’ہوا بھی چلے تو لگتا ہے ہم ڈوب جائیں گے‘ سیلاب متاثرین کو گھروں کی تعمیر کے لیے رقم کیوں نہ مل سکی؟


bbc
’ہمارے بچے سیلاب کی وجہ سے ڈرے ہوئے ہیں جیسے بارش ہوتی ہے یا طوفانی ہوا چلتی ہے تو بچے ہم سے چمٹ جاتے ہیں کہ امی ہم مر جائیں گے، ہم ڈوب جائیں گے۔‘

یہ ہیں عابدہ ماچھی جو خیرپور ناتھن شاہ کے گاؤں پوٹھو ماچھی میں خیمے میں اپنے بچوں کے ہمراہ رہتی ہیں۔

گذشتہ برس پاکستان میں آنے والے سیلابوں سے 33 لاکھ افراد متاثر ہوئے تھے۔

سندھ سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ تھا، جہاں 23 لاکھ افراد بے گھر ہوئے جن کی ایک بڑی تعداد آج بھی خیموں میں رہنے پر مجبور ہے۔

ان کی بحالی کا کام سست روی کا شکار ہے۔

bbc

خیمہ آگ برستا رہا

خیرپور ناتھن شاہ تحصیل سب سے زیادہ متاثر ہوئی، اس کے گاؤں پوٹھو ماچھی کی رہائشی عابدہ ماچھی بتاتی ہیں کہ سیلاب آنے کے بعد وہ یہاں سے نکل کر جوہی موڑ دادو چلے گئے وہاں پانی سمیت کئی مشکلات تھیں۔

وہاں سے تین ماہ کے بعد واپس آگئے اور باقی وقت گھر کے قریب واقع سڑک پر وقت گزارہ کیا۔

خیرپور ناتھن شاہ شہر سے صرف ایک کلومیٹر باہر محمد اسلم کچی اینٹوں سے اپنے گھر کی چھت بنانے میں مصروف عمل تھے، انھوں نے بتایا کہ خود ہی چار دیواریں بنائی ہیں، خود ہی خیمہ لگا کر بیٹھے گئے۔

وہ کہتے ہیں کہ’اتنے پیسے تو نہیں تھے جو کسی سے تعمیر کرواؤں اس لیے خود ہی اس کی تعمیر شروع کردی۔‘

بقول محمد اسلم کے پہلے خیمے میں کام چل جاتا ہے لیکن اب گرمی میں بیٹھا نہیں جاتا، اس لیے یہ بنایا ہے۔

جب ہم اسلم سے بات کر رہے تھے خیمے کے اندر سے ان کی بیوی کی آواز رہی تھی جو بتا رہی تھیں کہ رمضان میں خیمہ آگ برسا رہا تھا، وہ خیمے پر مسلسل پانی ڈال کر پھر اس میں بیٹھتے تھے۔

گوزو کے علاقے دلمراد منگہنار میں سارے ہی گھر مسمار نظر آئے۔

زہرہ منگنہار بیوہ ہیں ان کے خیمے کے باہر اینٹیں موجود تھیں۔ انھوں نے ’دو تین بکریاں فروخت کیں، کچھ پیسے بالیاں فروخت کرکے لیے، اس کے بعد تعمیر کے لیے اینٹیں، ریت اور سیمنٹ منگوایا ہے۔۔۔ سرکار معلوم نہیں کب گھر بناکر دے گی۔‘

bbc

فہرست میں نام نہیں

حکومت سندھ کے مطابق سیلابی بارشوں سے 21 لاکھ سے زائد گھر متاثر ہوئے ہیں جن میں 79 فیصد کچا سٹرکچر تھا، حکومت سندھ نے محکمہ ریونیو اور پاکستان فوج کی معاونت سے یہ سروے کیا تھا۔

حکومت نے مکمل مسمار گھر کا معاوضہ تین لاکھ روپے جبکہ جزوی گھر کے لیے ایک لاکھ روپے تعین کیا ہے۔ متاثرہ گھروں کے سروے کی توثیق اور تصدیق کا کام این جی اوز کو دیا گیا ہے جن کے اہلکار فہرست میں موجود گھروں میں جاکر ان کا معائنہ کرتے ہیں۔

خیرپور ناتھن شاھ تحصیل حالیہ بارشوں سے شدید متاثر ہے، یہاں کئی خاندانوں سے ملاقات ہوئی جن کا کہنا تھا کہ ان کے نام فہرست میں شامل نہیں ہے۔

پوٹھو ماچھی گاؤں نو ماہ گذرنے کے باوجود بھی پانی کے گھیرے میں تھا۔

سروے کے مطابق یہاں پر پینتالیس گھر بارشوں کی وجہ سے مسمار ہوئے تاہم یہاں کے رہائشی ان کی تعداد پچپن بتاتے ہیں یہاں پر اس وقت تک چھ ایسے گھر ہیں جن کے مالکان کو حکومت کی جانب سے مقررہ پیسے کی پہلی قسط چکی ہے جو پچہتر ہزار ہے۔

bbc

محمد نواز نے اپنے ٹوٹے ہوئے مکانات کی چند بچ جانے والی ادھوری دیواریں دکھاتے ہوئے کہا کہ وہ تین بھائی ہیں اور کسی کا نام بھی فہرست میں نہیں ہے، وہ خیمے میں بچوں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔

خیرپور شہر کے مضافاتی علاقے کے رہائشی وسیم حسین نے بتایا کہ جو بھی ٹیم تصدیق یا توثیق کے لیے آرہی ہے کہتی ہی کہ آپ کا نام شامل نہیں جبکہ جب فوجی سروے کے لیے آئے تھے تو ہم نے نام تحریر کرائے تھے۔

وسیم حسین جس جگہ کھڑے تھے وہاں تین کمرے موجود تھے جن کی سامنے کی دیواریں اور نصف چھت گر چکی تھی۔ انھوں نے اینٹوں کو کھڑا کرکے دیوار بنائی تھی۔

انھوں نے اپنے پڑوس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کا نام بھی فہرست میں نہیں ہے۔

دلمراد منگنہار گاؤں میں ایک ایک خیمے میں کئی کئی لوگ نظر آتے تھے، ایک رہائشی وزیر علی منگنہار نے بتایا کہ 2010 کے سیلاب کے بعد ایک این جی او نے انھیں سیمنٹ کے بلاکس کے ساتھ گھر بناکر دیے تھے حالیہ سیلاب سے وہ پہلے سے زیادہ متاثر ہیں لیکن ابھی تک حکومت کے سروے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

کٹ ابھی بند نہیں ہوئے

g

علی بخش ببر گاؤں میں ہم گذشتہ سال اکتوبر میں دین محمد ببر کے ساتھ گئے تھے جب وہ کشتی میں اپنے خاندان کے ساتھ واپس جارہے تھے۔ جب مئی کے دوسرے ہفتے میں ان کے گاؤں پہنچے تو اس وقت بھی ان کے گھر کے پیچھے پانی موجود تھا جو کئی سو ایکڑوں پر مشتمل تھا۔

اسی طرح کا پانی نوشہرو فیروز کے کوٹڑی کبیر اور رسول آباد جبکہ خیرپور کے فیض گنج اور ٹھری میرواہ کے علاقے میں موجود ہے، جس کی نکاسی نہیں ہوسکی ہے۔

دین محمد کے گھر کے باہر رائس کینال پر ایک کٹ کو مٹی ڈال کر بند کیا گیا تھا، انھوں نے بتایا کہ یہ کٹ دو روز قبل ہی بند کیا گیا ہے لیکن بس مٹی ڈال دی گئی ہے جو پائیدار ثابت نہیں ہو گی۔

اس گاؤں تک پہنچنے کے لیے ہمیں کئی ایسے علاقوں سے گزرنا پڑا جہاں کٹ لگے ہوئے تھے، ساتھ میں ایک ایکسیویٹر کی ذریعے اس کو بند کیا جا رہا تھا۔

دین محمد نے بتایا کہ ان کٹس کی وجہ سے یہاں تک کوئی سواری نہیں آتی نہیں اور کئی کلومیٹر دور جا کر پھر سواری ملتی ہے۔

یاد رہے کہ سیلابی پانی کی نکاسی کے لیے نہروں اور نالوں کو گذشتہ سال اگست میں کٹ لگائے گئے تھے۔

سیلاب، پاکستان

ایک کمرے کا مکان

حکومت سندھ کی طرف سے ایک کمرے کے مکان کی منظوری دی گئی ہے، جو چودہ بائی سولہ سکوائر فٹ کا ہو گا۔

اس کے لیے تین لاکھ روپے چار اقساط میں ادا کیے جائیں گے جس کی پہلی قسط ڈی پی سی سے ہو گی، اس ایک کمرے میں واش روم اور پانی کی لائن کا انتظام نہیں ہو گا۔

حکومت نے جو سروے کیا ہے اس کے مطابق دادو ضلعے میں ایک لاکھ پینتس ہزار گھر مسمار ہوئے تھے تاہم اس میں صرف اس وقت تک 30 ہزار گھروں کی توثیق و تصدیق ہوچکی ہے۔

حکومت نے ایک ایپ بنائی ہے جس میں ڈیٹا انٹری کی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سیلاب ڈائری: ’میری بیٹیوں کا جہیز بھی بہہ گیا‘

سندھ میں سیلاب: کپاس، چاول کی تباہ حال فصلیں اور سود لے کر کاشت کرنے والے کسانوں کی دوہری پریشانی

پاکستان کا وسطی پنجاب سیلاب سے کیسے محفوظ رہا اور کیا انڈیا کا پاکستان میں آنے والے سیلاب سے کوئی تعلق ہے؟

تھر دیپ نامی این جی او کے پاس دادو، جام شورو اور تھر کے مسمار گہروں کی توثیق اور تصدیق کی ذمہ داری ہے۔

دادو میں موجود تنظیم کے ذمہ دار سکندر علی راہموں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں جو فہرست ملی ہے وہ اس کی تصدیق کرتے ہیں، مستفید ہونے والے کا شناختی کارڈ دیکھا جاتا ہے ڈیٹا انٹری کے بعد اس کا بینک اکاؤنٹ کھلتا ہے جس میں رقم ادا کی جاتی ہے، تنظیم کے انجنیئر موجود ہیں جو ڈیزائن پر عمل درآمد کراتے ہیں یہ تین سال کا منصوبہ ہے جس میں ایک لاکھ 164 ہزار مکمل کرکے دینے ہیں۔

اس ایپ میں زمین کے ملکانہ حقوق کے بارے میں بھی سوال کیا جا رہا ہے، اگر یہ مکان پانی کی کسی گزر گاہ، کسی متنازع زمین یا کسی خطرے والی جگہ بنا ہوا تھا تو وہ شخص حکومت کی رقم سے مستفید نہیں ہو سکے گا۔

g

گندم کے چند دانے بھی نہیں ملے

سندھ میں جب سیلابی بارشیں آئیں تو یہاں چاول، کپاس، مرچ کی فصل لگی ہوئی تھی، حکومت سندھ کے اعداد و شمار کے مطابق 38 لاکھ ایکڑ زمین متاثر ہوئی، سیلابی پانی کی نکاسی کے بعد گندم لگائی گئی۔

حکومت سندھ کے مطابق سیلاب سے 50 لاکھ لوگ مزید غریب ہو گئے۔

محمد دین ببر کے مطابق انھوں نے تاخیر سے فصل لگائی ’اناج تو نہیں ہوا تاہم چارہ ہو گا۔‘

دوسری جانب کئی کسانوں نے کہا کہ زمینداروں نے ان سےگندم چھین لی۔ محمد خان ببر نے بتایا کہ جب فصل تیار ہوئی تو انھوں نے زمیندار کو بتایا، وہ آئے اور سارا اناج اور بھوسہ تک لے گئے۔

وہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے ’بیج ڈالا، کھاد کی کٹوتی کی۔۔۔ وہ منتیں کرتے رہے لیکن زمیندار نے کہا کہ یہ آپ کا قرضہ ہے اور انھوں نے ایک بھی نہیں مانی۔۔۔ بچوں کے کھانے کے لیے چند دانے بھی نہیں چھوڑے۔‘

پوٹھو ماچھی کے محمد نواز نے بتایا کہ ’کسی زمیندار نے کسان کو ایک روپیہ بھی معاف نہیں کیا۔ سارا حساب چکتا کردیا، اب دوبارہ انھیں چاول کے فصل کا انتظار ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments