دانشور مسئلے کا حل بھی بتائیں – مکمل کالم


گھمسان کا رن پڑا ہے، چاروں طرف سے بھانت بھانت کی آوازیں آ رہی ہیں اور ان آوازوں میں بہت سی باتیں آپس میں گڈ مڈ ہو گئی ہیں۔ پتا نہیں چل رہا کہ کون جمہوریت کی جنگ لڑ رہا ہے اور کون آمریت کی، کون آئین کی پاسداری کر رہا ہے اور کون خلاف ورزی، کون پر امن احتجاج کر رہا ہے اور کون شر پسند ہے، کون انقلاب برپا کر رہا ہے اور کون ریاست کی عملداری قائم کر رہا ہے، کون نظریاتی طور پر درست ہے اور کون مفاد پرست! ان حالات میں صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنا آسان نہیں ہوتا لہذا ایسی صورتحال میں بہتر ہے کہ پہلے اصول کی بات کر لی جائے۔

اصول کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے ہر شہری کو آئین اور قانون کا تحفظ حاصل ہے، اصول کی بات یہ ہے کہ کسی شخص کو وارنٹ دکھائے بغیر گرفتار نہیں کیا جا سکتا، اصول کی بات یہ ہے کہ گرفتاری کے بعد اس شخص کو مجاز عدالت کے سامنے پیش کیا جانا ضروری ہے، اصول کی بات یہ ہے کہ حراست کے دوران کسی پر تشدد نہیں کیا جا سکتا، اصول کی بات یہ ہے کہ ہر شہری کو منصفانہ سماعت کا حق حاصل ہے، اصول کی بات یہ ہے کہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے ہر شخص پر امن احتجاج کر سکتا ہے اور اصول کی بات یہ ہے کہ کسی کی آزادی اظہار کا حق سلب نہیں کیا جا سکتا۔

یہ تمام اصول پاکستان کے آئین میں درج ہیں۔ لیکن چند اصول اور بھی ہیں۔ مثلاً یہ بھی اصول کی بات ہے کہ تمام اصولوں کا اطلاق ہر شہری پر بلا تفریق ہو گا، ایسا نہیں ہو گا کہ پینٹ شرٹ پہننے والے کلین شیو مردوں اور انگریزی بولنے والی عورتوں کو احتجاج کے نام پر گھیراؤ جلاؤ اور توڑ پھوڑ کی اجازت ہوگی جبکہ ٹخنوں سے اونچی شلواریں پہننے والے باریش شہریوں کو ریاست کی عملداری کو للکارنے کے الزام میں گولیاں ماری جائیں گی۔

یہ بھی اصول کی بات ہے کہ تمام اصولوں کا اطلاق زمان و مکان سے بالا تر ہو کر کیا جائے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ بنیادی انسانی حقوق اور قانون کی پاسداری کی تمام باتیں آئین سے اس وقت مٹا دی جائیں جب ہماری محبوب جماعت اقتدار میں ہو اور جونہی وہ جماعت اقتدار سے باہر ہو اسی لمحے آئین اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ اس جماعت کے پیروکاروں کو تحفظ دینے کے لیے وجود میں آ جائے۔ یہ بھی اصول کی بات ہے کہ آزادی اظہار کے نام پر کسی کو کافر اور غدار نہ کہا جائے، خواتین کی کردار کشی نہ کی جائے اور بے گناہ اور محب وطن لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں نہ ڈالا جائے۔ اور ایک اصول تو ان تمام اصولوں سے بڑا ہے اور وہ ہے جمہوریت کا اصول، جن اصولوں کا میں نے ذکر کیا ہے وہ جمہوریت کی چھتری کے نیچے ہی کام کر سکتے ہیں، اگر یہ چھتری ہٹا دی جائے تو پھر نہ کوئی اپنے بنیادی حقوق مانگ سکے گا اور نہ ہی کوئی عدالت اسے یہ حقوق دلوا سکے گی۔

آج کل ہمارے جمہوریت پسند دانشور عجیب مخمصے کا شکار ہیں، وہ جمہوریت کے اصولوں کے ساتھ تو کھڑے ہیں مگر جن لوگوں کے بنیادی حقوق کی خاطر وہ یہ اصول لاگو کرنا چاہتے ہیں ان لوگوں نے خود ان اصولوں کی ایسی دھجیاں اڑائی ہیں کہ جس سے جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ ٹی وی پر اشتہارات اور ترانے دیکھ کر یوں لگ رہا ہے جیسے ہم 1958 میں واپس چلے گئے ہیں اور اس صورتحال کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے ملک میں آگ لگائی، فوجی تنصیبات پر حملے کیے اور قومی املاک کو تباہ کیا۔

جمہوریت پسند دانشور اب کس منہ سے ان لوگوں کے لیے آئین اور قانون کی ضمانت مانگیں جنہوں نے اس ملک میں بچی کچی جمہوریت کا جنازہ نکال دیا اور وہ بھی کسی نظریے یا اعلیٰ و ارفع مقصد کے حصول کے لیے نہیں بلکہ فقط اس احساس تفاخر کے تحت کہ انہیں کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ دراصل ان لوگوں کی یہ غلط فہمی کچھ ایسی غلط بھی نہیں تھی، گزشتہ دس سال سے انہیں یہ استثنا حاصل تھا کہ انہیں کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا، حوالات گئے بھی تو ایک آدھ دن کے لیے اور ایسے جیسے ریاست کا داماد جاتا ہے ، باہر نکلے تو ہیرو بن گئے۔

ریاستی اداروں نے اپنی عزت پامال کروا لی تھی مگر ان اربن مڈل کلاس جہادیوں کو گرم ہوا نہیں لگنے دی تھی، یہی وجہ ہے کہ ان فائیو سٹار انقلابیوں کا خیال تھا کہ جب وہ نکلیں گے تو پورا ملک ان کے ساتھ ہو گا اور وہ جو کریں گے اس پر ہمیشہ کی طرح کوئی باز پرس نہیں ہوگی۔ مگر اس مرتبہ ان سے اندازے کی ایسی غلطی ہوئی جو تباہ کن ثابت ہوئی، اپنی سرخ لکیر بچاتے بچاتے انہوں نے ملک کی تمام لکیریں ہی مٹا ڈالیں۔ اب یہ لوگ دہائی دے رہے ہیں کہ ملک کے آئین اور قانون کے نام پر ان سے نرمی برتی جائے۔

ہماری یاد داشت چونکہ کمزور ہے اس لیے تازہ کرنا ضروری ہے۔ آج سے ٹھیک دو سال پہلے ایک مذہبی جماعت نے بھی احتجاج کیا تھا، ناموس رسالتﷺ سے بڑا مقصد بھلا کیا ہو سکتا ہے، یہی اس جماعت کا نظریہ تھا اور ہے، گو کہ وہ احتجاج بھی پر امن نہیں تھا مگر انہوں نے یوں قومی اور فوجی تنصیبات پر حملے نہیں کیے تھے، اب ذرا سوچیں کہ وہ جماعت اگر اس قسم کے حملے کرتی تو ہمارا کیا رد عمل ہوتا؟ وہ لوگ جو اس وقت برگر کلاس کے لڑکے لڑکیوں کے بنیادی حقوق کے غم میں گھلے جا رہے ہیں کیا اس وقت مذہبی جماعت کے باریش پیروکاروں کے لیے بھی ایسے ہی جمہوری اصولوں کا علم بلند کرتے؟ اس سوال کا جواب میں آپ کے فیصلہ کرنے کی عمدہ صلاحیت پر چھوڑتا ہوں!

جمہوریت پسند دانشوروں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے اصولوں سے ہٹ نہیں سکتے، ہٹنا بھی نہیں چاہیے مگر ان کے پاس مسئلے کا حل بھی موجود نہیں۔ گزشتہ ایک برس سے ملک جس ہیجان، انتشار اور بحران کی کیفیت میں ہے اس کے حل کے لیے جمہوریت پسند دانشور کوئی طریقہ نہیں بتا پائے۔ ان کا یہ کہنا کہ ہر کام آئین اور قانون کے مطابق ہو، محض ایک عمومی بیان ہے جس کا کچھ بھی مطلب نکالا جا سکتا ہے۔ ایک مثال سے یہ بات واضح ہو جائے گی۔

ان سب لوگوں کی شکلیں کیمروں میں محفوظ ہیں جنہوں نے فوجی عمارتوں اور قومی املاک کو جلا کر تباہ کیا، یہ مناظر پوری قوم نے اپنے موبائل فون اور ٹی وی کی سکرینوں پر دیکھے، ان سے انکار کرنا ممکن ہی نہیں، اور اب جبکہ انہیں گرفتار کیا جا رہا ہے تو کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ آپ بلوائیوں کو گرفتار ضرور کریں مگر بے گناہ لڑکے لڑکیوں کو چھوڑ دیں اور ایسا کہتے وقت یہ دانشور جمہوری اصولوں کا حوالہ ہی دیتے ہیں جو کہ جائز بات ہے۔

مگر سوال پھر وہی ہے کہ اس مسئلے کا حل بھی تو بتایا جائے، محض اصول کی بات سے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ جو لڑکے لڑکیاں گرفتار ہو رہے ہیں، کیا انہوں نے بڑھ چڑھ کر آگ نہیں لگائی، کیا انہوں نے وہ تمام کام نہیں کیے جو اگر کسی مذہبی جماعت کا رکن کرتا تو سیدھا دہشت گرد کہلاتا۔ اور یہ بات کہنے کی تو ضرورت ہی نہیں کہ کسی بے گناہ کو گرفتار نہ کیا جائے، یہ تو ظاہر سی بات ہے، مگر یہاں اس بات کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ ان فساد برپا کرنے والوں سے نرمی برتی جائے۔

یہ بات سمجھنے والی ہے کہ محض کسی عمومی اصول کی آڑ میں ہم ان بلوائیوں کے لیے نرم گوشہ نہیں رکھ سکتے جنہوں نے اپنے ہر اقدام سے اس ملک کی کمزور جمہوریت کو اتنا لاغر کر دیا ہے کہ اب وہ کئی برس تک اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہو سکے گی۔ ان بلوائیوں کا اصل جرم ہی یہ ہے کہ انہوں نے ملک میں جمہوریت کا جنازہ نکال دیا ہے اور ہم جیسے لوگوں کے پاس یہ آپشن بھی نہیں چھوڑا کہ وہ جمہوریت کے جنازے کو کندھا دے سکیں۔ یہ ہے ان کا اصل جرم اور یہ ہے وہ مسئلہ جس کا حل ہمارے دانشوروں کے پاس نہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments