گرما کی چھٹیاں


سکول جانا تو عذاب ہی لگتا تھا۔ صبح سویرے چڑیا کی پہلی چوں چوں کے ساتھ اٹھو، آنکھیں ملتے لڑکھڑاتے مسجد میں سیپارہ پڑھنے جاؤ، ناشتہ کر کے بوجھل دل سے سکول جاؤ، دن بھر ڈنڈے، ٹھڈے اور تھپڑوں کے سائے میں گزارو، بات کرنے یا ہنسنے پہ مرغا بنو اور دن ڈھلے گھر واپس آؤ۔

کون کافر یہ پسند کرے گا سب کچھ۔

سکول لائف میں بس ایک ہی آرزو ہوتی تھی۔ دل نے اور کچھ کبھی مانگا ہی نہیں تھا۔ رب سے بس ایک ہی دعا مانگتے تھے۔ ’چھٹی‘ ۔

روز چھٹی کے وقت ہم پرائمری سکول کے صحن میں، نیم کے پیڑ کے نیچے بچھی اپنی اپنی کھاد کی بوری لپیٹتے، دامن جھاڑتے، دھول اڑاتے سکول سے باہر کی طرف دوڑ لگاتے اور ایک فلک شگاف نعرہ بلند کرتے۔ چھٹی ی ی ای ای۔

اتنی خوشی ہوتی تھی کہ بیاں کیوں کر ہو۔

پھر ہفتے میں ایک پوری چھٹی ہوتی تھی اور ایک آدھی۔ جمعرات کو تفریح (بریک) کے وقت چھٹی ہو جاتی تھی اور جمعہ کے دن سکول بند رہتا تھا۔ جمعرات کو سکول میں آخری پل ہمارے جیون کے حسین ترین لمحوں میں شامل ہوتے تھے۔ جمعرات کو جب چھٹی کی گھنٹی بجتی تھی تو جیون گل و گلزار ہو جاتا۔ ٹن ٹن ٹن میں کتنی خوشی بھری ہوتی تھی۔ لگتا جیسے گھنٹی پائل باندھے ناچ رہی ہو۔ اس دن چھٹی کے وقت کا نعرہ اور ہو ہا کا شور فلک میں شگاف ڈال کر کہیں آگے نکل جاتا۔

ہفتے کے روز جب صبح تڑکے اٹھتے تو دل دانوں سے بھری ڈھائی من کی بوری سا بھاری ہو جاتا۔ بوجھل بوجھل، بجھا بجھا سا۔ جمعرات کی دوپہر کو دل کا جو چراغ روشن ہوا تھا وہ ہفتے کی صبح آنکھ کھلتے ہی بھک سے بجھ جاتا۔ پورے چھ دن لگاتار سکول جانا پڑے گا۔ جیون بگھیا میں خود رو جڑی بوٹیاں اگ آتیں۔

عید، بقر عید، یا دیگر مخصوص دنوں کی چھٹیوں کا انتظار رہتا تھا۔ دن گنتے تھے۔ وہ چھٹیاں آ بھی جاتیں۔ من گلزار بھی ہو جاتے۔ لیکن ایسے تیزی سے گزر جاتیں جیسے ہم سے کوئی بیر ہو۔ بس یہ جا اور وہ جا۔ پھر وہی اسمبلی، ٹاٹ بوری، سبق، سلیٹ، تختی، پہاڑے، رٹے۔ ڈنڈے برستے اور ہم مرغے بن کر اپنی رہائی کا انتظار کرتے رہتے۔

ہاں ایسا نہیں تھا کہ سکول میں اچھے پل نہیں آتے تھے۔ ضرور آتے تھے۔ جب ہم آپس میں باتیں کرتے۔ کاغذ کی کشتی اور جہاز بناتے۔ سلیٹ پہ عجب غضب اشکال بنا کر ہنستے رہتے۔ چپکے سے کسی کے کان پر ٹھونگا لگا کر کام میں مگن ہو جاتے۔ پہیلیاں پوچھتے۔ پتوں، نمکولیوں اور سوکھے تنکوں سے گھر بناتے۔ تفریح کے وقت بھاگتے دوڑتے۔ آنکھ مچولی کھیلتے۔ تفریح کے وقفے میں گھر جا کر اچار یا چینی سے ٹھنڈا پراٹھا کھا آتے۔

یہ سب بھی نا ہوتا سکول میں تو وقت نا گزر پاتا۔
کبھی کبھی غیر متوقع چھٹی بھی آ جاتی۔ کبھی کبھار۔ عید کے چاند سی جب بھی چھٹی آتی ہماری عید ہو جاتی۔

چھٹی خواہ کسی ناگہانی آفت کی وجہ سے ہوتی ہماری خوشی آسمان سے چھونے لگتی۔ دنیا جائے بھاڑ میں، قیامت آ جائے، ہمیں چھٹی ملی تو بس پھر سب کچھ اچھا لگنے لگتا۔ قیامت بھی بھلی لگتی۔

آج بھی بچوں کے سکول کے بارے میں جذبات کچھ بدلے نہیں ہیں۔ ایک دن بیٹی سکول جانے کے لیے اٹھی تو کہنے لگی

’پاپا میں نے ایک خواب دیکھا ہے۔ دنیا میں جنگ لگ گئی ہے اور دنیا کے سبھی سکول تباہ ہو گئے ہیں بمباری میں‘ ۔

ہائی سکول میں ہم پڑھتے تھے۔ ساتھ ہی سکول کے پہلو میں بوٹی والا کھوہ ہے۔ بوٹی والے کھوہ کے ساتھ ہی کھلے اور بنجر میدان میں کتوں کی لڑائی تھی۔ سکول میں آدھی چھٹی کر دی گئی تھی۔ آپ کو شاید ’کتوں کی لڑائی‘ ، اس کی نمائش اور پھر سکول میں چھٹی سب عجیب لگے۔ لیکن خدا کی قسم اس دن ہمیں بہت خوشی ہوئی تھی۔ سچی۔

ہم آٹھویں یا نویں جماعت میں ہوں گے۔ چھٹی سے پندرہ منٹ پہلے ہی بستے باندھ کر دفتر کے دروازے پہ لگے اکلوتے ٹائم پیس پر نظریں جما لیتے۔ کلاس روم کے دروازے سے باہر جھانک جھانک کر گھڑی دیکھتے رہتے۔ ایک دن کسی لڑکے نے چپڑاسی اور اساتذہ کی نظروں سے بچتے بچاتے وال کلاک کا ٹائم پانچ منٹ آگے کر دیا۔ گھڑی کی سوئی پانچ منٹ پہلے ہی چھٹی کے وقت پر جا پہنچی۔ چپڑاسی نے کلاک پر نظر ڈالی اور گھنٹی بجا دی۔ پانچ منٹ پہلے کی چھٹی کی خوشی اتنی ہوئی کہ مت پوچھئیے۔ آج بھی وہ دن یاد ہے۔ خوشی کے دن یاد رہ جاتے ہیں۔

دسمبر کی چھٹیوں کی بات ہی کچھ اور تھی۔ ہر سو کھیتوں میں گندم کی فصل اپنی ہری ہری چادر بچھا دیتی۔ سرسوں کے پھول دھند اور قہر میں بھی کھلنے لگتے۔ چوبیس دسمبر کو جب چھٹیاں ہوتیں تو ہمارے من کے کھیتوں میں بھی دنیا کے سارے پھول ایک ساتھ کھل جاتے۔ چوبیس سے اکتیس دسمبر تک سردی کی آٹھ چھٹیاں۔

دسمبر کی انہی چھٹیوں میں سکول کے گراؤنڈ میں کرکٹ ٹورنامنٹ ہوتا۔ بابا فرید کرکٹ ٹورنامنٹ۔ آس پاس سب دیہاتوں کی ٹیمیں کھیلنے آتیں۔ کمنٹری کے لیے اسپیکر لگ جاتا جس میں گانے اور قوالیاں بھی بجتے رہتے۔ گاؤں کے سب لوگ حقے پخا کر لے آتے، دھوپ سینکتے، گپ لگاتے، گڑ گڑ حقہ پیتے، میچ دیکھتے اور کھلاڑیوں کو آوازیں کستے۔ ہم لڑکے بالے سکول کے ساتھ اپنی الگ کرکٹ کا میلا سجا لیتے۔ پھیری والے آ جاتے۔ دین محمد کے گرما گرم سموسوں کی خوشبو بھوک بڑھا دیتی۔

مزے کے دن ہوتے۔ پل بھر میں بیت جاتے۔ یکم جنوری کو منہ لٹکائے، بستے اٹھائے پھر سکول کو جا رہے ہوتے۔ قدم کم بخت ڈھائی ڈھائی من کے ہو جاتے۔

سب سے اعلی، بہترین اور ’اصلی‘ چھٹیاں تو پھر گرمی کی چھٹیاں تھیں۔ ان کے سامنے باقی سب چھٹیاں ہیچ تھیں۔ تین مہینے کی چھٹیاں۔ واہ واہ۔ ناقابل یقین۔ ان چھٹیوں کے سہارے ہم باقی سال بھی گزار لیتے تھے۔ ایک ایک مہینہ، ایک ایک ہفتہ، پھر ایک ایک دن گن گن کر ہم ان خوب صورت دنوں تک پہنچا کرتے۔ آخر وہ دن آ پہنچتا جب گرمی کی چھٹیاں ہو جاتیں۔ استاد ہمیں ڈھیر سارا کام دیتے جو چھٹیوں میں مکمل کرنا ہوتا تھا۔ صفحہ نمبر فلاں سے فلاں تک لکھنا اور یاد کرنا۔

فلاں فلاں چیز دس دس بار لکھنی ہے۔ ہر مضمون کا بہت سارا کام ملتا۔ لیکن اس دن ہمیں پرواہ نہیں ہوتی تھی۔ ہم سوچتے خواہ ہمیں بنجر زمین پہ ہل چلانے کا کام سونپ دیں، خواہ پکی زمین پہ کنواں کھودنے کا کہہ دیں یا آسمان سر پر اٹھانے کا کام دے دیں ہم وہ بھی کر لیں گے۔ تین مہینے کی چھٹیوں میں بندہ کیا کیا نہیں کر سکتا۔

ہم چھٹیاں گزارنے کے منصوبے بناتے۔ سکول کا کام روزانہ باقاعدگی سے کیا کریں گے۔ غلیل بنا کر چڑیوں کا شکار کریں گے۔ نہری نالے پہ نہایا کریں گے۔ گگڑیں تو روز کھیلا کریں گے اور سگریٹ کی خالی ڈبیوں سے بنائے پتے بھی کھیلا کریں گے۔ ساون کی برستی گھٹاؤں میں نیم کی نمکولیاں کھایا کریں گے۔ سہ پہر سے سورج ڈوبنے تک سکول کے صحن میں گیند بلا کھیلا کریں گے۔ بابا ابو سمند، بابا موہل بادشاہ، بابا عبداللہ شاہ، ہری وال اور باگھے والے میلوں پہ جائیں گے۔ آم کھائیں گے، فالودہ شربت پئیں گے۔ جلیبی اڑائیں گے۔ وغیرہ وغیرہ

من کی دھرتی پہ کتنی ہی آشائیں اگ آتی تھیں۔

گرما کی چھٹیوں پر سکول کی گھنٹی بچے مست ہو کر بجاتے تھے۔ ٹن ٹن جو شروع ہوتی تو رکنے کا نام نا لیتی۔ ایسے لگتا کہ گھنٹی نے دھمال ڈال لی ہے اور تب تک جھومتی ناچتی رہے گی جب تک ہوش نا کھو دے۔ سکول سے چھٹی کی گھنٹی بجتی تو ہمارے نعرے اتنے بلند ہوتے کہ نیلے آسمان تو کہیں نیچے گہرائیوں میں رہ جاتے۔ گونج پورے گاؤں میں گونج اٹھتی۔ نیم کی شاخوں میں دبکے کوے اور کوئلیں ڈر کر اڑ جاتیں، مسجد کے مینار پہ بیٹھے جنگلی کبوتر پھرر سے اڑ کر پانی کی ٹینکی پر جا بیٹھتے، طوطے چاچا خالق کے امرودوں کے باغ سے اڑ کر کہیں دور چلے جاتے، چڑیاں ایک دم جاگ جاتیں۔ کوے آسمان میں کائیں کائیں کرتے اڑتے رہتے۔ اور سکول کے سبھی بچوں کے من ان کووں سے اوپر، سفید بادلوں کے گالوں سے پرے، آسمان سے بھی ذرا آگے ستاروں میں کہیں خوشی سے اڑ رہے ہوتے۔

احمد نعیم چشتی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد نعیم چشتی

احمد نعیم چشتی درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ سادہ اور چھوٹے جملوں میں بات کہتے ہیں۔ کائنات اور زندگی کو انگشت بدنداں تکتے رہتے ہیں۔ ذہن میں اتنے سوال ہیں جتنے کائنات میں ستارے۔ شومئی قسمت جواب کی تلاش میں خاک چھانتے مزید سوالوں سے دامن بھر لیا ہے۔

ahmad-naeem-chishti has 77 posts and counting.See all posts by ahmad-naeem-chishti

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments