ڈائیلائسز اور ایڈز


صحت مند انسانی جسم اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے۔ بے شک بیماری جسم کی زکات ہے مگر اس دور میں بیمار ہونا نہ صرف خود بیمار کے لیے بلکہ گھر والوں کے لیے کسی امتحان سے کم نہیں۔ بات کڑوی ضرور ہے مگر یہ سچ ہے۔ سب سے پہلا مسئلہ تو مہنگائی ہے اور اس کے بعد آپ کی بیماری کی تشخیص کے لیے ڈاکٹروں کی صورت میں جو مسیحا بیٹھے ہیں کیا وہ آپ کی بیماری کی صحیح تشخیص کر کے آپ کو مکمل صحتیابی کی طرف بھی لا رہے ہیں یا ادویاتی کاروباری مافیا کے بڑے بڑے دیے گئے پیکجز کے ساتھ مل کر ایک ہی دوائی سب کو لکھ کر دیے جا رہے ہیں۔

ہمارے ہاں اکثر بیماری کی تشخیص تب ہوتی ہے جب بیماری اپنے آخری مراحل تک پہنچ جاتی ہے۔ پاکستان میں ہر فرد 3000 یا اس سے زیادہ کی فیس والے ڈاکٹر کے پاس نہیں جا سکتا لہذا اکثر موت کے بعد یہی جملہ بول دیا جاتا ہے کہ جو اللہ کی مرضی فلانی بیماری موت کا سبب بنی ’نصیب میں ایسے ہی لکھا تھا۔

کچھ دن پہلے ایک دوست سے بہت عرصے بعد فون پر بات ہوئی تو پتہ چلا ان کی امی آج کل ڈائیلاسز پر ہیں۔ سن کر بہت تکلیف ہوئی کیونکہ ڈائیلائسز بذات خود بہت تکلیف دہ اور ایک لمبا گردے صاف کرنے کا طریقہ کار ہے۔ جس میں بیمار کے ساتھ ساتھ لواحقین کو بھی بہت صبر اور ہمت سے کام لینا پڑتا ہے۔ پھر اس نے بتایا کہ امی کو ہر دوسرے دن گردے واش کروانے جناح ہاسپٹل لے کر جاتے ہیں کیونکہ اگر مریض کے گردے گردوں کی بیماری کی وجہ سے کارکردگی کا مظاہرہ کرنے سے قاصر ہیں تو ، زہریلا مادے نجاست اور فضلہ اور خون سے زیادہ مقدار میں مائع پیدا ہو سکتا ہے، جو بالآخر جسم میں خون کی تبدیلی نہ ہونے کے باعث موت کا سبب بن سکتی ہے۔

اس عمل میں ڈائیلائسز مریض سے خون ڈائیلائسز مشین کی طرف موڑنے کا ایک طریقہ ہے، جہاں جسم میں واپس آنے سے پہلے اسے فلٹر کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر مریضوں کو ہر ہفتے علاج کے تین سیشن کی ضرورت ہوتی ہے، جن میں سے ہر ایک اس مشین پر 3۔ 4 گھنٹے تک رہتا ہے۔

اس بیماری کے بارے میں بتاتی چلوں کہ جسم میں جو چیز بھی خوراک یا خون کے ذریعے شامل ہوتی ہے، گردے اس کا مکمل حساب رکھتے ہیں اور ان اشیاء سے آخر میں جو فاسد مادے پیدا ہوتے ہیں، ان کے نکاس کا بندوبست کرتے ہیں۔ مثلاً ہماری خوراک میں لحمیات (پروٹین) شامل ہوتی ہیں جن کا فضلہ اور کریٹینین، جسے گردے جسم سے پیشاب میں خارج کرتے ہیں۔ اگر یہ جسم میں جمع ہونا شروع ہو جائے تو انسان زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ سکتا اور آہستہ آہستہ کوما اور پھر موت کی طرف جاسکتا ہے۔

گردے انسانی جسم میں پانی اور نمکیات کے توازن کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ جسم سے زیادہ پانی کے اخراج اور اگر پانی کی کمی ہو تو پانی کو جسم کے اندر ہی رکھنا گردے کے اہم کاموں میں سے ایک ہے۔ اگر گردے پانی کے اس توازن کو برقرار نہ رکھیں تو پانی کی مقدار بڑھنے سے جسم کے مختلف حصوں مثلاً پھیپھڑوں، پیروں اور آنکھوں کے گرد حتٰی کہ پورے جسم میں پانی اکٹھا ہو سکتا ہے، جس سے منہ پر آنکھوں کے نیچے اور پیروں پر سوجن ہوجاتی ہے اور سانس لینے میں بھی تکلیف ہو سکتی ہے۔

ہیموڈالیسیس خراب ہونے والے گردے کو تبدیل کرنے کے لئے خون کو فلٹر کرنے کے لئے ایک خاص مشین کا استعمال کرتی ہے۔ خون صاف کرنے کے اس عمل میں، عام طور پر میڈیکل افسر جسم سے خون کے بہاؤ کو خون سے دھونے والی مشین سے جوڑنے کے لئے ایک انجکشن کو خون کے برتن میں داخل کرے گا۔ اس کے بعد ، گندے خون کو بلڈ واشنگ مشین میں فلٹر کیا جائے گا، اور فلٹر ہونے کے بعد ، صاف خون پھر جسم میں بہایا جاتا ہے۔

میری دوست نے یہ بھی بتایا کہ جناح ہسپتال میں ڈائیلائسز کے دوران خون کی کمی درپیش ہوئی جس کے لیے انہوں نے وہاں کے بلڈ بینک سے خون کی بوتل خرید کر اپنی والدہ کو لگائیں جن کے لگنے کے کچھ عرصے کے بعد ہی ہماری والدہ ایچ ‏آئی وی پوزیٹو ہو گئی جو کہ میرے لئے بہت ہی تکلیف دیں تھا تو کہ ہم ہاسپٹلز میں صحت اور اپنی بیماری کی شفا کے لیے جاتے ہیں شعر میرے دوست کے مطابق یہ وہاں کوئی پہلا کیس نہیں تھا خدا بہتر جانتا ہے کہ یہ بیماری ان کے جسم میں کیسے منتقل ہوئی۔

اس عمل کے دوران ہسپتالوں یا ڈاکٹر کے ہاں کبھی استعمال شدہ سرنج یا سوئی نہیں استعمال ہونے دیجیے۔ خون کے سلسلے میں خاص احتیاط ضروری ہے کیونکہ پاکستان میں کئی ہسپتالوں کو منشیات کے عادی لوگ اپنا خون فروخت کر دیتے ہیں اور اس کی چیکنگ نہیں کی جاتی۔ ان افراد میں ایچ آئی وی کے انفیکشن کے امکانات اس لئے بہت زیادہ ہوتے ہیں کہ یہ لوگ اکثر استعمال شدہ سرنج استعمال کرتے ہیں۔ جیسا کہ آپ کو علم ہو گا کہ انسانی جسم میں مختلف بیماروں سے بچنے کے لیے ایک طاقتور دفاعی نظام کام کر رہا ہوتا ہے اور ایڈز اسی کو ناکارہ کرتا ہے۔

یہ سب میرے لئے بہت زیادہ تکلیف دیتا تھا مگر سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ وہ آج بھی جناح ہاسپیٹل میں معمول کے مریضوں کے ساتھ اپنے ڈائیلائسز کروا رہی ہیں۔ میرا خیال ہے ان تمام مریضوں کا ان کے گردے واش کرنے سے پہلے ایک ایچ آئی وی ٹیسٹ کرنا لازمی ہونا چاہیے۔

مانا کے ہر زندگی قیمتی ہے مگر اگر کسی کی خاموش خود غرضی دوسروں کو ایچ آئی وی پازیٹیو مرض کی وجہ بن رہے ہیں تو یہ نہایت افسوسناک بات ہے۔ اور لمحہ فکریہ ہے ان تمام بڑے بڑے ہسپتالوں کے لئے جو زندگی دینے کے لیے عوام کی خدمت کرنے بیٹھے ہیں۔ کتنی خاموشی سے یہ مرض ایک سے دوسرے میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ لواحقین کی خود غرضی اور ڈاکٹرز کی لاپرواہی نے زندگیوں کو کھیل بنا رکھا ہے۔ کسی کو کیا معلوم کہ جو قدم وہ ہسپتال کو صحت یابی کے لئے اٹھا رہا ہے وہی موت کا سبب ہو گے۔ اس لاپرواہی کو فورا سے پہلے درست کرنا ہو گا میری گزارش ہے کہ اس کالم کو زیادہ سے زیادہ شیئر کیا جائے تاکہ احکام بالا تک یہ خبر جنگل میں لگی آگ کی طرح پہنچ سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments