عمران خان کی گرفتاری۔ سیاسی، علمی اور قانونی پہلو


عمران خان کو آج نیب ریفرنس کی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطہ سے گرفتار کر لیا گیا تو اس بابت مندرجہ ذیل گزارشات ہیں۔

1۔ دوسرا اس گرفتاری کے عمومی تناظر کو دیکھا جائے تو میں نے یکم مئی کا جاری شدہ وارنٹ گرفتاری ملاحظہ کیا تو وہ وارنٹ تو قانونی تقاضے پورے کر رہا ہے اور اس وارنٹ کی تکمیل میں عمران خان کو گرفتار کرنا کوئی مانع قانون امر نہیں ہے مگر ہمیشہ سے یہ ہی سنا ہے کہ کسی بھی ملزم کو احاطہ عدالت سے گرفتار نہیں کیا جاتا۔ بلکہ یہ تک کہا جاتا ہے کہ اگر ملزم عدالت کی طرف ضمانت لینے جا رہا ہو تو بھی اسے گرفتار نہیں کرنا چاہیے۔ مگر عمران خان کو اس طرح اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطہ سے جب وہ عدالت میں پٹیشن فائل کرنے کے لئے بائیومیٹرک کروا رہے تھے میری سمجھ سے بالا تر ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ وہ بائیو میٹرک روم اور ہائی کورٹ ریسپشن کی کھڑکیوں کے شیشے توڑنا انتہائی قابل مذمت ہے۔ اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو اس معاملہ پر ایکشن لینا چاہیے۔

2۔ نیب ریفرنسز میں سیاستدانوں کو ایسے ہی گرفتار کیا جاتا ہے۔ نواز شریف کی گرفتاری ہو، آصف علی زرداری، مریم نواز، شہباز شریف، جہانگیر خان ترین حتیٰ کہ اگر فاروق ستار صاحب کی گرفتاری کو یاد کریں جس میں وہ بڑی بڑی مونچھوں والے صاحب بہت مشہور ہوئے تھے سیاستدانوں کو اسی طرح گرفتار کیا جاتا رہا ہے اور مجھے یہ لگتا ہے ایسے ہی گرفتار کیا جاتا رہے گا۔ تو عمران خان کی گرفتاری کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ میں جتنے بھی سابق وزرا اعظم کو جانتا ہوں، میاں نواز شریف، شاہد خاقان عباسی، راجہ پرویز اشرف، یوسف رضا گیلانی وغیرہ سب کو نیب نے ان کی حکومت جانے کے بعد گرفتار کیا سو عمران خان کو بھی کر لیا۔ وہ سب بھی یہ ہی کہتے ہیں کہ ہمارے خلاف انتقامی کارروائی ہے عمران خان بھی کہہ رہے ہیں کہ انتقامی کارروائی ہے مگر ان میں اور عمران خان میں ایک فرق ضرور ہے۔ ان سب نے ان گرفتاریوں اور حربوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور عمران خان کی طرح لیٹ نہیں گئے۔ سر پر بالٹی پہن کر پاکستان کی جگ ہنسائی نہیں کی، زرداری صاحب بھی وہیل چیئر پر ہی گرفتار ہوئے مگر وہ گریس عمران خان نے نہیں دکھائی۔ بلاوجہ کی مزاحمت، روز کا تماشا یہ عمران خان کا خاصہ ہے۔ میرے مطابق عمران خان کو اس تمام پراسس کا مردانگی سے سامنا کرتے تو بہتر ہوتا۔

3۔ اب رہی بات کہ رینجرز نے گرفتار کیا، پیرا ملٹری فورس کا استعمال ہوا۔ تو کیا یہ پہلی دفعہ ہوا؟ وہی فاروق ستار کی گرفتاری، رینجرز نے ہی گرفتار کیا۔ ایک سیاستدان ہی گرفتار ہوا۔ ایک وزیر ہی گرفتار ہوا۔ سندھ کی ایک بڑی پارٹی کا رہنما بلکہ سربراہ گرفتار ہوا۔ تو عمران خان کی رینجرز کے ہاتھوں گرفتاری بھی کوئی دوسری دنیا کا عمل نہیں ہے پاکستان میں ہوتا رہا ہے، ہوتا رہے گا۔

اب آج کے اس سارے معاملہ کو دیکھوں تو وکلا پر تشدد، نعیم حیدر پنجوتھہ ایڈووکیٹ کا سر پھاڑنا بہر صورت ایک قابل مذمت عمل ہے۔ مزید برآں عمران خان کی نیب کے وارنٹ کے تحت رینجرز کے ہاتھوں گرفتاری بھی ٹھیک ہے، ایک وارنٹ موجود تھا اس پر گرفتاری ہوئی، ایسے ہی وارنٹ پر سابق وزرائے اعظم میاں نواز شریف اور راجہ پرویز اشرف کی بھی گرفتاری ہوئی تھی اور اسی طرح رینجرز نے فاروق ستار کو گرفتار کیا تھا۔ ہاں یہ امر بھی قابل مذمت ہے کہ عمران خان کو اس طرح بائیومیٹرک روم کے شیشے اور کھڑکیاں توڑ کر، نعیم پنجوتھہ کا سر پھاڑ کر گرفتار کرنا قابل مذمت ہے۔

تو اس سارے معاملہ پر میرا علمی تجزیہ یہ ہے کہ سیاستدان اگر اسی روش پر رہے تو یہ دائرہ چلتا رہے گا۔ کل نواز شریف تھا آج عمران خان ہے، قانون تجزیہ یہ ہے کہ وارنٹ کی تکمیل بالکل ایک قانونی عمل ہے اور سیاسی تجزیہ یہ ہے کہ عمران خان کے ساتھ یہ سب ہونے میں تھوڑی دیر ہو گئی یہ سب مئی 2022 میں ہونا چاہیے تھا مئی 2023 میں نہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments