آزاد کشمیر اسمبلی کا ’ایل او سی‘ پہ کوریڈور قائم کرنے کا مطالبہ


آزاد کشمیر اسمبلی کے 29 مارچ کے اجلاس میں راولپنڈی کے حلقہ 4 سے شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف حکومت کے اتحادی رکن اسمبلی، آزاد کشمیر حکومت کے پارلیمانی سیکرٹری برائے ٹرانسپورٹ جاوید بٹ کی جانب سے قرار داد پیش کی گئی جسے متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔ قرارداد میں کہا گیا کہ ”وفاقی حکومت اور آزاد کشمیر کی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں آر پار بسنے والے کشمیریوں کو آپس میں ملنے کا موقع فراہم کیا جائے جیسے کرتار پور“ کوریڈور ”بنایا گیا ہے ایسے ہی آزاد کشمیر کا “ کوریڈور ”بھی بنایا جائے تاکہ مقبوضہ وادی اور آزاد کشمیر کے لوگ آپس میں مل سکیں۔ 05 اگست 2019 کے بعد سے آج تک ٹریڈ کا نظام بھی بند ہے اور آزاد کشمیر سے کوئی کشمیری بھی مقبوضہ وادی میں نہیں جاسکتا“ ۔

منقسم ریاست جموں وکشمیر کی حیثیت ہندوستانی اور پاکستانی پنجاب سے قطعی مختلف ہے۔ ہندوستانی پنجاب اور پاکستانی پنجاب کی صورت دونوں ملکوں میں مستقل طور پر تقسیم ہو چکا ہے اور دونوں کے طرف انٹرنیشنل بارڈر قائم ہے جبکہ آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اس کے برعکس، اس سے قطعی طور پر مختلف ہے، مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر عالمی سطح پہ تسلیم شدہ متنازعہ خطہ ہے۔ کشمیریوں کی ملاقات کے لئے کوریڈور کے قیام کا مقصد کشمیر کی تقسیم کو تسلیم کرنے کے بھی مترادف ہو گا۔ قرار داد میں یہ لکھنا کہ ”آزاد کشمیر سے کوئی کشمیری بھی مقبوضہ وادی نہیں جا سکتا“ ، کوریڈور قائم کیے جانے کے جواز کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ آزاد کشمیر اسمبلی اگر حکومت پاکستان سے کوریڈور کے مطالبے کے بجائے آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان بس سروس بحال کرنے کا مطالبہ کرتی تو مناسب بات ہوتی۔

آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان سیز فائر لائن پہ ایسا مقام طے کرنا جہاں دونوں طرف سے کشمیری جمع ہو کر ایک دوسرے سے ملاقات کر سکیں، کشمیریوں کی امنگوں کے منافی اور کشمیریوں سے بڑی زیادتی ہی نہیں بلکہ کشمیریوں کے زخموں پہ نمک پاشی کے مترادف ہو گا۔ آزاد کشمیر حکومت اور آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں کا دیرینہ مطالبہ یہی ہے کہ ریاست کے دونوں طرف کے باشندگان ”آر پار“ آنے جانے کے حق کا احترام کیا جائے اور ریاستی باشندگان کو ان کا یہ حق دیا جائے۔

آزاد کشمیر حکومت اور پاکستان حکومت کے درمیان 1949 میں طے پائے معاہدہ کراچی کی رو سے مہاجرین جموں و کشمیر مقیم پاکستان، آزاد کشمیر اور مقبوضہ جموں وکشمیر میں تحریک آزادی کے لئے کام کرنا آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے۔ آزاد کشمیر اسمبلی میں ایسے ارکان کافی تعداد میں موجود ہیں کہ جو آزاد کشمیر حکومت کے قیام کے مقصد، اس کی جو اذیت سے لا علم ہیں، تاہم افسوسناک بات یہ ہے کہ ایسے سینئر ارکان اسمبلی، سیاستدانوں کی موجودگی میں یہ قرار داد متفقہ طور پر منظور کی گئی کہ جو ایسے امور کا ادراک رکھتے ہیں۔

یہ قرارداد اور اس قرارداد کا اسمبلی سے متفقہ طور پر منظور ہونا آزاد کشمیر کے سیاستدانوں، ارکان اسمبلی کی کشمیر کاز، تحریک آزادی کشمیر سے متعلق اپنی ذمہ داریوں سے متعلق نا اہلی، انحطاط پذیری اور مجرمانہ غفلت کی ایک بڑی مثال ہے۔ اس عاقبت نا اندیشی پر مبنی اس قرار داد کی ہر کشمیری کو سختی سے مذمت کرنی چاہیے۔

آزاد کشمیر کے چند حلقوں کی طرف سے آزاد کشمیر میں لائن آف کنٹرول پہ کرتا پورہ کی طرح کا کوریڈور قائم کیے جانے کے آزاد کشمیر اسمبلی کے مطالبے کی حمایت بھی کی ہے اور ان میں آزاد کشمیر کے ایک سابق چیف جسٹس منظور حسین گیلانی بھی شامل ہے۔ گیلانی صاحب نے میری طرف سے اس قرار داد کی مخالفت پہ استفسار کیا کہ ”آپ کا بھی ایک نکتہ نظر اور یہ بھی ایک سکول آف تھاٹ ہے۔ لیکن ایک سکول آف تھاٹ ان کا بھی ہے۔ جیسا کہ آپ نے لکھا ہے کشمیر کے بارے میں سیاسی جماعتوں کے رول کو کراچی معاہدے میں درج کیا گیا ہے۔ اسمبلی سیاسی جماعتوں کا مجموعہ ہے، یہ ان کی اجتماعی دانش ہے، شرمناک کیسے بن گئی؟“ ۔

اس پہ میں نے یہ جواب دیا کہ ”آزاد حکومت کے کردار سے لاتعلقی ہی شرمناک ہے اور اپنی سیاسی حیثیت کی جو اذیت کا خاتمہ بھی۔ ارکان اسمبلی کی اجتماعی دانش تو کلب ممبران کی طرح باہمی مفادات کے حصول و تحفظ تک محدود ہے، پھر تو اس کا بھی احترام کرنا پڑے گا۔ احترام کردار سے مشروط ہوتا ہے، عہدے سے نہیں۔ جس نام پہ چالیس لاکھ آبادی اور مختصر رقبہ پہ ریاست کا سٹیٹس انجوائے ہو رہا ہے، صدق دل سے بتائیں کہ اب صدارت، الگ پرچم، سپریم و ہائی کورٹس، اسمبلی، وزیراعظم، درجنوں وزرا، مشیران وغیرہ، دس اضلاع وغیرہ کا کوئی جواز ہے؟

یہ تو ہو نہیں سکتا کہ وسائل کے لئے کشمیریوں کے نمائندے بن جاؤ اور ذمہ داری کی ادائیگی پہ کہا جائے کہ ہم تو مقامی انتظامیہ ہیں، آدھا تیتر، آدھا بٹیر کا ڈرامہ بہت ہو چکا“ ۔ میری مخالفت پہ آزاد کشمیر کے ایک اور شہری کی یہ رائے بھی آئی کہ ”جب تک مسئلہ حل نہیں ہو جاتا، اگر منقسم خاندانوں کے ملنے کے لئے اس طرح کا کوئی انتظام ہو جاتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں“ ۔ اس پہ میں نے عرض کیا کہ ”اگر کوئی ہرج نہیں کے تحت دیکھا جائے تو پھر کنٹرول لائن کو مستقل سرحد تسلیم کرنے میں بھی کوئی ہرج نہیں، انڈیا کی شرائط پہ انڈیا سے دوستی کرنے میں بھی کوئی ہرج نہیں، آزاد کشمیر نامی خطے کو ملحقہ پاکستانی علاقوں، ہزارہ، مری، کہوٹہ، جہلم، گجرات میں ضم کرنے میں بھی کوئی ہرج نہیں“ ۔ ایل او سی پہ کوریڈور کی تجویز کو میں کشمیر کی تقسیم کو تقویت پہنچانے اور کشمیریوں کی توہین ہی نہیں بلکہ ان سے تلخ مذاق بھی سمجھتا ہوں۔

آزاد کشمیر کے ایک نامور رہنما جناب سردار عبدالقیوم خان مرحوم کے فرزند، مسلم کانفرنس کے رہنما سردار عتیق احمد خان نے ایک ٹویٹ میں اس جانب توجہ مبذول کرائی کہ ”امریکہ میں گزشتہ روز ہونے والی جمہوری سربراہی کانفرنس میں اس خوفناک خامی کا نوٹس ہی نہیں لیا گیا کہ ہندوستان میں ہندو نسلی جمہوریت رائج ہے۔ روزانہ سڑکوں پر انتہا پسند ہندووں کے ہاتھوں ہزاروں بے قصور مارے جاتے ہیں۔ کروڑوں مسلمانوں، سکھوں، عیسائیوں اور دلتوں کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا“ ۔ اس پہ میں نے ان سے عرض کی کہ ”جناب آزاد کشمیر میں درپیش انحطاط پذیری پہ توجہ دیں، اپنے ماضی، عزم اور ذمہ داری سے عاری ہوتے ہوئے ہندوستان کے عزائم میں دانستہ یا نادانستہ سہولت کار ثابت ہور ہے ہیں“ ۔

پاکستان کے ایک سینئر سفارت کار عبدالباسط جو ہندوستان میں پاکستان کے سفیر بھی متعین رہ چکے ہیں، نے آزاد کشمیر اسمبلی سے لائن آف کنٹرول پہ کشمیریوں کی ملاقات کے لئے کوریڈور کے قیام کے مطالبے کی قرار داد پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ سینئر سفارت کار عبدالباسط نے اپنے ایک ٹویٹ بیان میں کہا ہے کہ ”مجھے قرارداد پر افسوس ہے۔ یہاں تک کہ قانون ساز اسمبلی میں بیٹھے لوگ بھی نہیں جانتے کہ وہ کیا بات کر رہے ہیں اور ان کی تجویز کے دور رس اثرات ہیں۔ کاش کوئی کشمیر کے تنازع پر ان کے لیے ورکشاپ کا اہتمام کرے“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments