تعلیم روسٹ پالیسیاں


معیشت، صنعت اور عوام کو روسٹ کرنے کے بعد تعلیمی نظام کی تباہی بھی نوشتہ دیوار ہے۔ بربادی کے دہانے پر پہنچا نظام تجہیز و تکفین کے بعد تدفین کے مراحل میں داخل ہو چکا ہے۔ ماضی میں رسمی ڈاک کی فضول بھرمار اور یو پی ای جیسی مضحکہ خیز پالیسیوں نے نظام کو کھوکھلا کیا تو آج آن لائن ایپس اور ڈینگی ایکٹیویٹیز کے ذریعے رہی سہی کسر نکالی جا رہی ہے۔ روزانہ سکول کا آغاز ڈینگی ایپس کے بے برکت کام سے ہوتا ہے اور ہزاروں موبائل بکف فرزندان تدریس ڈینگی مچھر کے خلاف آن لائن قتال میں حصہ لیتے ہیں۔

زمینی حقائق سے نا بلد ذمہ داران مصنوعی رینکنگ کی خاطر انتظامی بے مہار گھوڑوں کو سر پٹ دوڑائے جا رہے ہیں۔ رسمی اور آن لائن ڈاک میں سٹاف پورا دن الجھا رہتا ہے۔ سکول ٹیب پر نت روز نئی سے نئی فضول ایپس وقت کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں۔ اپنی اوقات اور ضرورت سے بڑھ کر کمپیوٹر پروگرامنگ اور ایپس appsدرد سر بن چکی ہیں جسے اساتذہ کو تدریس کا عمل چھوڑ کر کرنا پڑتا ہے۔ 2018ء کے بعد محکمہ میں سیاسی من مانیاں عروج پر رہیں اور مانیٹرنگ کا عمل بھی جاتا رہا۔

سیاسی رسوخ کے حامل معلمین اپنی مرضی سے اپنی پسند کے سکولوں میں تبادلے کرواتے رہے۔ پنجاب میں تو ایکسٹریم ہارڈشپ کی آڑ میں دیہاتی سکولوں کا پچاس فیصد سٹاف شہری سکولوں میں منتقل ہوا اور سربراہان ادارہ جات اور ضلعی افسران کو کانوں کان بھنک نہ پڑ سکی۔ ایک طرف دیہی سکول تقریباً خالی ہوئے تو دوسری طرف شہروں اور مضافات میں ضرورت سے زائد سٹاف ٹھہرا جو تدریسی اوقات میں سیاسی و مذہبی مباحث کے فرائض انجام دے کر گھر سدھار جاتے ہیں۔

دوردراز سکولوں میں بچے کھچے معلمین بچوں کو صرف کنٹرول کرنے میں دن گزارتے ہیں اور طالب علم بے آسرا اور تعلیمی یتیم ہو چکا ہے۔ یہ کہنا بجا ہو گا کہ گزشتہ سرکار میں شفقت کی بے جا شفقت کے باعث قوم کو تعلیمی، مراد، راس نہ آ سکی جبکہ موجودہ سرکار بے سروکار کی تعلیم روسٹ پالیسیاں بھی نا اہلیت کا منہ چڑھاتا ثبوت ہیں۔ این ایس بی کا بجٹ نہ ہونے کے برابر ہے جس سے سکولوں کے لئے عارضی معلمین رکھنا ممکن نہیں رہا تاہم بہت سے دیہی سکول نے اپنی مدد آپ کے تحت میٹرک پاس بچوں کو انتہائی قلیل معاوضہ پر تعینات کر رکھا ہے۔

ایس ایس ایز اور اے ای اوز کی مستقلی کا معاملہ بھی چھ سال سے لٹکا ہوا ہے۔ شاید ہم واحد قوم ہیں جس کا تعلیمی بجٹ دیگر شعبوں میں بٹ جاتا ہے۔ ذریعہ تعلیم اردو ہونے کے اعلان کے باوجود درسی کتب انگریزی میں دی جاتی ہیں اور طلباء کو اردو میڈیم کتابیں بازار سے، بارعایت، خریدنا پڑتی ہیں۔ اور انگریزی میں ملنے والی سرکاری کتابیں قلفی اور پاپڑوں کے عوض ارزاں فروخت ہوجاتی ہیں۔ یوں حکومت، محکمہ اور طلباء قرض کی مے سے تعلیمی فاقہ مستی میں خوب رنگ بھرتے ہیں۔

ای سی ای کلاسز کے لئے رکھے کئیر گیور ٹیچر کی تنخواہ توہین آمیز حد تک صرف چار ہزار ہے۔ اساتذہ پینشن کے خاتمے کے خوف سے قبل از وقت ملازمت چھوڑ رہے ہیں جس سے تدریسی سٹاف کی شدید کمی ہے جبکہ نئی بھرتی پانچ سال سے بند ہے۔ مردم شماری کے عدالتی حکم نے مزید گل کھلائے اور بہت سے اساتذہ ڈیڑھ ماہ کے لئے سینسس ڈیوٹی پر بھیج دیے جبکہ رہی سہی کسر نہم دہم کے امتحانی فرائض نے پوری کی۔ اگر کچھ سکولوں میں برضائے الہٰی دو تین استاد رہ گئے تھے تو انہیں بھی نا ہونے والے الیکشن کی ٹریننگ کے لئے، سکول نکالا، دے دیا گیا۔

سچ ہے کہ باہر سے پڑھا اور بند کمروں کا مقیم ایلیٹ طبقہ ایسی صورت حال خاک سمجھے اور اس بات پر بھی مہر ثبت ہوئی کہ سکولوں میں سوائے درس و تدریس سب کچھ ہوتا ہے۔ جنوبی پنجاب میں تو ہر سکول کے لئے، روشنی میگزین خرید کر رکھنا بھی فرض ہے جس کے ثمرات کا کئی، بڑوں، کے گھروں تک پہنچنا یقینی ہے۔ ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ بچے کھچے اساتذہ کو سکولوں کا منہ دیکھنے کی مہلت دیں اور مردم شماری، انتخابات اور امتحانی ڈیوٹیوں کے لئے ملک کے ہزاروں اعلیٰ تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں کو تربیت دے کر کام نکالے۔

اس طرح ان کے روزگار کا مسئلہ بھی کسی حد تک حل ہو گا۔ مگر ہم ایک تیر سے دو شکار کی بجائے، ایک شکار کے لئے کئی تیر چلانے کے عادی ہیں۔ ادھر ہمارے اساتذہ بھی اضافی آمدن کے لالچ میں پیچھے نہیں رہ پاتے۔ چھٹیوں اور کام نہ کرنے پر خوش ہوتے ہیں اور پورا سال تنخواہیں بڑھنے کے فارمولے جیبوں میں رکھتے ہیں۔ گویا پوری قوم کے مزاج مین بلا کی ہم آہنگی ہے۔ شاید قائد کے، کام کام کام، والے قول کو calm calm calm، سمجھ بیٹھیں ہیں۔ ان حالات میں اگر خوش ہیں تووہ بچے ہیں کیونکہ بچے اپنے نفع نقصان سے نابلد ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے تعلیمی تباہی اور تربیت کے فقدان کے موجب قوم ابھی بھی، ایک قوم، بنتی نظر نہیں آ رہی۔ یقیناً میر تقی میر ہمارے سکولوں اور شہروں سے گزریں تو یہ پوچھے بغیر نہ رہیں،

یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے؟

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments