سفر آذربائیجان کا (آخری قسط)


ہم نظامی سٹریٹ میں ایک طرف گئے تو وہاں مشہور زمانہ ”گراں پری باکو“ کے بورڈ نظر آئے۔ تھوڑا اور گھومے پھرے تو پتہ چلا کہ اس سال کی اس سلسلے کی ایک ریس 10۔ 12 جون کو ہونی ہے اور یہ جو اشتہاری مہم ہے اسی کا حصہ ہے۔ انتظام کی بات کریں تو ہمیں معلوم ہوا کہ باکو فارمولا 1 کیلنڈر کا سب سے نیا اسٹریٹ سرکٹ ہے، جو معیار کے حساب سے موناکو، میلبورن اور سنگاپور کے ٹریک کی صفوں میں شامل ہوتا ہے۔ باکو میں پہلی گراں پری 2016 میں یورپی گراں پری کے طور پر منعقد ہوئی تھی۔

اس کے بعد 2017 میں آذربائیجان گراں پری کا آغاز ہوا تھا۔ باکو کا ٹریک 6.3 کلومیٹر لمبا ہے جو آزادی اسکوائر سے شروع ہوتا ہے، پھر گورنمنٹ ہاؤس کے گرد گھومتا ہے اور مغرب کی طرف سیدھے شیروان شاہ کے محل اور میڈن ٹاور تک جاتا ہے۔ اور پھر 2.2 کلومیٹر پر پھیلے پرانے شہر کا چکر لگاتا ہے۔ اس ٹریک پر 20 موڑ ہیں جبکہ ٹریک پر زیادہ سے زیادہ رفتار 360 کلومیٹر گھنٹا تک ہو سکتی ہے۔ اس ٹریک کے ایک طرف کیسپین سمندر کا ساحل اس کو دنیا کے خوبصورت ترین ٹریک میں شامل کرتا ہے۔ آذربائیجان کے لئے اس ریس کی کتنی اہمیت تھی اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ہم باکو شہر کے جس بھی مال، پارک، ریلوے اسٹیشن وغیرہ گئے وہاں اس سے متعلق معلوماتی اشتہارات آویزاں تھے۔

فارمولا ون ریس کے ٹریک پر اسفالٹ ٹریک کی لمبائی 3.5 اور 7 کلومیٹر کے درمیان ہونی چاہیے اور اس کی چوڑائی کم از کم 12 میٹر ہونی چاہیے۔ ٹریک کا سب سے لمبا سیدھا حصہ زیادہ سے زیادہ دو کلومیٹر لمبا ہو سکتا ہے، اور ہر کونے کو ڈرائیور کی حفاظت اور تماشائیوں کے لطف کو یقینی بنانے کے لیے محتاط منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک نئے ٹریک کو بنانے کی لاگت 275 ملین ڈالر کے قریب ہوتی ہے اور اس کے انعقاد پر 15 سے 65 ملین ڈالر کا خرچہ ہوتا ہے۔

سوچیئے کس قدر مہنگا کھیل ہے۔ ہم چونکہ 7 جون کو واپس آنے کی ٹکٹیں کروا چکے تھے اور ہماری کام کاج کی مصروفیات ہمیں اجازت نہ دیتی تھیں کہ وہاں رکتے۔ سو ٹریک کو دیکھ کر اور انتظامات کو دیکھ کر ہی لطف لیتے رہے۔ باکو کا تاریخی قلعہ اور میدان ٹاور دیکھا۔ یہاں کا تاریخی قلعہ اور اس کے آس پاس کا قدیم گلیوں میں پرانا بازار اور فن تعمیر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ قلعہ کے باہر ایک طویل فصیل نے پرانے شہر کو گھیر رکھا ہے۔

بڑی تعداد میں سیاح ہر طرف نظر آتے ہیں۔ پرانے شہر میں کئی ممالک کے سفارت خانے ہیں۔ اور بہت سی دکانیں ہیں جہاں لوگ مقامی دستکاریاں، مقامی کھانے اور پینے کی اشیا بیچتے ہیں۔ ہمارا ایک اور پرلطف دن اپنے اختتام کو پہنچ گیا تھا اور نجاد ہمیں ہوٹل کی طرف لے کر روانہ ہو گیا تھا۔ راستے میں نجاد ہماری وقت کی پابندی سے متاثر ہو کر ہمیں یاد کروا رہا تھا کہ ہمیں کل ”گبالا یا پھر قبالا“ جانا ہے سو، کل ہر صورت جلد تیار رہیں۔ چونکہ سفر لمبا ہے اور ہمیں شام تک لوٹنا ہے۔ ہم ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرا دیے۔ بھلا اپنے کام کاج کی پابندیوں سے تو فرار پا کر یہاں پہنچے ہیں اور ادھر بھی وقت کی پابندیاں۔

اگلی صبح گبالا کے لئے ہم دیر ہی سے نکلے۔ مگر نجاد ہمارے ساتھ ایڈجسٹ کر چکا تھا سو کچھ زیادہ غصہ نہ ہوا۔ گبالا باکو سے 220 کلومیٹر دور داغستان ( مشہور شاعر رسول حمزہ توف یاد آئے؟ ) اور جارجیا کی سرحد پر آذربائیجان کے شمال مغربی حصے میں میں واقع ہے۔ ہمارا تین گھنٹے کا سفر موسیقی، خوش گپیوں اور میں گزرا۔ نجاد دوران سفر ہمیں راستے میں آنے والے مختلف شہروں، قصبوں اور دریاؤں کے بارے میں بتاتا رہا۔ راستے میں بہت سی جگہوں پر لوگ اپنے باغات کے تازہ پھل بیچنے کے لئے بیٹھے نظر آئے۔

گبالا کا راستہ میدانوں، پہاڑوں اور بنجر زمینوں جیسے تغیرات سے گزرتا ہوا طے ہوتا ہے۔ راستہ اچھی سڑک کی وجہ سے آرام دہ ہے۔ ہم جب وہاں پہنچے تو دن کے دو بجے تھے۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ یہ ایک چھوٹا شہر ہے جو۔ آبادی 13 ہزار سے کم ہے جو نسلی لحاظ سے بہت متنوع ہے۔ سطح سمندر سے 1000 میٹر بلند گبالا اپنی آب و ہوا، پہاڑوں کے ساتھ جنگلات اور فطرت کے رنگوں میں ہمارے سامنے تھا۔ ہمیں نتھیا گلی یا اس جیسے کسی اور مقام جیسا ہی لگا۔

پہاڑ کی چوٹیاں بہت زیادہ بلند نہ تھیں۔ ہم چئیر لفٹ سے سب سے بلند مقام پر گئے۔ اس پہاڑ سے آپ شہر گبالا کا نظارہ بھی کر سکتے ہیں۔ یہاں پر ایک شیشے کا ہوا میں معلق پلیٹ فارم ہے۔ یہاں سے کھڑے ہو کر اپنے قدموں میں دیکھئے تو زمین گہری کھائیوں کی صورت میں دکھائی دیتی ہے۔ ساتھ ہی ایک عدد پہاڑی جھولا (پینگ نما) ہے جسے مشین سے دھکیلا جاتا ہے۔ اور جب وہ آگے کی طرف جاتا ہے تو نیچے بہت گہری کھائیوں کے سوا کچھ دکھائی نہیں پڑتا۔

اونچائی سے خوفزدہ لوگ ان دونوں کو دور سے دیکھیں تو بہتر ہے۔ گبالا میں ایک شاندار سکی کمپلیکس بھی ہے۔ یہاں سردیوں میں ان لوگوں کا کافی ہجوم ہوتا ہے جو اسکینگ کے شوقین ہیں۔ گبالا میں رہنے کے لئے ہوٹل اور کھانے پینے کے لئے کچھ ریستوران بھی موجود ہیں۔ گبالا میں بھی بین الاقوامی تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ گبالا انٹرنیشنل میوزک فیسٹیول کی شہرت اب پوری دنیا میں ہونے لگی ہے۔ میلے میں پوری دنیا سے ممتاز موسیقار، موسیقار اور فنکار شامل ہیں۔

گبالا سے واپسی پر ہمیں ”سیون بیوٹیز واٹر فال“ دیکھنا تھی۔ یہ پتھریلی آبشار جو ”کاکیشیا“ کے پہاڑوں کی بلند ترین چوٹیوں سے گرتی ہے، گابالا کے ایک گاؤں ونڈم میں واقع ہے۔ کار پارک سے آگے جنگل کی طرف ایک راستہ جاتا ہے۔ جو بڑے پہاڑی پتھروں سے بنا ہوا ہے، یکا یک راستے میں سیڑھیاں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ جن کے دونوں جانب اور کہیں ایک جانب حفاظتی جنگلے لگے ہوئے ہیں۔ یہی راستہ آگے جنگل سے ہو کر پہاڑ پر آبشار کے سب سے اونچے مقام پر پہنچا دیتا ہے۔

بہت سے لوگ آبشار کے بہتے ہوئے پانی کو نیچے ہی سے آبشار کی شکل سمجھ لیتے ہیں۔ لیکن اگر وہاں ہوتے ہوئے سب سے اونچے مقام کو نہ دیکھا تو کچھ ادھورا رہنے کا احساس رہتا۔ سو ہم ہانپتے، سانس درست کرتے آہستہ آہستہ وہاں پہنچ ہی گئے۔ جہاں سے یہ آبشاریں گرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ کار پارکنگ سے ٹریک کرتے ہوئے ہم کوئی 400 میٹر بلندی کی طرف گئے تھے۔ راستہ کہیں پتھریلا، کہیں لکڑی اور کنکریٹ کی سیڑھیوں پر مشتمل ہے۔

بلندی سے بہتا ہوا پانی، جو موسیقی ترتیب دیتا ہے اس کی آواز یہاں سننے سے تعلق رکھتی ہے۔ ہم کچھ دیر یہاں رکے اور تصویریں کھینچ کر واپس نیچے اتر آئے۔ کار پارک سے آگے آبشار کی طرف کچھ میٹر تک دونوں اطراف میں ٹھیلے ہیں۔ جن پر مقامی لوگ تازہ موسمی پھل، ان پھلوں کا جوس، شراب بامعنی شراب، خشک میوہ جات اور دوسری کھانے پینے کی چیزیں بیچتے نظر آتے ہیں۔ نجاد نے ٹھیک کہا تھا اس علاقے میں ہم نے مقامی لوگوں کو مکمل اور روایتی لباس میں پایا۔ یہاں سے نکلے اور واپسی کا سفر شروع کیا۔ راستے میں ایک جگہ رک کر ایک انڈین ریسٹورنٹ سے دیسی کھانا کھایا۔ اور یوں ایک اور مصروف دن زینت نذر کر کے ہم باکو کی طرف روانہ ہو گئے۔

نجاد کی راہنمائی میں اگلے دن ہم نے ”باکو بولیورڈ“ جانا تھا۔ ہوٹل سے ناشتہ کیا اور گاڑی میں بیٹھتے ہی نجاد کو کہنے لگے کہ کیوں نہ پہلے نظامی سٹریٹ چلیں۔ یوں ہم ایک دفعہ پھر شہر کی بارونق ترین جگہ پر تھے۔ ہم کوئی تین سے چار گھنٹے وہاں گھومتے پھرتے رہے۔ اور پھر ”باکو بولیورڈ“ چلے گئے۔ کوئی 10 کلو میٹر کے قریب کمان کی مانند سمندر کے آگے ایک کھلی سی سڑک ہے۔ جس پر پیدل چلنے والوں کے لئے، سائیکل چلانے والوں کے لئے الگ الگ راستے ہیں۔

سڑک سے ملحقہ جگہ پر باہر کی جانب کچھ ٹھیلے ہیں جو بچوں اور سیاحوں کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں۔ ہم نے بحری جہاز پر سمند ر کا ایک چکر لگایا۔ سمندر کے بیچوں بیچ جا کر باکو شہر کا نظارہ کیا۔ بلند و بالا عمارتوں کی لائن، کرسٹل ہال، فلیم ٹاور، پیرا شوٹ ٹاور، نیشنل فلیگ سکوائر، باکو اپنے دلربائی حسن کو سب سے زیادہ یہاں دکھاتا ہے۔ جہاز کے ٹور سے واپسی پر ہم نے بولیورڈ سے کرائے پر سائیکلیں لیں اور پورے بولیورڈ کا چکر لگایا۔ نوجوان، بچے، بوڑھے ہر عمر کے لوگ واک کرتے، سائیکل چلاتے، دوڑتے بھاگتے اس بولیورڈ پر نظر آتے تھے۔ سوچیں آپ کے بائیں ہاتھ پر سمندر ہو اور آپ اس کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے سیر کریں۔ اس بولیورڈ کی اہمیت صرف اس ٹریک کی وجہ سے نہیں بلکہ یہاں ”باکو آئی“ ، ”کرسٹل ہال“ جیسی پرشکوہ چیزیں بھی ہیں۔

ہم نے اگلی صبح واپس پاکستان آنا تھا۔ اس لئے رات سے پہلے ہم ہوٹل آ گئے۔ سامان کی پیکنگ کی، باکو میں قیام کی تصویریں دیکھیں ہوٹل ہی سے کھانا کھایا اور اپنے کمروں میں سونے کے لئے چلے گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).