سیاسی درجہ حرارت کیسے کم ہو گا؟


سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ملک میں سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کے لئے حکومت اور تحریک انصاف سے ضمانت طلب کی ہے جبکہ دوسری طرف قومی اسمبلی نے سو موٹو اختیار استعمال کرنے کے بارے میں چیف جسٹس کے اختیارات محدود کرنے کے لئے قانون منظور کیا ہے۔ سینیٹ سے منظوری کے بعد اگر صدر مملکت نے اس بل پر دستخط کر دیے تو اب چیف جسٹس تن تنہا کسی معاملہ میں آئینی شق 184 ( 3 ) کے تحت کارروائی نہیں کرسکیں گے۔ اس کے علاوہ اس شق کے تحت فیصلہ کے خلاف اپیل کا حق بھی دیا گیا ہے جو اس سے پہلے موجود نہیں تھا۔

قومی اسمبلی نے چیف جسٹس کے اختیارات محدود کرنے اور سو موٹو کے علاوہ بینچ بنانے کے بارے میں رہنما اصول بنانے کا قانون عدالت عظمی کے دو ججوں کے اس اختلافی نوٹ کے بعد منظور کیا ہے جس میں چیف جسٹس کے اختیارات کو ’ون مین شو‘ قرار دیتے ہوئے تبدیل کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ البتہ اس اختلافی نوٹ میں ججز نے فل کورٹ بنچ میں یہ معاملات طے کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قانون سازی کے ذریعے سپریم کورٹ کے طریقہ کار میں اصلاح کا اشارہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر دو ججوں کا اختلافی فیصلہ درحقیقت ’امید کی کرن‘ ہے۔ اگر اب بھی پارلیمنٹ نے کوئی اقدام نہ کیا تو قوم ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ اس تقریر کے بعد وفاقی کابینہ نے مسودہ قانون کی منظوری دی جسے کل ہی قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا تھا۔ گزشتہ روز اسپیکر نے یہ بل قائمہ کمیٹی کے حوالے کیا تھا جہاں سے منظوری کے بعد آج قومی اسمبلی نے اسے منظور کر لیا۔

وزیر قانون نذیر تارڑ نے اس موقع پر واضح کیا کہ سو موٹو کے حوالے سے چیف جسٹس کے اختیار کو محدود کرنے کے لیے قانون سازی پارلیمنٹ کا اختیار ہے۔ اس مقصد کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران ملاحظہ کیا جا رہا ہے کہ اہم مقدمات کی سماعت کرنے والے بنچوں میں دو سینئر ترین جج موجود نہیں ہوتے۔ چیف جسٹس فل کورٹ اجلاس کے ذریعے ان مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں جن کا ملک کی تمام بار کونسلز طویل عرصے سے انتظار کرتی رہی ہیں۔ اب یہ ترمیم بے حد ضروری تھی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس قانون کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اس بل کو ’ججوں کو با اختیار‘ بنانے کے قانون کا نام دینا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدام بہت دیر سے کیا جا رہا ہے اور ابھی اس سلسلہ میں مزید اقدامات ہونے چاہئیں۔

سوموٹو اختیار کے استعمال کے حوالے سے چیف جسٹس کے اختیار کو محدود کرنے کی قانون سازی ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جبکہ حکومتی پارٹیاں مسلسل چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہیں۔ حکومتی حلقوں کی طرف سے یہ تاثر عام کیا جاتا رہا ہے موجودہ چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ عمران خان اور تحریک انصاف کو غیر ضروری رعایت دے رہی ہے اور اہم معاملات پر مخالف نقطہ نظر سننے سے گریز کیا جاتا ہے۔ خاص طور سے سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس کے جواب میں آئین کی شق 63 اے کی تشریح کرتے ہوئے کسی سیاسی پارٹی کے فیصلہ کے خلاف ووٹ دینے والے ارکان اسمبلی کو نا اہل کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس پانچ رکنی بنچ میں شامل دو ججوں نے اس فیصلہ کو آئین کو از سر نو تحریر کرنے کا نام دیا تھا۔

حکومت کا موقف رہا ہے کہ اس تشریح کے ذریعے پنجاب میں حمزہ شہباز کی حکومت ختم کر کے پرویز الہی کی قیادت میں تحریک انصاف کی حکومت قائم کرنے کی راہ ہموار کی گئی تھی۔ مسلم لیگ (ن) اور حکومت اس اقدام کو براہ راست تحریک انصاف کی سیاسی سہولت کاری کا نام دیتی رہی ہیں۔ آج ہی مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر اور چیف آرگنائزر مریم نواز نے قصور میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان کے پیچھے نہ لگیں۔ اس نے اپنے ہر سہولت کار کو استعمال کیا اور بعد میں اس کی مٹی پلید کی۔ یہ وہ ہے جس نے اپنے آپ کو بھی ڈبویا اپنے سہولت کار کو بھی ڈبویا‘ ۔

اس ماحول میں متعدد حلقے چیف جسٹس کے اختیارات محدود کرنے کے قانون کو عجلت میں منظور کرنے کے طریقہ کو سپریم کورٹ کو دباؤ میں لانے کا ہتھکنڈا بھی قرار دیں گے۔ خاص طور سے ایک ایسے موقع پر یہ قانون سازی تشویشناک ہے جب سپریم کورٹ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات کے حوالے سے اپیلوں کی سماعت کر رہی ہے۔ ججوں کے ریمارکس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ بدستور کوئی اسمبلی ٹوٹنے کے بعد 90 دن کی مدت میں انتخاب کروانے کو آئینی تقاضا سمجھتی ہے۔ اسی حوالے سے یکم مارچ کو جاری ہونے والے ایک فیصلہ میں مقررہ مدت کے اندر دونوں صوبوں میں انتخاب کروانے کا حکم بھی دیا گیا تھا۔ اس دوران البتہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کے اختلافی نوٹ میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ درحقیقت سات میں سے چار ججوں نے سو موٹو اختیار کے تحت اس معاملہ پر غور کے طریقہ کو مسترد کیا تھا۔ اس لیے قانونی لحاظ سے پنجاب و خیبر پختون خوا میں انتخابات کے بارے میں کوئی عدالتی حکم موجود نہیں ہے اور اس صورت میں صدر مملکت پنجاب میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان بھی نہیں کر سکتے تھے۔ اب یہی معاملہ ایک ایسے پانچ رکنی بنچ کے زیر غور ہے جس کی تشکیل میں ایک بار پھر سینئر ججوں کو نظر انداز کیا گیا ہے اور بنچ کی اکثریت چیف جسٹس کے پسندیدہ ججوں پر مشتمل ہے۔ تاہم اختلافی نوٹ اور بنچوں سازی پر اٹھائے گئے سوالات کی روشنی میں سپریم کورٹ کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اس مقدمہ کی سماعت کے آغاز سے ہی یہ کہا ہے کہ ملک میں سیاسی تصادم کا ماحول ختم کرنا سیاسی پارٹیوں کی ذمہ داری ہے۔ جمہوریت کے لیے اگر انتخابات ضروری ہیں تو شفاف اور قابل اعتبار انتخابات کے لئے سیاسی ماحول میں کشیدگی کم کی جائے۔ آج کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے تحریک انصاف اور حکومت سے تحریری ضمانت طلب کی ہے کہ ملک میں سیاسی درجہ حرارت کم کیا جائے گا۔ دریں حالات دونوں فریق ایسی ضمانت تو شاید فراہم کر دیں گے لیکن سپریم کورٹ یہ کیسے طے کرے گی کہ سیاسی ماحول میں گرمی کم ہو گئی ہے اور کشیدگی ختم ہو رہی ہے؟

درحقیقت اس قسم کے احکامات براہ راست کسی قانون کے تحت تو جاری نہیں ہوسکتے لیکن عدالت عظمی کے فاضل جج قانونی ذمہ داری کو سیاسی رنگ دینے کے لیے یہ طریقے اختیار کرتے رہے ہیں۔ درحقیقت اسی طرز عمل کی وجہ سے اعلیٰ عدالتوں کا اعتبار مشکوک ہوا ہے۔ رہی سہی کسر مقدمات کی سماعت کے دوران ججوں کے ریمارکس پوری کر دیتے ہیں۔ اگر ان ریمارکس کو خالصتاً قانونی نکات کی تفہیم تک محدود کر لیا جائے تو سپریم کورٹ کی کارروائی مستقل طور سے میڈیا کی خبروں میں نہیں رہے گی۔ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو غور کرنا ہو گا کہ غیر ضروری ریمارکس سے بریکنگ نیوز کی صورت میں مخصوص ججوں کو شہرت تو حاصل ہوجاتی ہے لیکن قانونی تقاضے پورے نہیں ہو پاتے۔

چیف جسٹس کی طرف سے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کی ضمانت ایک ایسے وقت میں مانگی جا رہی ہے جب تحریک انصاف اور حکومت ایک دوسرے کو قبول کرنے سے انکار کر رہے ہیں اور واضح طور سے کہا جا رہا ہے کہ مواصلت و مصالحت کا کوئی امکان نہیں ہے۔ چند روز پہلے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے واضح کیا تھا کہ اب صورت حال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ’یا ہم نہیں یا وہ نہیں‘ ۔ اس صورت میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کیا قانونی، جمہوری یا اخلاقی اقدام ہے بلکہ کسی بھی قیمت پر اپنی جان بچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ ’جب تک عمران خان قوم سے معافی نہیں مانگے گا تب تک اس سے بات نہیں ہو سکتی‘ ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ’وہ قوم کے سامنے یہ تسلیم نہ کرے کہ میرے ماضی کی وجہ سے قوم کو، آئین، جمہوریت، عدلیہ کو زک پہنچی ہے اور اس پر معافی مانگتا ہوں۔ پھر ہم سب بیٹھ کر مشورہ کر لیں گے‘ ۔ مریم نواز نے بھی آج اپنی تقریر میں واضح کیا ہے کہ ’الیکشن ہو گا اور ضرور ہو گا لیکن الیکشن سے پہلے سلیکشن کا فیصلہ ہو گا‘ ۔

حکومتی ذرائع اب اس بات کو خفیہ انداز میں کہنے کا تکلف بھی نہیں کرتے کہ وہ عمران خان کو سیاست سے باہر نکال کر ہی ملک میں انتخابات کے لیے راضی ہوں گے۔ اس صورت حال میں اگر سپریم کورٹ سیاسی پارٹیوں سے پرسکون رہنے کی ضمانت حاصل کر بھی لے تو اس پر عمل درآمد کا کوئی امکان فی الوقت دکھائی نہیں دیتا۔ ایسے میں بہتر ہو گا کہ عدلیہ کے فاضل جج حضرات سیاسی سدھار مہم چلانے کی بجائے عدلیہ کی اصلاح پر توجہ دیں۔ اگر عدالتیں میرٹ کی بنیاد پر انصاف فراہم کرنے لگیں تو سیاسی تناؤ بھی ضرور ختم ہو جائے گا۔ سیاسی لیڈر اسی وقت آپے سے باہر ہوتے ہیں جب انہیں کسی غیر منتخب طاقت ور ادارے کی حمایت کا یقین ہوتا ہے۔ اگر یہ راستہ مسدود کر دیا جائے تو سیاست میں پائی جانے والی تلخی اور شدت بھی ختم ہو جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments