حکومت اور چیف جسٹس آمنے سامنے


حکومتی اتحادی پارٹیوں نے انتخابات میں التوا کیس کی سماعت کرنے والے تین رکنی بنچ پر عدم اعتماد ظاہر کرتے ہوئے زیر سماعت مقدمہ کی کارروائی میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک کے سیاسی و سماجی بحران کے بعد سپریم کورٹ سے سامنے آنے والے اختلافی فیصلے اور آرا کی وجہ سے ایک نیا آئینی بحران دیکھنے میں آ رہا ہے۔ حکومت کے اعلان سے معاملات حل کرنے میں تو شاید مدد نہیں ملے گی بلکہ بحران سنگین ہو گا اور قومی معاملات عدم توجہ کا شکار ہوں گے۔

پاکستان اس وقت جن حالات کا سامنا کر رہا ہے، ان کا تقاضا تو یہی تھا کہ اس وقت سیاسی مقابلہ بازی کی فضا کم کی جاتی اور اسی طرح عدالتیں بھی قانون و آئین کے نام پر سیاسی ماحول کو پراگندہ کرنے کی بجائے، احتیاط سے کام لیتیں اور دوسرے اداروں کے معاملات میں غیر ضروری مداخلت سے گریز کیا جاتا۔ تاہم یوں لگتا ہے کہ صرف سیاسی جماعتیں ہی نہیں بلکہ ملک کے تمام آئینی ادارے بھی اپنی پوزیشن مستحکم کرنے اور اتھارٹی منوانے کے لیے ’آخری جنگ‘ لڑنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔ حالانکہ اگر اس ملک میں کسی کو جنگ کرنے اور جد و جہد کا شوق ہے تو وہ غربت و افلاس، انارکی و فساد، تشدد و دہشت اور مذہبی انتہا پسندی جیسی علتوں کے خلاف کی جا سکتی ہے۔ لیکن ان سب پہلوؤں کو نظر انداز کر کے اب اس ایک نکتہ پر سیاست و عدالت کے معاملات طے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ملک میں حکومت کا اختیار کس کو ہونا چاہیے۔

حکومت کی طرف سے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے ایک بنچ کے خلاف عدم اعتماد کا اظہار درحقیقت ملک میں قانون کی حکمرانی کے بارے میں شبہات کا اظہار ہے۔ عملی طور سے حکومتی اتحاد کے اس اعلامیہ کا مفہوم یہ ہے کہ انہیں یقین ہے کہ یہ تین رکنی بنچ کوئی ایسا فیصلہ صادر کرے گا جو سرکاری موقف کے برعکس ایک اپوزیشن پارٹی کی سیاسی پوزیشن مضبوط کرے گا۔ اصولی طور پر چیف جسٹس پاکستان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ یہ بات یقینی بناتے کہ معاملات اس انتہا تک نہ پہنچتے کہ حکومتی اتحاد یا کسی دوسرے سیاسی گروہ کو ایسے انتہائی عدم اعتماد کا اظہار کرنا پڑتا۔ اب عدالت خواہ کوئی بھی فیصلہ کرے لیکن ایک فریق کی طرف سے عدم تعاون و عدم اعتماد کے اظہار کے بعد اس کی اہمیت باقی نہیں رہے گی۔

سپریم کورٹ کا تین رکنی بنچ چونکہ پنجاب میں 90 دن کے اندر انتخابات کروانے کے بارے میں فیصلہ کا اعلان کرنے والا ہے، اس لیے یہ سمجھنا دشوار نہیں ہونا چاہیے کہ سپریم کورٹ کوئی ایسا حکم جاری کر بھی دے، تب بھی الیکشن کمیشن اس وقت تک انتخابات کا انعقاد نہیں کروا سکے گا جب تک حکومت اسے مناسب فنڈز فراہم نہیں کرتی یا سکیورٹی کا انتظام نہیں کیا جاتا۔ سپریم کورٹ کو اپنے فیصلے نافذ کروانے کے لئے خیر سگالی کا ماحول پیدا کرنے اور اپنے ادارے کا احترام مقدم رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ججوں کے میڈیا میں آنے کے شوق، غیر ضروری ریمارکس، سیاسی فیصلوں میں قانون کے نام پر غیرمتعلقہ رائے زنی اور گزشتہ چند ماہ کے دوران اہم سیاسی معاملات میں غیر ضروری مداخلت کے ذریعے سپریم کورٹ نے خود اپنی شہرت و نیک نامی کو داغدار کیا ہے جس کی وجہ سے عدالت عظمی کی اتھارٹی بھی متاثر ہوئی ہے اور عمومی مباحث میں بھی عدالتوں کے بارے میں منفی رائے زنی عام ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال اس صورت حال کا بروقت ادراک کرتے ہوئے اصلاح احوال کا اہتمام کر سکتے تھے لیکن گزشتہ ایک برس کے دوران اہم ترین آئینی و سیاسی معاملات میں ججوں کے ایک مخصوص گروہ کے ساتھ مل کر انہوں نے یک طرفہ فیصلے مسلط کرنے کی کوشش کی ہے جس کی وجہ سے ملک میں پہلے سے موجود سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال اسپیشل بینچز اور سوموٹو اختیار کے استعمال کے حوالے سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین خان کے چند روز پہلے دیا گیا فیصلہ بھی ہے۔

چیف جسٹس نے اپنی ہی عدالت کے دو فاضل ججوں کے فیصلہ کو مناسب احترام دینے کی بجائے اپنی بات کو مقدم رکھنے کے لئے رجسٹرار سپریم کورٹ کے ذریعے جاری ایک سرکلر جاری کر کے اس حکم کو پانچ رکنی بنچ کے فیصلہ کے خلاف قرار دیا، جس میں چیف جسٹس کو تمام اختیارات دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس سے قطع نظر کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین خان کا فیصلہ قانونی لحاظ سے کس حد تک مضبوط تھا، اس بات کو کوئی جواز فراہم کرنا ممکن نہیں ہے کہ چیف جسٹس محض ایک سرکلر کے ذریعے بزعم خویش ایک تین رکنی بنچ کے فیصلے کو مسترد کر کے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ اس سے قانون کی علمداری کا اصول اور سپریم کورٹ کا احترام و اتھارٹی دونوں متاثر ہوتے ہیں۔

خاص طور سے اس فیصلہ پر چیف جسٹس کا طرز عمل یوں بھی مناسب نہیں تھا کہ چیف جسٹس کے سوموٹو نوٹس لینے کے اختیار پر پارلیمنٹ میں قانون منظور ہو چکا تھا جسے اب صدر مملکت کی منظوری کے لیے بھیجا جا چکا ہے۔ عمومی حالات میں تو یہ اب تک قانون کی شکل اختیار کرچکا ہوتا لیکن اس وقت ملک میں سیاسی تقسیم و تصادم کی صورت حال میں فوجی عہدیدار، عدالتوں کے جج اور معاشرے کے دوسرے لوگ ہی باہم دست و گریبان نہیں ہیں بلکہ ملک کے صدارت کے منصب پر فائز شخص بھی خالصتاً ایک پارٹی سے وفاداری نبھانا ہی اپنا فرض اولین سمجھتا ہے۔ تاہم صدر کے رکاوٹ ڈالنے کے باوجود اگر پارلیمنٹ چاہتی ہے تو جلد یا بدیر یہ قانون نافذالعمل ہو جائے گا۔

چیف جسٹس کو سوموٹو اختیار کے حوالے سے اس صورت حال کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے تھا۔ یوں بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے سوموٹو اختیار کے استعمال کے بارے میں جو فیصلہ لکھا ہے، اس کا مطالبہ ملک کی تمام بار کونسلز کافی عرصے سے کر رہی ہیں۔ گزشتہ کچھ مدت کے دوران سو موٹو نوٹس کے نام پر بعض ایسے فیصلے کیے گئے ہیں جن کا ملکی سیاست پر دوررس اثر مرتب ہوا ہے۔ اس لیے چیف جسٹس سمیت تمام قانون پسند حلقوں کو اس فیصلہ کا خیر مقدم کرنا چاہیے تھا۔ چیف جسٹس کے لیے تو یہ حکم ایک مشکل صورت حال سے نکلنے اور پنجاب میں انتخابات کے انعقاد کے سوال پر مقدمہ کو مؤخر کرنے کا ایک اہم موقع تھا۔ لیکن انہوں نے اس سے استفادہ کرنے کی بجائے دو ججوں کے حکم کو ایک سرکلر کے ذریعے مسترد کر کے آگے بڑھنا مناسب سمجھا حالانکہ اگر اس حکم کو مان کر مقدمے کی کارروائی روک دی جاتی تو چیف جسٹس کو ججوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات ختم کرنے اور سپریم کورٹ کی عزت و احترام بحال کرنے کے لیے مناسب اقدام کرنے کا موقع مل جاتا۔

اب جو سہ رکنی بنچ پنجاب میں انتخابات کے معاملہ کا جائزہ لے رہا ہے اس میں جسٹس اعجاز الاحسن کو بھی شامل کیا گیا ہے حالانکہ مسلم لیگ (ن) ان کی جانبداری کے بارے میں مسلسل احتجاج کر رہی ہے۔ فروری میں اس سوال پر بنائے گئے 9 رکنی بنچ میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی کو شامل کرنے پر اعتراض کیا گیا تھا۔ عام طور سے جب کوئی فریق بنچ کے کسی جج پر اعتراض کرے تو متعلقہ جج تمام شبہات دور کرنے کے لیے خود ہی اس مقدمہ سے علیحدہ ہوجاتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی نے بھی 9 رکنی بنچ سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن جسٹس اعجاز الاحسن اسی مقدمہ کے حوالے سے دائر کی جانے والی پٹیشن پر بننے والے بنچ میں شامل کر لیے گئے بلکہ وہ بدستور اس کا حصہ بنے رہنے پر مصر بھی ہیں۔

اس حوالے سے جمعہ کو ہونے والی سماعت کے دوران یہ حیرت انگیز وقوعہ بھی دیکھا جا چکا ہے کہ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے اس بات کو غلط قرار دیا کہ جسٹس اعجاز یا جسٹس مظاہر نقوی بنچ سے علیحدہ ہوئے تھے۔ انہوں نے اس حوالے سے اٹارنی جنرل کو 27 فروری کا حکم پڑھ کر سنانے کی ہدایت کی جس میں اس کا ذکر نہیں ہے۔ البتہ چیف جسٹس ابھی تک اس سوال کا جواب دینے میں ناکام ہیں کہ اگر یہ دونوں جج 9 رکنی بنچ سے علیحدہ نہیں ہوئے تھے تو وہ یکم مارچ کو حکم جاری کرنے والے بنچ کا حصہ کیوں نہیں تھے۔ یہ بنچ سکڑ کر کیوں صرف پانچ ججوں تک محدود ہو گیا تھا؟ اور اختلافی نوٹ لکھنے والے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے فیصلہ میں کیوں یہ لکھا ہے کہ دو جج بنچ سے علیحدہ ہو گئے تھے لیکن سوموٹو کو غلط قرار دینے والے جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ نے اپنی رائے لکھ کر بنچ کی کارروائی میں شامل ہونے سے گریز کیا لیکن وہ اس سے علیحدہ نہیں ہوئے تھے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے موجودہ مقدمہ کی کارروائی کے دوران یہی سوال بار بار اٹھایا ہے کہ ان دو ججوں کی رائے کیوں بنچ کے فیصلہ میں شامل نہیں کی گئی اور انہیں کس بنیاد پر بنچ سے علیحدہ سمجھ لیا گیا؟ اسی لئے اس اختلافی نوٹ کے مطابق یکم مارچ کا فیصلہ تین دو کی بجائے چار تین کی اکثریت سے انتخابات پر کسی فیصلہ کو مسترد کرتا ہے۔ اسی لیے یکم مارچ کا کوئی ایسا عدالتی حکم موجود نہیں ہے جس کی خلاف ورزی ہوئی ہو اور اس پر مزید مقدمے بازی کی ضرورت پیش آئے۔

موجودہ صورت حال میں حکومتی پارٹیوں کے پاس بہر حال یہ آپشن موجود تھا کہ وہ چیف جسٹس کی تجویز کے مطابق براہ راست تحریک انصاف کو مذاکرات کی دعوت دیتی اور سب اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی وقت میں کروانے کے جس اصول کو منوانے کے لیے عدالت میں دلائل دیے جاتے رہے ہیں، اسے تحریک انصاف کی قیادت کے سامنے رکھا جاتا۔ ہو سکتا ہے کہ عمران خان بھی ملک و قوم کی بہبود کے لیے اختلافات کو ہوا دینے کی بجائے اتفاق رائے پر آمادہ ہو جاتے۔ البتہ یہ طریقہ اختیار کرنے سے ایک تو حکومت کو سیاسی معاملات میں چیف جسٹس کے غیر رسمی کردار کو تسلیم کرنا پڑتا جو ملکی آئینی انتظام سے متصادم ہے۔ دوسرے اس بات کا امکان بہت کم امکان ہے کہ تصادم کی موجودہ صورت حال میں عمران خان ستمبر اکتوبر تک انتخابات ملتوی کرنے پر اتفاق کرلیتے۔ عملی طور سے وہ اسے اپنی سیاسی شکست سمجھتے اور ان کا ووٹر بھی ایسے کسی فیصلے سے متاثر ہوتا۔

تحریک انصاف نے چیف جسٹس کے حکم پر امن و امان قائم رکھنے کے لئے جو عہد نامہ عدالت میں جمع کروایا ہے اسے بھی دوسروں کے رویہ سے مشروط کیا ہے۔ یعنی ’تحریک انصاف پرامن رہے گی اگر تمام سیاسی جماعتیں بھی پرامن رہیں۔ پی ٹی آئی اسی صورت میں پرامن رہے گی اگر انتخابات میں کوئی خلاف قانون کام نہیں کیا جاتا‘ ۔ اسی طرح سوموٹو اختیار کے استعمال پر ہونے والی بحث اور قانون سازی کو مسترد کرنے کے لیے بھی تحریک انصاف یہی دلیل دیتی ہے کہ موجودہ حکومت بھی سوموٹو اختیار کے تحت بنائے ہوئے بنچ کے ذریعے قائم ہوئی تھی، اس لیے اسے استعفیٰ دینا چاہیے۔

سیاست میں ’پرنالہ وہیں رہے گا‘ والے ماحول میں حکومت کے پاس اپنی سیاست جاری رکھنے کے لیے شاید اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ سپریم کورٹ بنچ پر براہ راست عدم اعتماد کا اظہار کرے لیکن قومی معاملات میں ایسا سخت گیر طرز عمل دوررس سیاسی افتراق کا سبب بنے گا۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ کی خود مختاری بری طرح مجروح ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments