خواتین نے بادشاہ سے آٹا کیسے چھینا؟


انقلاب فرانس کے دوران اکتوبر 1789 ء کے واقعہ کی تحقیقات کے لیے قائم ہونے والے ”پیرس کمیشن“ کے سامنے پیپلز نیشنل گارڈ کے کمانڈر سٹینس لاس میلارڈ پیش ہو کر آنکھوں دیکھا حال بتاتا ہے۔ وہ سہما ہوا ہے اور اس کی آنکھیں ناقابل یقین واقعات کے خوف سے پھیلی ہوئی ہیں۔ وہ اپنا بیان شروع کرتا ہے۔ ”پانچ اکتوبر 1789 ء کو صبح سات بجے 2 ہزار خواتین پیرس کے مرکز میں واقع ٹاؤن ہال میں دروازے توڑ کر داخل ہوئیں۔ وہ آٹے کی قیمت میں اضافے اور اس کی عدم دستیابی پر آگ بگولہ ہو رہی تھیں۔

انہوں نے انتظامی امور اپنے ہاتھ میں لے لیے، اسلحے، توپ خانے اور اناج کے گودام پر قبضہ کر لیا، سرکاری فائلیں اور کاغذات اٹھا اٹھا کر باہر پھینکنے لگیں۔ وہ ان کاغذات کو آگ لگانا چاہتی تھیں کیونکہ ان کے خیال میں انقلاب شروع ہونے سے اب تک محض فائلوں پر ہی کام ہوا تھا۔ وہ چیخ چیخ کر کہہ رہی تھیں کہ اگر کوئی ہمارے دشمنوں سے بدلہ لینے کے قابل نہیں تو پھر یہ کام ہم خود کریں گی۔ ان میں سے دو خواتین آگ کی مشعلیں اٹھا کر مجھ پر لپکیں۔

وہ مجھے زبردستی بارود کا دروازہ کھولنے پر مجبور کر رہی تھیں تاکہ بندوقوں اور توپ خانے کے لیے گولہ بارود حاصل کیا جا سکے۔ میں بمشکل جان بچا کر بھاگا“ ۔ وکٹورین عہد کے سکاٹش مؤرخ تھامس کارلائل اس بارے میں لکھتے ہیں کہ ”1789 ء میں فرانسیسی مفلسی اور بھوک کا شکار تھے۔ آٹے کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی تھی، عوام قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے، ان پر ناجائز ٹیکس لگائے جا رہے تھے، بادشاہ کے دربار کے خفیہ اور ظاہری بے پناہ اخراجات، جاگیردارانہ نظام اور کیتھولک چرچ کا غیر لچکدارانہ رویہ شہریوں میں مایوسی اور غصے کے جذبات ابھار رہا تھا۔

پھر نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ جولائی سے اکتوبر 1789 ء تک لوگوں کو ناشتے کے لیے ڈبل روٹی بھی نہ مل سکی۔ تب 5 اکتوبر کی صبح ہوتے ہی پیرس کی گلیوں میں ایک نوجوان لڑکی ڈھول بجاتے ہوئے مجمع کے آگے آگے چل رہی تھی اور اونچی آواز میں پکارتی جا رہی تھی“ باہر آؤ ماؤ، باہر آؤ بہنو، باہر آؤ لڑکیو، خوراک کے لیے اور انتقام کے لیے ”۔ اس کی آواز سن کر خواتین اکٹھی ہو رہی تھیں۔ ہر گھر کی سیڑھیوں سے اترتی خواتین ایسے لگ رہی تھیں جیسے برف پہاڑوں سے پگھل کر نیچے آ رہی ہو۔

چھوٹا مجمع بڑے سیلاب میں تبدیل ہو چکا تھا مگر پھر بھی پیرس کی ہر گلی، ہر کوچے سے وہ بہت تعداد میں چلی آ رہی تھیں۔ ان میں جھاڑو دینے والیاں، مچھلی بیچنے والیاں، دکاندار، دفتروں میں کام کرنے والی خواتین، فیشن ایبل امراء کی بیگمات، سب شامل تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کی تعداد 7 ہزار تک جا پہنچی اور انہوں نے پیرس کے ٹاؤن ہال پر قبضہ کر لیا۔ وہ اسے آگ لگانا چاہتی تھیں۔ پھر کچھ سوچ کر انہوں نے اپنا رخ اسمبلی ہال کی طرف موڑ دیا۔

اس جم غفیر میں سے صرف 15 خواتین کو ارکان اسمبلی سے ملنے کی اجازت دی گئی۔ اپنے مطالبات پیش کرتے ہوئے وہ بولیں کہ“ ہمیں آٹا اور بادشاہ سے ملاقات کا وقت چاہیے ”۔ کئی گھنٹوں کے مذاکرات کے بعد سرخ فیتے نے صرف 4 خواتین کو عالی جاہ سے ملنے کا پرمٹ جاری کیا۔ جس کے بعد اگلی صبح تک ایک شاہی فرمان جاری ہوا جس میں آٹے کی بلا روک ٹوک فوری سپلائی کا حکم دیا گیا تھا لیکن خواتین نے اس بادشاہی مہربانی کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ہمیں اس آرڈر اور آٹے کی سپلائی کنٹرول کرنے والے حکام پر کوئی اعتماد نہیں ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ بادشاہ اناج لے کر خود عوام تک پہنچے۔ اس مطالبے کو منوانے کے لیے ہزاروں خواتین دو دن تک محل کے احاطوں میں موجود رہیں۔ شاہی عمارت کی سیڑھیاں، باغیچے، دالان، اصطبل، برآمدے، سب کے سب خواتین سے بھرے رہے۔ اب ان کے احتجاج میں تقریباً 20 ہزار مرد بھی شامل ہوچکے تھے۔ ایک دن اور بیت گیا۔ پھر انقلاب فرانس کا مشہور کردار بادشاہ لوئی 15 خواتین کے عزم کے آگے مجبور ہو گیا۔ خواتین پیرس کی گلیوں میں ناچتی جا رہی تھیں اور اناج کے بڑے بڑے چھکڑوں کے ساتھ شاہی بگھی کی طرف اشارہ کر کے کہتی جا رہی تھیں“ دیکھو ہم صرف آٹا ہی نہیں لائے بلکہ آٹے کو کنٹرول کرنے والوں کو بھی ساتھ لے آئے ہیں ”۔

انقلاب فرانس کے دوران آٹے کی قلت پر تبصرہ کرتے ہوئے ممتاز تاریخ دان اولون ہفٹن لکھتا ہے کہ“ اپنا حق لینے کے لیے فرانس کے لوگ کامیاب ہوئے لیکن اس فتح کا تمام تر کریڈٹ فرانسیسی خواتین کو جاتا ہے ”۔ تقریباً اڑھائی صدیاں قبل پیرس میں آٹے کا بحران اور 2023 ء میں ہمارے ہاں پاکستان میں آٹے کی قیمت میں شدید اضافہ یا اسی طرح روزمرہ ضروری اشیاء کی مہنگائی کے مسائل وغیرہ وغیرہ، ان سب کا شکار صرف اور صرف عوام ہوتے ہیں۔

وہ عوام جن کے لیے عدم اعتماد کی تحریک آتی ہے، حکومت قائم ہوتی ہے اور پالیسیاں بنائی جاتی ہیں۔ حکومت دراصل شہریوں اور ریاست کے درمیان ایک معاہدے کا نام ہوتا ہے۔ اگر یہ معاہدہ کمزور ہو جائے یا کارآمد نہ رہے تو فیصلہ شہریوں کو کرنا ہوتا ہے جن کے پاس دو راستے ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اپنے بنیادی اختیار و حقوق سے حکومت کے سامنے دستبردار ہو جائیں اور پھر سڑتے کڑھتے رہیں یا پھر ہر قسم کے خوف سے بالاتر ہو کر اپنا فیصلہ خود کریں اور اپنا حق قانونی و آئینی طریقے سے حاصل کریں۔ پہلی صورت میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ“ بھکاریوں کی اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی ”یا پھر دوسری صورت کے فیصلہ کن لوگوں کے بارے میں ہی کہا گیا ہے کہ:

کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments