مفتی عبدالشکور: ریاست مدینہ کی حقیقی مثال
دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کی وجہ سے یہ دنیا قائم ہے۔ اس جہاں میں اب بھی خدا ترس، انسان صفت، خدمت خلق پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں جن سے امیدیں وابستہ رہتی ہیں۔ کون یقین کر سکتا ہے پاکستان میں وفاقی وزیر کے منصب پر فائز کوئی شخص کچے گھر میں رہتا ہے۔ گاؤں کی مسجد و مدرسہ بھی کچا بنا ہوا ہے۔ جس وقت گھر سے میت اٹھائی جا رہی تھی وہ گھر بھی پکا نہیں بلکہ کچا تھا۔ ایسی سادہ زندگی، فقیرانہ طبیعت، صوفی منش شخصیت کوئی اور نہیں بلکہ مفتی عبدالشکور صاحب ہیں۔
جو اپنے علاقے میں موٹر سائیکل پر گھومتے نظر آتے تھے اور کبھی فرش پر بیٹھے ہوتے تھے۔ کچے گھر کی خود مرمت کرتے اور سیمنٹ کی بوری پر فائل رکھ کر سائن کرتے تھے۔ جس کی اپنی زندگی ریاست مدینہ کے کسی خلیفے جیسے تھی۔ جس پر آج پوری قوم فخر کر رہی ہے۔ کہ کاش ہمارے سارے وزراء، مشیر، ججز صاحبان، جرنیل، سیاستدان اسی کی طرح ہوں تو پاکستان کہاں سے کہاں تک پہنچ سکتا ہے۔ حقیقت کو دیکھا جائے تو کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے جانے سے پتا چلتا ہے کہ کیسا ہیرا گنوا دیا ہے۔
مفتی صاحب اسلام آباد میں آفس جا رہے تھے کہ کار کو ایک ڈبل ڈور گاڑی نے ٹکر لگائی آپ کو شدید زخمی حالت میں پولیس اہلکاروں نے ہسپتال پہنچایا جہاں آپ کی شناخت مفتی عبدالشکور وفاقی وزیر مذہبی امور کے نام سے ہوئی تو سب پریشان ہو گئے۔ ایک وزیر مفتی جو لاوارثوں کی طرح ہسپتال لائے گئے۔ آپ کے انتقال کی خبر نے سب کو افسردہ کر دیا۔
مفتی عبدالشکور جمعیت علمائے اسلام کے رہنما اور فاٹا کے امیر تھے۔ آپ نے 2018ء میں این اے 51 سے الیکشن لڑا اور 21 ہزار 896 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی اور پارلیمنٹ میں پہنچ گئے جو کہ کسی معجزہ سے کم نہیں ہے۔ مفتی صاحب پشاور میں ایک مسجد خطیب تھے۔ اور اسی مسجد سے ملحقہ مدرسہ میں طلبہ کو پڑھاتے بھی تھے، لیکن وفاقی وزارت ملنے کے بعد انہوں نے مدرسہ میں تعلیم دینے کا سلسلہ مؤخر کر دیا تھا۔ مختلف مدارس میں فقہ بھی پڑھاتے رہے۔ 2022ء میں پی ٹی آئی عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد آپ وفاقی وزیر برائے مذہبی امور منتخب ہوئے۔ ایک مرتبہ پارلیمنٹ میں اجلاس کی وجہ نماز کا وقفہ نہ ہوا تو آپ نے وہیں پر چادر رکھ کر باجماعت نماز پڑھائی۔
آپ میں ایک سال وزارت مذہبی امور میں رہنے کے باوجود کوئی بھی تبدیلی نہیں آئی۔ نہ آپ نے دولت جمع کی، نہ بنگلہ بنایا نہ فارم ہاؤس بنایا اور نہ ہی گاڑیاں خریدی، اگر آپ چاہتے تو ایک سال کی وزارت کے دوران کیا کچھ جمع نہیں کر سکتے تھے۔ دیکھا جائے تو کوئی چھوٹا کونسلر بن جاتا ہے یا کوئی افسر تو اس کے اندر شاہانہ زندگی گزارنے کے طور طریقے نظر آ جاتے ہیں، 10 گاڑیوں کا پروٹوکول، مگر مفتی صاحب جیسے اسلام آباد آئے تھے ویسے ہی واپس چلے گئے۔ آپ کی موت نے جہاں آپ کی جماعت جے یو آئی کو افسردہ کر دیا ہے وہیں پر پوری قوم دکھی ہے۔
مفتی عبدالشکور یکم جنوری 1968ء کو لکی مروت کے گاؤں تاجبی خیل میں پیدا ہوئے۔ آپ طالب العلمی کے دوران جمعیت علمائے اسلام کی ذیلی تنظیم جمعیت طلبہ اسلام میں شامل ہوئے۔ 1991 میں شاہ ولی اللہ یونیورسٹی سے فلاسفی جبکہ 1993 میں دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے اسلامک اسٹڈیز میں ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کیں۔ سال 2002 میں وہ پشاور کے پلوسی علاقہ کی ایک جامع مسجد کے خطیب مقرر ہوئے اور آخری وقت تک پشاور میں اپنے قیام کے دوران امامت کے فرائض بھی سر انجام دیتے رہے۔
مختلف دینی مدارس سے درس نظامی کا نصاب مکمل کیا، مفتی کورس کی سند بھی حاصل کی۔ انہوں نے فلسفے اور اسلامک اسٹڈیز میں ماسٹرز کیا۔ رواں سال حج کے لئے ریگولر سکیم کے تحت 44 ہزار 190 حج کا کوٹہ مختص تھا لیکن 37 ہزار زیادہ درخواستیں موصول ہوئیں تو مفتی عبدالشکور کی درخواست پر حکومت نے فیصلہ کیا کہ قرعہ اندازی کے بغیر تمام 72 ہزار 869 افراد کو حج پر بھیجا جائے گا۔ گزشتہ سال بھی انہوں نے حجاج کرام کے لئے زبردست کام کیا تھا اور انہیں 5 ارب 10 کروڑ روپے کی رقم واپس دلوائی تھی۔
اگر مفتی صاحب چاہتے تو کمیشن لے کر 5 ارب ہڑپ کر سکتے تھے لیکن انہوں نے اللہ سے اور اپنی جماعت سے وعدہ کر رکھا تھا کہ وہ ایمانداری، دیانتداری، سچائی لگن کے ساتھ خدمات سرانجام دیں گے۔ مفتی صاحب جتنے سادہ درویش صفت انسان تھے جب مسجد کے منبر پر خطبہ دیتے تو بڑے خطیب نظر آتے۔ اگر ملکی یا عالمی فورم پر اسٹیج پر براجمان ہوتے تو آپ بڑے مقرر ثابت کرتے، اگر آپ جماعت میں کسی عہدے پر فائز تھے تو آپ کسی لیڈر سے کم نہیں تھے۔
یہ ساری چیزیں تربیت، تعلیم اخلاق کردار، گفتار سے ثابت ہوتی ہیں۔ آپ کی میت پر آپ کا معصوم بیٹا چہرہ صاف کرتے ہوئے مسکرا رہے تھے جیسے وہ بھی جان چکے تھے کہ رمضان المبارک کا با برکت ماہ میں آپ کامیاب ہو گئے اور اپنے حقیقی رب سے جا ملے ہیں۔ آپ کے بیٹے کی تربیت سے پتا چلتا ہے کہ آپ نے اپنے گھر میں کیسے ماحول بنا رکھا تھا۔ آپ کی دو شادیاں تھیں، پہلی بیگم سے دو بیٹیاں تھی اور دونوں اس وقت شادی شدہ ہیں جبکہ دوسری بیوی سے ایک ہی بیٹے محمد ہیں جس کی عمر 10، یا 12 سال بمشکل ہوگی۔ آپ اپنے بیٹے کو بھی عالم دین مفتی بنانا چاہتے تھے۔ آپ جے یو آئی کے قائد مولانا فضل الرحمن کے یار غار اور قریبی ساتھیوں میں سے ایک تھے۔
مفتی صاحب کے انتقال پر پارلیمنٹ کے مشترکہ سیشن میں وزیر اعظم نے آپ کے متعلق ایک بات کہی کہ آپ عظیم انسان تھے۔ جب ہم نے کابینہ کے ممبران کی تنخواہیں کاٹنے کی بات کی تو سب نے اتفاق کیا لیکن مفتی شکور صاحب نے کہا کہ میرے گھر کا گزارہ اسی تنخواہ سے ہوتا ہے۔ وفاقی وزیر قادر پٹیل نے کہا کہ یہاں جج 20 لاکھ تنخواہیں لیتے ہیں۔ جرنیل گالف کھیل رہے ہیں، لیکن ایک وفاقی وزیر روڈ پر پڑا ہوا ہے کوئی اٹھانے کے لئے تیار نہیں تھا۔ اس کے ساتھ ایک کانسٹیبل بھی نہیں تھا جو اسے عزت کے ساتھ اٹھاتا ہسپتال لاتا، جو پولیس والے اسے ہاسپٹل لائے انہوں نے بیان دیا کہ ہمیں پتا ہی نہیں تھا کہ یہ وزیر ہے، ہم تو ایسے ہی روڈ سے اٹھا کر لائے ہیں۔ وزراء سے لینڈ کروزر گاڑی لے کر ایسی گاڑی دی گئی جو موٹر سائیکل کے ٹکر سے بھی ٹیڑی ہو جائے۔ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ مفتی عبد الشکور کی وفات جماعت، میری ذاتی زندگی، علاقے کے لئے بہت بڑا نقصان ہے۔ مفتی صاحب کی جماعتی، سماجی، تدریسی اور سیاسی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ گزشتہ قومی اسمبلی میں انہوں نے اپنے علاقے میں امن وامان کے لئے آواز بلند کی تھی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ دے آمین ثم آمین۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).