہوئے روز کی روٹی کمانے کی کوشش کرتا ہوں۔

پاکستانی سیاست کے مسلسل لگے تماشوں کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے ”ازخود نوٹس“ کی بدولت پھیلائے ہیجان کا حقیقی ادراک مجھے آج سے تقریباََ 13 برس قبل ہوا تھا۔”عوامی تحریک“ کے دباﺅ سے افتخار چودھری چیف جسٹس کے منصب پر واپس لوٹ چکے تھے۔ قومی اسمبلی میں ”جعلی ڈگریوں“ کی بنیاد پر گھسے افراد کو تقریباََ روزانہ کی بنیاد پر اپنے روبرو طلب کرنا شروع ہو گئے۔ ان دنوں کے وفاقی وزیر برائے مذہبی امور صاحبزادہ حامد کاظمی بھی ان کے غضب کی زد میں آئے۔ بالآخر وزیراعظم کی باری بھی آ گئی۔ یوسف رضا گیلانی کو مجبور کیا جاتا رہا کہ وہ سوئس حکومت کو ایک چٹھی لکھیں۔اس میں وہاں کی حکومت سے استدعا ہوکہ وہ پاکستان کے منتخب ہوئے صدر کی اس ملک میںقائم بینکوں میں مبینہ طورپر چھپائی دولت کا سراغ لگائے۔ گیلانی نے اپنے ملک کے صدر کی عالمی سطح پر ممکنہ بدنامی میں حصہ ڈالنے سے انکار کر دیا۔ اس کی وجہ سے ”توہین عدالت“ کے مرتکب قرار پائے اور اس کے سبب وزارت عظمیٰ کے منصب پر برقرار رہنے کے ”نااہل“ بھی ہو گئے۔

سچی بات یہ بھی ہے کہ ہم صحافیوں کی اکثریت ”عوام کی قوت“ سے چیف جسٹس کے منصب پر لوٹے افتخار چودھری کے لئے ازخود نوٹسوں کی پذیرائی میں مصروف رہی۔ میں اگرچہ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد گھبرانا شروع ہو گیا تھا۔ اب یہ انکشاف کرنے کی ہمت بھی دکھا سکتا ہوں کہ ایک بہت ہی عزیز مگر ہر حوالے سے غیر سیاسی دوست کی وجہ سے مجھے پہلی بار پتہ چلا تھا کہ افتخار صا حب کے ایک ہونہار فرزند بھی ہیں۔ ارسلان نام کے یہ فرزند سرکاری نوکری چھوڑ کر کاروبار میں قسمت آزمانے لگے۔ اس ضمن میں ان کے ابتدائی شراکت دار اور سہولت کاروں میں سے کم از کم تین افراد میرے بے تکلف دوست بھی تھے۔ان کی وجہ سے ارسلان صاحب کی دن دوگنی رات چوگنی کامیابیوں کا پتہ بھی چلتا رہا۔افتخار چودھری کے خوف سے مجھ بزدل کو مگر ان کی ”ستائش“ کی جرات ہی میسر نہ ہوئی۔ کامیابیوں کے خمار میں بے سمت ہوئے ارسلان مگر بالآخر رئیل اسٹیٹ کے ایک بااثر ٹائیکون کو ناراض کر بیٹھے۔ وہ ناراض ہوئے تو سکینڈل بن گیا۔ ارسلان کے ابو نے وعدہ کیا کہ اگر ان کا فرزند گنہگار ثابت ہوا تو وہ حضرت نوع علیہ السلام کے بیٹے کی طرح اسے عبرت کا نشان بنا دیں گے۔ اس کی مگر نوبت ہی نہ آئی۔

پاکستان کی غربت کے بارے میں دائمی فکرمند ہوتے ہوئے افتخار چودھری کی ”علتِ ازخود نوٹس“ نے مجھے اصل تکلیف ریکوڈیک کیس کے حوالے سے پہنچائی۔ نہایت دیانت داری سے میں نے اس کی بابت حقائق کا کھوج لگانے کی کوشش کی۔ کسی بڑے دھندے میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے بہانے ہماری مختلف حکومتوں کے اہم کردار اپنے دن بھی سنوارتے رہے ہیں۔ان کی مذمت لازمی ہے۔ وسیع تر تناظر میں لیکن سوچنا یہ بھی ضروری ہے غیر ملکی کمپنی سے کسی میگاپراجیکٹ کے لئے جو معاہدہ ہوا ہے وہ پاکستان کے وسیع تر مفاد میں ہے یا نہیں۔وہ اگر اس تناظر میں مناسب نظر آئے تو درگزراختیار کرنا پڑتی ہے۔

تحقیق نے مجھے ایسا ہی رویہ اختیار کرنے کو مجبور کیا۔ چودھری صاحب مگر ڈٹ چکے تھے۔ معاہدہ کینسل کردیا۔اس ضمن میں تاہم جو دلائل انہوں نے فراہم کئے عالمی ثالثوں نے قبول نہ کئے۔ پاکستان پر معاہدہ کی خلاف ورزی کی تہمت لگاتے ہوئے ہمارے خلاف 6 ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کر دیا۔ اس کی ادائیگی میں تاخیر جرمانے کی حد 10 ارب ڈالر تک بڑھا سکتی تھی۔ ایک ایک ڈالر کے دیوالیہ کے خوف کی وجہ سے محتاج پاکستان کو جرمانہ سے جنڈ چھڑانے کے لئے سو پاپڑ بیلنا پڑے۔

میری دانست میں شہباز حکومت اگر واقعتا ازخود نوٹس کو قواعد وضوابط کی حدود و قیود کا پابند کرنا چاہتی تھی تو جو قانون منگل کی شام عجلت میں تیار ہوا ہے اسے ریکوڈک کا معاملہ معافی تلافی کی بدولت طے ہو جانے کے فوری بعد متعارف کروانا چاہیے تھے۔ موجودہ ماحول میں مجوزہ قانون کی تیاری پاکستانیوں کی کما حقہ تعداد کو فقط یہ پیغام دے گی کہ چیف جسٹس کے ازخود اختیارات کو حدود وقیود کی زد میں محض اس لئے لایا جا رہا ہے کیونکہ موجودہ چیف جسٹس پنجاب اسمبلی کے انتخابات میں تاخیر سے خوش نہیں۔ ازخود نوٹس لے کر ”تاخیر“ کے اسباب جاننے کو بے چین ہیں۔ منیر نیازی کا بیان کردہ ”ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں“ والا معاملہ بن گیا ہے۔ ایک مخصوص تناظر میں متعارف کروائی حدودوقیود نے مجوزہ قانون کے بے شمار واجب پہلوﺅں کو بھی گہنا دیا ہے۔

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments