تحریک خلافت میں انسانوں کا بحر بیکراں


 

ہم سب سے پہلے سارے جہانوں کے رب کا شکر بجا لاتے ہیں جس نے کمال اتاترک کی سیکولر فورس اور اسلام دشمن علاقائی اور عالمی طاقتوں کی سرتوڑ کوشش کے مقابلے میں جناب طیب ایردگان کو تاریخ ساز کامیابی عطا کی۔ اس کامیابی پر پرجوش ترک عوام اور پوری امت مسلمہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ہمیں قوی امید ہے کہ عالمی امور پر اثرانداز ہونے کی زبردست صلاحیت رکھنے والے ہمارے عہد کے بلند قامت رہنما پوری تندہی سے اپنا مشن جاری رکھیں گے۔ ان کی جہد مسلسل کا تعلق ایک صدی پہلے تحریک خلافت سے قائم ہے۔

تحریک خلافت 1919 ء میں پورے جوبن پر تھی کہ ہندوستان کے مسلمان اتحادیوں کے ہاتھوں ترکی پر ہونے والے مظالم سے بلبلا اٹھے تھے۔ دراصل اس تحریک کا آغاز اگست 1913 ء ہی میں ”مقتل کانپور“ سے ہو چکا تھا۔ واقعہ یہ پیش آیا تھا کہ حکومت نے مسلمانوں کو اعتماد میں لیے بغیر مچھلی بازار کانپور کی مسجد کا ایک حصہ منہدم کر ڈالا اور معاملے کو سلجھانے کے بجائے مظاہرین پر گولیوں کی بارش کر دی تھی۔ نتیجے میں سینکڑوں مسلمان شہید اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ اس قتل عام پر مولانا محمد علی جوہرؔ ایک وفد لے کر انگلستان گئے، مگر ان پر یہ حقیقت کھلی کہ برطانوی شہنشاہیت کے کان بہرے ہیں اور وہ کلمۂ حق سننے کے لیے تیار نہیں۔

انہی دنوں اشتعال انگیزی کا ایک اور واقعہ اسلامیان ہند کی زندگی میں غیرمعمولی ہیجان پیدا کرتا رہا۔ اسلامی دنیا میں صرف برصغیر کے مسلمان مغربی زبانوں سے بہرہ ور تھے اور مغربی حکومتوں کی استعماری چالوں کو خوب سمجھتے تھے۔ انہی دنوں شاعر مشرق محمد اقبال کے جذبات ملی سے سرشار نظموں سے ہندوستان کی فضا گونج رہی تھی جبکہ خلافت عثمانیہ پر چاروں طرف سے دشمنوں کی یلغار قیامت ڈھا رہی تھی۔ یورپی حکومتیں اس کے حصے بخرے کرنے پر تلی ہوئی تھیں۔

ان حوادث کی چوٹ براہ راست اسلامیان ہند اپنے سینوں میں محسوس کر رہے تھے اور ان پر شدید جذباتی کیفیت طاری تھی۔ انہی دنوں سقوط قسطنطنیہ کی خبر آ گئی جس نے دردمند مسلمانوں کا اضطراب لامحدود کر دیا تھا، چنانچہ مدراس میں 17 جنوری اور لکھنؤ میں 26 جنوری 1919 ء کے اجلاس میں خلافت کمیٹیاں قائم ہوئیں اور یوں ساٹھ سال بعد علمائے کرام سیاست میں پوری قوت سے داخل ہوتے گئے۔

ہندوستان کے مسلمانوں نے ترکوں کی امداد کے لیے انجمن ہلال احمر قائم کی جس میں عورتیں زیورات اور مرد مکانات فروخت کر کے رقوم چندے میں دیتے رہے۔ حالات کی سنگینی کے پیش نظر حکیم اجمل خاں کی دعوت پر قوم کے زعما دہلی میں جمع ہوئے اور اس اجلاس میں ’جمعیت علمائے ہند‘ کی بنیاد رکھی گئی۔ اس کے صدر مفتی کفایت اللہ اور سیکرٹری مولوی محمد سعید دہلوی منتخب ہوئے۔ ہندوستان کے گوشے گوشے تک خلافت کا پیغام پہنچانے کے لیے بڑے پیمانے پر مرکزی اور صوبائی شہروں میں خلافت کمیٹی کی شاخیں قائم ہوئیں اور اس کے بعد بڑی بڑی کانفرنسوں کا سلسلہ چل نکلا۔

پہلی آل انڈیا خلافت کانفرنس کا اہتمام کراچی ( 25 جولائی 1920 ء) میں ہوا جس میں مولانا شوکت علی اور گاندھی جی بھی شریک ہوئے۔ ان کانفرنسوں میں علما اور مقررین خطابت کے جوہر دکھا رہے تھے اور عوام کے اندر جوش اور ولولے پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ انگریزوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکا رہے تھے۔ یوں ترک عوام کی حمایت میں ہند کے مسلمانوں کا ایک سمندر امڈ آیا تھا۔ علی برادران کی والدہ ’بی اماں‘ نے پالکی میں بیٹھ کر پورے ہندوستان کا دورہ کیا اور خواتین کے جذبات میں ایک طوفان اٹھا دیا تھا۔

دوسری آل انڈیا خلافت کانفرنس کا اجلاس امرتسر میں ہونا طے پایا۔ تمام اہم سیاسی جماعتوں نے 1پریل 1919 ء میں اپنے سالانہ اجلاس اسی شہر میں رکھ لیے۔ چار سال کی نظربندی کاٹ کر مولانا شوکت علی سیدھے امرتسر پہنچے جہاں قوم کے عمائدین جمع ہو رہے تھے۔ علی برادران کی رہائی کی خبر سن کر علامہ اقبال کار کے ذریعے امرتسر آئے اور علی برادران کی عظمت اسیری پر جلسۂ عام میں اشعار پڑھے۔ سیاسی جماعتوں کا ایسا عظیم الشان اجتماع پھر چشم فلک نے نہیں دیکھا۔

امرتسر کے اجلاسوں میں ہندو مسلم اتحاد بے مثال تھا۔ پہلی بار انہوں نے ایک ہی برتن میں پانی پیا اور کھانا کھایا۔ اس فضا میں خلافت کمیٹی کے پہلے اجلاس میں سوامی شردھانند جیسا متعصب مہاسبھائی لیڈر شریک ہوا اور اس سے جامع مسجد دہلی کے منبر پر بٹھا کے تقریر کروائی گئی۔ مفاہمت کے اسی جذبے کے تحت عید قرباں کے موقع پر سارے شہر دہلی نے گائے کی قربانی نہیں کی۔

مارچ 1920 ء کے اوائل میں طے شدہ پروگرام کے مطابق تحفظ خلافت کے سلسلے میں مولانا محمد علی جوہرؔ، سید حسین اور سید سلیمان ندوی پر مشتمل ایک وفد یورپ روانہ ہوا۔ برطانوی وزیراعظم کا جواب حد درجہ مایوس کن تھا۔ اس پر ہندوستان کے اندر سخت برہمی اور بغاوت کے آثار دیکھنے میں آئے اور پورے ملک میں یوم سیاہ بڑے جوش و جذبے سے منایا گیا۔ اس موقع پر مولانا ابوالکلام آزادؔ اور مولانا محمد علی جوہرؔ نے اپنے خون گرما دینے والے مضامین کے ذریعے غلام ہندوستان سے ہجرت کرنے کا پروگرام ترتیب دیا۔ تحریک خلافت اور تحریک ترک موالات نے ملکی فضا انقلابی اقدامات کے لیے پوری طرح ہموار کر دی تھی۔

تحریک ہجرت کے ایک فریق ہندی مسلمان تھے جو ہجرت کرنے کے لیے حد درجہ بے تاب تھے۔ دوسرا فریق افغانستان کی حکومت تھی جو مہاجرین کو اپنے ہاں اس بنا پر قبول کرنے پر آمادہ ہو گئی تھی کہ اس طرح وہ حکومت برطانیہ پر دباؤ ڈال کر اپنے مطالبات منوا لے گی۔ امیر امان اللہ خاں والی افغانستان نے ہندوستان کے مسلمانوں کو اپنے ہاں آنے کی اجازت دے دی، مگر اتنی بڑی آبادی کا بار اٹھانے کی اس کی حکومت میں سکت نہیں تھی۔ ساٹھ ہزار سے زائد لوگ اپنے مکان بیچ کر افغانستان کی جانب روانہ ہو چکے تھے، مگر مختلف اسباب کی بنا پر افغانستان نے 13 ؍اگست 1920 ء کو اپنی سرحدیں یک لخت بند کر دیں۔ جو لوگ کابل پہنچ گئے تھے، وہ بے روزگاری اور عدم تعاون کی وجہ سے سخت بدحالی اور پریشانی میں واپس آ گئے۔ اس ہجرت میں ہزاروں گھر اجڑ گئے تھے، مگر اس مہم نے انگریزوں کے خلاف جدوجہد کے نئے راستے کھول دیے تھے جبکہ برطانیہ کا امیج عالمی برادری میں بری طرح مجروح ہوا تھا۔ (جاری ہے )

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments