عمران خان کے خلاف ریاستی ہتھکنڈے ناجائز ہیں


تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری نے دو ہفتے میں پانچویں بار گرفتار ہونے کے بعد تحریک انصاف اور سیاست چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔ تحریک انصاف کے حامی معروف صحافی اور یوٹیوبرعمران ریاض  11 مئی سے لاپتہ ہیں۔ آئی جی پولیس پنجاب نے گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ کو مطلع کیا کہ یہ ’لاپتہ‘ صحافی ملک کے کسی علاقے میں پولیس کی تحویل میں نہیں ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور موجودہ حکومت کو جواب دینا چاہیے کہ نو مئی کے یوم سیاہ کے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا ان دو اور ایسے ہی درجنوں دوسرے واقعات سے کیا تعلق ہے؟

9 مئی کو تشدد اور عسکری تنصیبات پر حملوں کی مذمت کا سلسلہ بھی جاری ہے اور اس مذمت کی آڑ میں تحریک انصاف چھوڑنے والے لیڈروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ کیا عمران خان کا ساتھ چھوڑنے والے محض جذبہ حب الوطنی سے مجبور ہو کر یہ اقدام کرنے پر مجبور ہیں۔ اس موقف کو اسی صورت میں درست مانا جاسکتا تھا اگر یہ مناظر پہلی بار اس ملک میں دیکھنے میں آتے۔ اس سے پہلے قومی سیاسی سفر کے متعدد مراحل پر مشاہدہ کیا جا چکا ہے کہ کیسے سیاسی پارٹیاں بنانے اور توڑنے میں عسکری ادارے کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ 2018 سے پہلے ان اداروں نے جو کردار تحریک انصاف کو مضبوط کرنے اور انتخابات میں کامیاب کروانے کے لئے ادا کیا تھا، وہی کردار اب اسے توڑنے اور عمران کو خان کو سیاسی طور سے تنہا کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے۔

ان حالات میں یہ کیسے یقین کیا جاسکتا ہے کہ فوج ملکی سیاسی معاملات سے لاتعلق ہو چکی ہے اور اپنی پوری توجہ دہشت گردی کے قلع قمع اور سرحدوں کی حفاظت پر مبذول کرنا چاہتی ہے؟ عمران خان سے ہزار اختلاف کے باوجود ان کی اس بات کو کس جواز پر مسترد کیا جائے کہ ملک میں غیر علانیہ مارشل لا نافذ ہے اور آرمی چیف ہی اصل حکمران ہیں۔ اس الزام کا ٹھوس جواب بھی وزیر اعظم اور تازہ بہ تازہ ناموس پارلیمنٹ کی حفاظت کا قانون منظور کرنے والی قومی اسمبلی پر واجب ہے۔ حکمران سیاسی جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ ملک میں پارلیمنٹ کام کر رہی ہے اور تمام معاملات آئین و قانون کے مطابق طے پا رہے ہیں۔ وزیر اعظم اور ان کے رفقا کی باتوں پر یقین کیا جائے تو یہ ماننا پڑتا ہے کہ اس وقت اگر کوئی ادارہ ’آئینی حدود‘ سے تجاوز کا مرتکب ہو رہا ہے تو وہ سپریم کورٹ ہے۔ پھر صحافیوں کو اٹھانے اور غائب کرنے اور ایک زیر عتاب پارٹی کے لیڈروں کو وفاداریاں تبدیل کرنے کی صورت حال کو کس ’جائز طریقہ کار‘ کے تحت سمجھنے کی کوشش کی جائے؟

عمران خان کی سیاست سے اختلاف کا یہ مطلب نہیں ہو سکتا کہ ریاستی قوتوں کو انہیں توڑنے اور دیوار سے لگانے کے لئے ہمہ قسم غیرقانونی طریقے اختیار کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ عمران خان ایک مقبول لیڈر ہیں لیکن وہ نظام کی کمزوری، حکومت کی نا اہلی، مہنگائی اور دیگر سماجی مسائل کی بگڑتی صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام کو موجودہ حکومت کے خلاف پرجوش کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ عمران خان کے طریقوں، تواتر سے جھوٹ بولنے، موقف تبدیل کرنے، مسائل کی عدم تفہیم اور اشتعال و نفرت انگیزی کی مہم چلانے کے طریقوں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ان رویوں کو قانونی طریقوں سے کنٹرول کر کے ہی یہ ثابت جا سکتا ہے کہ پاکستان میں ایک فعال نظام موجود ہے۔ بدقسمتی سے پاکستانی معاشرہ اس مشکل مگر ضروری امتحان میں کامیاب نہیں ہو رہا۔ تاہم اگر ملک میں جمہوریت کو فروغ دینا ہے اور آئین کے مطابق عوام کے ووٹوں سے حکومت قائم کرنے کا طریقہ ہی نصب العین ہے تو اس امتحان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ اس میں ناکامی جمہوری مقصد اور قانون کی حکمرانی کے نظریہ سے گریز ہو گا۔

9 مئی کو پاک فوج نے یوم سیاہ قرار دیا ہے۔ حکومت نے کسی ’وفادار بچے‘ کی طرح یوم سیاہ کو ’قومی ترانہ‘ بنانے کی کوششوں کا آغاز کیا ہوا ہے۔ تحریک انصاف کے کارکنوں نے اس روز تشدد کے جو ہتھکنڈے اختیار کیے اور اہم عسکری تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں کو جیسے نشانہ بنایا، وہ ایک قومی المیہ ہے لیکن اگر ملک میں ایک مہذب جمہوری حکومت موجود ہے اور اگر تمام ادارے واقعی قانون کی بالادستی کو اہم مانتے ہیں تو اس روز کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف سول نظام کے تحت ملک کے مسلمہ طریقہ کار کے مطابق ہی کارروائی ہو سکتی ہے۔ فوج شکایت کنندہ ہو سکتی ہے۔ تنصیبات یا املاک پر ہونے والے حملوں کی تفصیلات سے متعلقہ حکومتی محکموں کو مطلع کر سکتی ہے لیکن یہ تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ چونکہ یہ حملے بعض عسکری تنصیبات پر ہوئے تھے، اس لئے مدعی، وکیل اور منصف ہونے کا حق بھی فوج ہی کو حاصل ہو گیا ہے۔

بدقسمتی سے 9 مئی کے بعد رونما ہونے والے واقعات یہ واضح کر رہے ہیں کہ فوج نہ صرف اس روز کی لاقانونیت میں ملوث لوگوں کو خود سزا دینا چاہتی ہے بلکہ اس سے بڑھ کر اس سانحہ کی آڑ میں عمران خان کو سیاسی لحاظ سے کمزور اور غیر متعلق کرنے کی باقاعدہ مہم کا آغاز بھی کیا جا چکا ہے۔ ملک کی فلاح اور عہد نو میں سربلندی کے لئے یہ طریقہ کسی صورت قبول نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس راہ پر چلتے ہوئے موجودہ مسائل سے نجات حاصل کی جا سکے گی۔

سیاسی لیڈر غلطیاں کرتے ہیں تو عوام کو جوب دہ ہوتے ہیں۔ وہ قانون شکنی کے مرتکب ہوتے ہیں تو عدالتی نظام ان پر گرفت کر سکتا ہے۔ اس پورے عمل میں کسی بھی سیاسی لیڈر یا پارٹی کے خلاف کارروائی کے لئے پولیس، ایجنسیوں یا دیگر اداروں کو ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرنا اگر کل ناجائز تھا تو وہ آج بھی جائز نہیں ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ادراک رکھنے والے جانتے ہیں کہ جب بھی یہ طریقہ اختیار کیا گیا، ملک و قوم کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔ آج حکومت میں شامل جماعتوں کے بیشتر لیڈر اس حقیقت سے آگاہ ہیں۔ اس کے باوجود اگر عمران خان کی نفرت اور تحریک انصاف کو کمزور کرنے کے جوش میں یہ لیڈر غیر جمہوری طریقے آزمائیں گے یا غیر منتخب اداروں کو وہ کام کرنے کی اجازت دیں گے جو ان کا دائرہ اختیار نہیں ہے تو وہ ایک بار پھر عوام کو مایوس اور جمہوریت کو کمزور کرنے کا سبب بنیں گے۔

اسے ملک کی بدقسمتی کہنا چاہیے کہ ملک میں جمہوری نظام کے لئے عسکری قیادت کی سرپرستی میں سیاست کرنے کی نئی تفہیم عام کی جا رہی ہے۔ ایک طرف فوج یہ یقین دلانے کی کوشش کرتی رہی ہے کہ وہ سیاسی عمل سے دور ہونا چاہتی ہے۔ تو دوسری طرف سیاسی پارٹیاں اسی جوش و خروش سے عسکری قیادت کو اپنے ساتھ ملانے کی جد و جہد میں مصروف ہیں۔ حکومت میں شامل جماعتیں تحریک انصاف کی حکومت کے دوران عوامی حکمرانی کا راگ ضرور الاپتی رہی ہیں لیکن تحریک عدم اعتماد سے لے کر اب تک رونما ہونے والے واقعات میں جمہوری طرز عمل سے زیادہ نظریہ ضرورت اور ہوس اقتدار کارفرما دکھائی دیتی ہے۔ بدقسمتی سے عمران خان کا سیاسی مقدمہ بھی ایک لفظی ہے کہ فوج ان کے سر پر ہاتھ رکھے پھر نہ آرمی چیف برا ہے اور نہ ہی فوجی قیادت سے کوئی شکوہ شکایت ہے۔ بس میرے سیاسی دشمنوں کا قلع قمع کر دیا جائے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ عمران خان کی خواہش تو پوری نہیں ہوئی لیکن حکومتی پارٹیاں ویسی ہی خواہش کا پھل سمیٹ رہی ہیں۔ بدقسمتی سے ایسا کرتے ہوئے سیاسی لیڈر بھول رہے ہیں کہ اس سیاسی میوزیکل چئیر میں کرسی سے ہاتھ بھی دھونا پڑ تا ہے۔

ان حالات میں سیاسی مکالمہ واحد راستہ ہے۔ سیاسی طاقتوں کے درمیان ڈائیلاگ سے ہی وہ بنیاد فراہم ہو سکتی ہے جس کے ذریعے جمہوری عمل مستحکم ہو اور غیر منتخب قوتوں کے فیصلے کرنے کی طاقت میں کمی ہو سکے۔ تحریک انصاف اور حکومتی پارٹیاں ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہوئے بات چیت سے فرار حاصل کرتی رہی ہیں کیوں کہ سب ہی میرٹ اور عوامی رائے کی بجائے نادیدہ قوتوں کی سرپرستی سے اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ البتہ اسے جمہوری عمل کا نام دینے پر مصر ہیں۔ کیوں کہ اس وقت ملکی سیاست میں نمایاں سب ہی سیاسی گروہ کسی نہ کسی وقت عسکری نرسری میں کاشت کیے گئے تھے اور فوج کے تعاون سے سیاست کرنے ہی کو سب سے محفوظ اور تیر بہدف طریقہ مانتے ہیں۔ اس خواہش میں البتہ وہ یہ حقیقت فراموش کر رہے ہیں کہ ان سب کو اگر فوج نے سیاست میں نمایاں کرنے میں کردار ادا کیا تو ان کے پر کاٹنے کے لئے بھی عسکری ادارے ہی استعمال کیے گئے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے لیڈروں کو تحریک انصاف کے خلاف کارروائیوں کا حصہ بنتے ہوئے، 2017 میں اپنی قیادت اور پارٹی کے خلاف کیے جانے والے اقدامات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔

اصولی طور پر تو عمران خان کو فوج سے دوری پیدا ہونے کے بعد سب سے پہلے لندن جاکر نواز شریف سے اپنی غلطیوں کی معافی مانگنی چاہیے تھی تاکہ سیاسی عمل کو غیر جمہوری روایتوں سے نجات دلائی جا سکے۔ اس کی بجائے وہ عسکری لیڈروں کے سامنے شکایتوں کی پٹاری کھول کر بیٹھ گئے۔ اس کا نتیجہ سامنے ہے۔ لیکن نواز شریف تو جہاں دیدہ ہیں۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ عمران خان کو زمین بوس کرنے کے لئے وہ جن ہتھکنڈوں کو معمول سمجھ رہے ہیں، کل کو وہ ان کے خلاف پھر سے استعمال ہوسکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments