مولانا طارق جمیل یا دیگر روحانی پیشواؤں کے اکاؤنٹ ہمیشہ بھرے کیوں رہتے ہیں؟


کبھی کبھی ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ خوف کا دھندا کرنے والے خود خوف سے بے نیاز کیوں ہو جاتے ہیں؟
دنیا کو مردار کہنے کی تسبیح پڑھنے والے ”بزنس ٹائیکون“ کیسے بن جاتے ہیں؟

مذہبی پیشوا ہونے کی حیثیت سے ان میں ایسی کون سی ”اوتاری شکتی“ آ جاتی ہے جو ان کے اکاؤنٹ کو سیراب کیے رکھتی ہے اور اس میں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی بھی ہوتی رہتی ہے؟

کچھ تو ایسا ہے جو ہم ایسوں کی نظروں سے اوجھل ہے یا ہماری سمجھ بوجھ سے ماورا ہے، خوف اور ڈر کی راہداریوں میں کچھ تو ایسا ہے جو ہمارے فہم کے ریڈار کی پکڑ میں نہیں آ تا۔

مولانا طارق جمیل کے اکاؤنٹ کے چرچے، ہاؤسنگ سوسائٹیز کی کہانیاں اکثر و بیشتر زبان زد عام رہتی ہیں اور مولانا صاحب انتہائی عاجزی و انکساری سے اس قسم کے اسکینڈلز کی تردید کرتے رہتے ہیں۔ کون جانے اندر کی کہانی کیا ہے اور کسے جرات کہ وہ مولانا کے ذرائع آ مدن کی پڑتال کرسکے؟

پڑتال ہو بھی گئی اور انچاس کروڑ نکل بھی آئے تو مولانا صاحب تو انتہائی بھولپن سے کہہ دیں گے کہ

”میں انٹرنیشنل پرسنیلٹی ہوں اور لوگ مجھے نذرانے یا ہدیے وغیرہ بھیجتے رہتے ہیں، میرے لیے تو یہ سب روٹین کی باتیں ہیں اور کبھی کچھ بھی دل سے نہیں لگاتا۔ چونکہ میں جدی پشتی امیر زادہ ہوں مجھے کیا لالچ ہو سکتا ہے“ ؟

تو پھر جناب آپ کیا کر لیں گے؟ ظاہر ہے اعتماد کرنا پڑے گا وہ کوئی عام انسان تھوڑے ہیں بھلے بندو! خاص الخاص بھی تو انہی کے گرویدہ و عاشق ہیں۔ جو بندہ بڑے بڑوں کی آس ہوتا ہے اور مشکل کی گھڑی میں مسیحا بن کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہو اسے بھلا میلی آ نکھ سے دیکھنے کی کون جرات کر سکتا ہے اور کس میں اتنی تاب ہے؟

جو بندہ سسٹم کا جانکار ہو اسے بھلا کون مات دے سکتا ہے؟

جو طاقت کے سارے ”گر“ جانتا ہو اور معاشرتی تقاضوں و پارسائی کے سارے انداز جانتا ہو اس کے علاوہ معاشرے کا نبض و رمز شناس ہو ایسے مہان سے بھلا کون پنگا لینے کی جرات کر سکتا ہے جناب؟

اس قسم کے بندے بلا کے کاریگر اور چوکس دماغ ہوتے ہیں اور انہیں بڑے اچھے سے پتا ہوتا ہے کہ سامنے والے بندے یا بندوں کو اپنے تقدسی آئینے میں کیسے اور کس وقت اتارنا ہے۔ اسی لیے تو ”منبر و محراب اور مائیک“ کے ذریعے سے لوگوں کے دل و دماغ میں گھس جاتے ہیں اور انہیں احساس گناہ میں مبتلا کر کے خود کے لیے ”حسین و جمیل دنیا“ ڈھونڈنے نکل پڑتے ہیں۔

ہم ان اصحاب کے دنیا سے بے رغبتی والے نعروں و منشور پر ضرور بھروسا کر لیتے اگر ہمیں ایک باون سالہ شخص کے بالوں میں سیاہ کلر کی بجائے اوریجنل ”سفیدی“ دکھ جاتی۔

اگر دنیا کی چمک دمک فضول و لایعنی اور مقصد حصول آخرت و جنت ہے تو پھر آرٹیفیشیلٹی کیسی اور بالوں میں کلر کا تکلف کیسا؟

”دنیا بالکل نہیں چاہیے اور ساتھ میں پوری شان و شوکت کے ساتھ چاہیے بھی“ یہ تو پھر آ کسی مورون یا کھلا تضاد ہوا۔ آپ کی ذاتی زندگی ہے جو مرضی کریں ہمیں کیا؟

کم از کم اتنا تو ہو جائے کہ ہمارے لیے بھی کوئی گنجائش نکل آئے اور ہمیں بھی معاشی آ زادیاں و فراوانی نصیب ہو جنہیں آپ بے رغبتی و بے اعتنائی کے نام پر بھرپور طریقے سے انجوائے کرتے ہیں۔

آپ کے بے خوف اور با اعتماد ہونے کے پیچھے آ خر کہانی کیا ہے؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کو یقین ہو چلا ہو کہ جو کچھ بھی ہے اسی دنیا میں ہے آ گے کے راز کون جانے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments