ماورائے شعور معاشرہ


رہنما اور عوام کسی بھی معاشرے کے دو بنیادی جزو ہیں۔ ایک فلاحی معاشرے کا قیام یقینی بنانے کے لئے دونوں کا با شعور ہونا ضروری ہے۔ فہم و فراست سے عاری رہنما اور بے شعور عوام ہر قسم کے معاشرے کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ قوموں کی ذہن سازی میں رہنما طبقہ ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ قابل عمل طریقہ رہنمائی قوموں کے مستقبل میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر رہنما قوموں کو صحیح راستے پر چلانے کی صلاحیت رکھتے ہوں تو قومیں اپنی منزل مقصود پر پہنچ جاتی ہیں۔

اس کے بر عکس اگر رہنما شخصیات قوم کو غلط راستے پر ڈال دیں تو ساری قربانیاں رائیگاں جاتی ہیں اور قوم تباہی کے گڑھے میں جا گرتی ہے۔ اس لئے رہنمائی کے میدان میں صرف اس شخص کو اترنا چاہیے جو دین کا علم کا رکھتا ہو، جس کی سیاسی تاریخ پر گرفت ہو، جو موجودہ حالات پر گہری نظر رکھتا ہو، جس کو بیرونی دنیا سے متعلق خوب آگاہی ہو، قوم کی معاشی، معاشرتی، اور اخلاقی حالت سے بخوبی واقف ہو اور سب سے بڑھ کر ملک و قوم کو بحرانوں سے نکالنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہو۔

اسی طرح باشعور افراد باکردار رہنماؤں کے شانہ بشانہ ریاست کی ترقی اور عوامی فلاح و بہبود میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ اعلیٰ ذہنی صلاحیت کے مالک اور دلائل و حقائق سے کام لینے والے لوگ کسی بھی معاشرے کے بہترین مفاد میں ہوتے ہیں۔ عوام الناس میں شعوری پختگی، انصاف اور خیر خواہی کی روش، اجتماعیت، مثبت سوچ اور عقلی استدلال کا نہ ہونا معاشرے میں ہر طرح کی پستی و تنزلی کا باعث ہے۔ بدقسمتی سے ہم اس معاشرے کا حصہ ہیں جہاں سچ کی کوئی اہمیت نہیں، جہاں دلائل کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور جہاں علمی بحث و مباحثہ کی بجائے شر انگیزی، فتنہ پردازی اور دشنام طرازی کا راج ہو۔

ایسا معاشرہ جس میں فکری اعتدال کا نام و نشان نہ ہو، جہاں لوگ ناموافق پراپیگنڈہ اور سازشی عناصر کے زیر اثر ہوں اور جہاں نفاق کو اتفاق و اتحاد پر برتری حاصل ہو۔ مولانا وحیدالدین فرماتے ہیں کہ معاشرے میں اتحاد ہمیشہ زیر اتحاد افراد کی قربانیوں سے قائم ہوتا ہے۔ رائے کی قربانی، مفادات کی قربانی، خود کو پیچھے کر لینے کی قربانی اور اپنے اختلافات ختم کرنے کی قربانی لیکن اس کے لئے ایک مربوط اور موثر ذہن سازی کی ضرورت ہے۔

گوسٹو لی بون لکھتا ہے کہ عوام میں سچائی کی پیاس بہت کم ہوتی ہے۔ وہ ایسے حقائق اور شواہد سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں جو ان کے مزاج کے مطابق نہیں ہوتے۔ اگر غلطی انہیں بہکا دے تو غلطی پر ڈٹ جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جو بھی انہیں وہم اور خوف میں مبتلا کر سکتا ہے وہ آسانی سے ان کے مفادات کا مالک بن سکتا ہے۔ اور جو بھی لوگوں کے وہم اور خوف کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ ہمیشہ ان کا شکار ہوتا ہے۔ ہجوم میں ایک فرد ریت کے دوسرے ذروں کے درمیان ریت کا ایک دانہ ہوتا ہے، جسے ہوا اپنی مرضی سے ہلاتی ہے۔

ملکی حالات متقاضی ہیں کہ عوام الناس میں شعور اجاگر کرنے کے لئے کثیر سطحی تحریکوں کا آغاز کیا جائے۔ اندریں بالا ضروری ہے کہ ایسی کوششیں کی جائیں جو دو طرفہ تقاضوں کو پورا کر سکیں، عوام اور خواص میں باہمی ربط پیدا کریں، جس سے حکمرانوں اور عوام الناس میں حقائق کو پرکھنے کی صلاحیت پید اہو سکے اور معاشرتی بگاڑ کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔ معاشرے میں غیر ضروری بحث و مباحثہ اور متعصبانہ سوچ کا خاتمہ انتہائی ضروری ہو چکا ہے۔

ملکی سطح پر کسی بھی مقصد میں کامیابی اعلیٰ صلاحیت کے حامل حکمران اور باشعور افراد کے موثر ربط پر منحصر ہے۔ ملک میں عشروں سے جاری سیاسی بد حالی اور عدم استحکام کے خاتمے کے لیے گہرے غور و فکر کی ضرورت ہے۔ حقائق کو گہرائی تک سمجھنے کے لئے عوام کی پختہ ذہن سازی کی جائے اور انھیں اس قابل بنایا جائے کہ وہ غیر متعصب ہو کر سیاسی اور معاشرتی استحکام کے لئے کام کر سکیں۔ ان کا فکری انداز سیاسی پسند اور ناپسند سے بالا تر ہو اور وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے خود کو اور معاشرے کو سدھار سکیں۔

نوجوان نسل کو چاہیے کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت یا شخصیت کی اندھی تقلید کی بجائے بہترین فکری انداز اپنائیں اور حقائق کی روشنی میں اپنی پسند ناپسند کا فیصلہ کریں۔ اختلافی سیاست دلائل پر مبنی ہونی چاہیے اور سیاسی اختلافات میں اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا جائے۔ اسی طرح حکمران طبقے پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ آئینی اور سیاسی اداروں میں بہتری کے حوالے سے آئینی اصلاحات متعارف کروائیں نہ کہ تشدد کا راستہ اپنایا جائے۔

نوجوان نسل کو جدید علوم کے ساتھ ساتھ تہذیبی و تمدنی ترقی اور علوم و فنون سے بہرہ مند کیا جائے تاکہ وہ معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا کر سکیں۔ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں لوگوں کی تعلیم و تربیت آسان ہو چکی ہے بشرطیکہ اس سے متعلق ایک مربوط اور نتیجہ خیز پالیسی ترتیب دی جائے۔ ملک میں تعمیری طرز سیاست پروان چڑھایا جائے۔ تاریخی تجربے سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ماضی کی غلطیاں جو کہ ہماری اشرافیہ آج بھی دہرا رہی ہے سے اجتناب کیا جائے۔ ہمارا ملک مزید سیاسی بدحالی اور معاشرتی بدنظمی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اگر ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لئے سنجیدہ کوششیں نہ کی گئیں تو اس کا بار ہماری آنے والی نسلیں اٹھائیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments