مردان: فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث چھ ملزمان کے مقدمات فوجی عدالت میں چلانے کی منظوری


عدالت
صوبہ خیبرپختونخوا کے شہر مردان میں انسداد دہشتگردی کی ایک عدالت نے فوجی تنصیبات اور قومی ہیروز کے مجسموں کی بے حرمتی کے کیس میں چھ ملزمان کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمات چلانے کی درخواست منظور کر لی ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ملزمان میں سے ایک کے وکیل ندیم شاہ ایڈووکیٹ نے نمائندہ بی بی سی عزیز اللہ خان کو بتایا کہ فی الوقت آرمی ایکٹ کا نفاذ صوبے میں اب تک صرف مردان کی حد تک کیا گیا ہے اور یہ مقدمہ آرمی ایکٹ سیکشن 59 اور آرمی آفیشل سیکریٹ ایکٹ سیکشن 7 کے تحت چلے گا۔

ندیم شاہ نے کہا کہ وہ کل پشاور ہائی کورٹ میں انسداد دہشت گردی عدالت کے اس فیصلے کو چیلنج کریں گے۔ ان کے مطابق جن چھ ملزمان کے مقدمات کی سماعت آرمی کورٹس کو ریفر کرنے کا فیصلہ ہوا ہے اُن پر الزام تھا کہ انھوں مردان میں پنجاب رجمنٹ کے سامنے مجسمے کو گرایا تھا۔

یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے مسلح افواج کی کور کمانڈر کانفرنس کے بعد فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں نو مئی کے پرتشدد احتجاج کے دوران عسکری تنصیبات اور املاک کو نقصان پہنچانے میں ملوث مظاہرین کے خلاف آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کا اعلان کیا تھا۔

نو مئی کو پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد مشتعل مظاہرین نے کور کمانڈر ہاؤس لاہور، راولپنڈی میں فوج کے ہیڈکوارٹر جی ایچ کیو جبکہ پشاور اور مردان سمیت کئی دیگر شہروں میں عسکری تنصیات پر جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کی تھی۔

فوج کی جانب سے یہ فیصلہ سامنے آنے کے بعد پنجاب اور خیبرپختونخوا کے نگران وزرائے اعلیٰ نے مبینہ حملہ آوروں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کی منظوری دی تھی۔ تاہم بعض حلقے عام شہریوں یعنی سویلینز کے خلاف آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ جیسے سخت قوانین کے تحت کارروائی کی مذمت کر رہے ہیں اور وہ اسے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں۔

اس تحریر میں پڑھیے کہ آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ عام شہریوں پر کیسے لاگو ہوتے ہیں اور کارروائی کی صورت میں کیا سزائیں دی جا سکتی ہیں۔

فوجی عدالت

آرمی ایکٹ کیا ہے اور اس کے تحت عام شہریوں کے خلاف کارروائی کیسے کی جاتی ہے؟

پاکستان آرمی ایکٹ 1952 میں ان جرائم کا حوالہ دیا گیا ہے جن کا ٹرائل اس ایکٹ کے تحت اس صورت میں ہوتا ہے جب ان جرائم کا ارتکاب فوجی اہلکار کریں۔ تاہم اسی ایکٹ کے اطلاق کے حوالے سے کچھ شقوں میں یہ قانون بعض صورتوں میں عام شہریوں پر بھی نافذ ہوتا ہے۔ فوجی ایکٹ کے تحت کارروائی کی صورت میں ملزم کے خلاف ہونے والی عدالتی کارروائی کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کہا جاتا ہے اور یہ فوجی عدالت جی ایچ کیو ایجوٹنٹ جنرل (جیگ) برانچ کے زیر نگرانی کام کرتی ہے۔

اس عدالت کا صدر ایک حاضر سروس فوجی افسر(عموماً لفٹیننٹ کرنل رینک) ہوتا ہے، استغاثہ کے وکیل بھی فوجی افسر ہوتے ہیں۔ یہاں ملزمان کو وکیل رکھنے کا حق دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی ملزم پرائیویٹ وکیل رکھنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو فوجی افسر ان کی وکالت کرتے ہیں، انھیں ’فرینڈ آف دی ایکیوزڈ‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں ہونے والی کارروائی کے بعد ملزم اپیل کا حق رکھتا ہے۔

سنہ 2015 میں پاکستان کی قومی اسمبلی کے بعد ایوان بالا یعنی سینیٹ نے21 ویں آئینی ترمیم اور آرمی ایکٹ 1952 میں ترمیم کی متفقہ منظوری دی تھی۔

ان ترامیم کے تحت مندرجہ ذیل جرائم میں ملوث افراد کو آرمی ایکٹ کے تحت سزا دی جا سکے گی:

پاکستان کے خلاف جنگ کرنے والے

فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملہ کرنے والےاغوا برائے تاوان کے مجرم

غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کو مالی معاونت فراہم کرنے والے

مذہب اور فرقے کے نام پر ہتھیار اٹھانے والے

کسی دہشت گرد تنظیم کے اراکین

سول اور فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والےدھماکہ خیز مواد رکھنے یا کہیں لانے لے جانے میں ملوث افراد

دہشت اور عدم تحفظ کا ماحول پیدا کرنے والے

بیرونِ ملک سے پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے

15 مئی کو بی بی سی کی منزہ انوار سے بات کرتے ہوئے ماضی میں فوج کی جیگ برانچ سے منسلک رہنے والے کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ کے سیکشن ٹو ون ڈی میں دو ایسی شقیں موجود ہیں جن کے تحت عام شہریوں پر مقدمہ چلایا جا سکتا ہے جن میں پہلی، جاسوسی یا عسکری راز فراہم کرنا اور دوسری فوجیوں کو حکم نہ ماننے پر اکسانا یا پھر فوج کے ادارے کے خلاف اکسانا شامل ہے۔

کرنل (ر) انعام کا کہنا تھا کہ پہلی شق کے مطابق اگر کوئی شہری دشمن کو کوئی راز فراہم کرتا ہے اور اس کے ثبوت موجود ہیں تو ایف آئی آر کے اندراج کے بعد اسے گرفتار اور فوج میں اس پر مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ دوسری شق کے مطابق اگر کوئی شخص کسی کو فوجی کمان کے خلاف بغاوت، فساد برپا کرنے کے لیے اشتعال دلانے، اُکسانے یا ترغیب یا تحریک دینے کا سبب بنے تو اس صورت میں بھی فوج اس کے خلاف آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی کے تحت مقدمہ چلا سکتی ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’چاہے ایسا کسی تقریر کے ذریعے ہی کیا گیا ہو، اگر اس سے فوج کے خلاف اکسانے کا تاثر بھی ملے تو اس صورت میں بھی اس شخص کا ٹرائل کیا جا سکتا ہے۔‘

آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی کے تحت کسی بھی سویلین کا معاملہ 31 ڈی میں لا کر اس کا کورٹ مارشل کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے پہلے اس سویلین کے خلاف کسی تھانے میں مقدمہ کے اندارج اور مجسٹریٹ کی اجازت ضروری ہے۔

ان کے مطابق ’خاص کر جب فوج کو سویلین حکومت کی مدد کے لیے بلایا جائے، ان حالات میں فوج کو یہ اختیارات حاصل ہیں۔‘

خیال رہے کہ تحریکِ انصاف کے احتجاج کے دوران ہنگامہ آرائی کے تناظر میں پنجاب، خیبر پختونخوا اور اسلام آباد میں حکومت کی جانب سے امن و امان کے قیام کے لیے آئین کی شق 245 کے تحت فوج تعینات کی گئی تھی۔

کرنل (ر) انعام کا کہنا ہے چونکہ اس معاملے میں فوج کو سویلین حکومت کی مدد کے لیے بلایا گیا تھا اور جب فوج سویلین حکومت کی مدد کو آئے اس صورت میں فوج کو لا اینڈ آرڈر کے لیے کچھ اضافی اختیارات بھی مل جاتے ہیں۔

court

کیا سیکشن ٹو ون ڈی کے تحت دی گئی سزاؤں کو عدالتوں میں چیلنج کیا جا سکتا ہے؟

کرنل (ر) انعام کا کہنا ہے سیکشن ٹو ون ڈی میں پروسیجر فالو کرنا لازم ہو گا، یعنی ایف آر درج کرنے سے لے کر ثبوتوں کی موجودگی اور آرٹیکل 10 (اے) کے تحت ملزمان کو فیئر ٹرائل کا حق بھی حاصل ہونا چاہیے اور اگر پروسیجر فالو نہیں ہوتا تو اسے ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے کہ اگر ملک میں جوڈیشل سسٹم چل رہا ہو تو سویلینز کے مقدمات کو سول کورٹ میں بھیجے جانے کو ترجیح دی جانی چاہیے۔

کرنل (ر) انعام کہتے ہیں کہ یہاں یہ اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہے کہ ٹرائل ملٹری کورٹس کے ذریعے ہو گا یا سویلین عدالت کے ذریعے۔ اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ وہ جوڈیشل سسٹم صحیح طرح کام نہیں کر رہا تو وہ مقدمات ملٹری کورٹس کو بھجوا سکتی ہے۔

ایسے مقدمات کو چیلنج کرنے کے حوالے سے مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ جن تین سویلنز کو سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے دور میں سزائے موت دی گئی تھی انھیں ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا کیونکہ ان کے خلاف نہ تو ایف آئی آر درج تھی نہ انھیں کونسل تک رسائی دی گئی اور آرٹیکل 10 (اے) کے تحت یہ دونوں لازم ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments