نئی کنگز پارٹی کا قیام : کیا پاکستان میں کبھی کچھ تبدیل ہو گا؟


جہانگیر ترین کی قیادت میں علیم خان اور دیگر سیاسی زعما نے مل کر استحکام پاکستان پارٹی بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اس موقع پر لاہور کے ایک ہوٹل میں میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے جہانگیر ترین نے کہا کہ ملک کی ترقی میں حصہ ڈالنے اور موجودہ نازک حالات سے نمٹنے کے لئے نئی پارٹی قائم کی گئی ہے۔ ہم سب قومی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔

نئی سیاسی پارٹی کا منشور یا اس کے لیڈر کا نام اور انتظامی ڈھانچہ تو سامنے نہیں آیا لیکن جس سیاسی جوڑ توڑ یا تحریک کے نتیجے میں استحکام پاکستان پارٹی قائم کی گئی ہے، اس سے اس گروہ بندی کے اغراض و مقاصد کسی سے پوشیدہ نہیں رہیں گے۔ نئی پارٹی عمران خان کے پرانے دوست اور تحریک انصاف میں الیکٹ ایبلز کو جمع کرنے کی شہرت رکھنے والے جہانگیر ترین کی کوششوں سے قائم ہوئی ہے۔ اس میں تحریک انصاف چھوڑنے والے بیشتر لیڈروں نے شمولیت اختیار کی ہے۔ ابتدائی مقاصد علیم خان کے الفاظ میں یہ ہیں : ’ہم ایسا پاکستان بنائیں گے جہاں پارلیمان، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہوں گے‘ ۔

اسی ایک فقرے سے اس گروہ میں شامل لوگوں کی جمہوریت اور آئین پاکستان سے شناسائی کا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے۔ ملک میں سیاسی پارٹیاں نجی مفادات کے تحفظ اور اسٹبلشمنٹ کی خوشنودی کے لئے قائم کی جاتی ہیں۔ تحریک انصاف گو کہ عمران خان کی انفرادی خواہش کی وجہ سے قائم کی گئی تھی لیکن اسے بھی ’حقیقی‘ پارٹی کی حیثیت اسی وقت حاصل ہو سکی تھی جب عمران خان کو اسٹبلشمنٹ کی آشیر واد حاصل ہوئی اور انہیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے مقابل کھڑا کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ استحکام پاکستان پارٹی کے قیام میں براہ راست اسٹبلشمنٹ ملوث ہے لیکن اس میں شامل عناصر ملکی اسٹبلشمنٹ کے پرانے شناسا اور وفادار ہیں۔ ان عناصر کا جو ایجنڈا تحریک انصاف میں شمولیت کے وقت تھا، وہ اب بھی اسی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ یعنی ملکی فوج کی سیاسی بالادستی کو قبول کر کے اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لئے کام کرنا۔ اب بھی اس گروہ کا یہی مقصد نمایاں ہے۔ اس لئے اگر اسٹبلشمنٹ اپنی دیگر پریشانیوں اور مصروفیات کی وجہ سے براہ راست استحکام پاکستان پارٹی، قائم کرنے میں ملوث نہ بھی ہو، پھر بھی اسے جمع خاطر رکھنی چاہیے کہ اسٹبلشمنٹ کے وفادار عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے خلاف ’کفن سروں سے باندھ کر‘ میدان میں نکل آئے ہیں۔

یوں تو ملک میں آئین و قانون کا مذاق دن رات دیکھنے اور سننے میں آتا ہے۔ اس کا اعلان تو تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر پنجاب انتخابات کے مقدمہ میں سپریم کورٹ کے سامنے دو ٹوک الفاظ میں کرچکے ہیں کہ ’پاکستان میں 14 مئی کی شب آئین کو دفن ہو گیا ہے‘ ۔ ان کے اس بیان کا مقصد صرف یہ واضح کرنا تھا کہ چونکہ سپریم کورٹ کے ایک غیر واضح اور متنازعہ فیصلہ پر عمل درآمد نہیں ہوا اور پنجاب میں انتخابات نہیں کروائے گئے۔ اس لئے انہوں نے اپنے تئیں آئین کو دفن کر کے اس پر فاتحہ پڑھنے کا اہتمام کر لیا اور سپریم کورٹ کو اس کا گواہ بھی بنا لیا۔ حالانکہ اس معاملہ میں فیصلہ کرنے والے سہ رکنی بنچ کے سربراہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال واضح کرچکے ہیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اسی وقت حتمی اور قابل نفاذ ہو گا جب اس حوالے سے سب اپیلوں پر حتمی فیصلہ صادر ہو جائے گا۔

تاہم جب قانونی تقاضوں پر سیاست حاوی ہو جائے تو آئین کے بارے میں کسی کو بھی کوئی بھی رائے دینے کا موقع مل جاتا ہے۔ کچھ یہی کیفیت استحکام پاکستان پارٹی کے قیام کے حوالے سے بھی کہی جا سکتی ہے۔

سپریم کورٹ جہانگیر ترین کو تاحیات سیاست سے نا اہل قرار دیتے ہوئے کوئی بھی عوامی عہدہ سنبھالنے سے منع کرچکی ہے۔ اسی قسم کا حکم نواز شریف کے بارے میں بھی صادر ہوا تھا۔ انہوں نے نا اہلی کے باوجود اپنے ہی نام سے قائم مسلم لیگ کی قیادت جاری رکھی تو سپریم کورٹ نے براہ راست حکم کے ذریعے قرار دیا کہ وہ عوامی ہی نہیں کسی سیاسی پارٹی کا کوئی عہدہ سنبھالنے کے اہل بھی نہیں ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے اس کے جواب میں نواز شریف کو ’تاحیات رہبر‘ کا عہدہ عطا کر دیا اور سپریم کورٹ منہ تکتی رہ گئی۔ اب ایک دوسرے نا اہل جہانگیر ترین ملکی سیاست میں کشش ثقل بنے ہوئے ہیں، ایک نئی پارٹی قائم کرنے کا اعلان کر رہے ہیں اور ملک کو بحران سے نکالنے میں مرکزی کردار ادا کرنے کا عزم ظاہر کر رہے ہیں۔ لیکن آئین پاکستان سپریم کورٹ کے احاطے میں خاموش بیٹھا ہے۔ ایسے میں آئین و قانون اس وقت سے، اس وقت تک ’دفن‘ ہی رہیں گے جب تک افراد اور ادارے اس کی تشریح قانونی بنیاد کی بجائے ذاتی مفاد کی روشنی میں کرتے رہیں گے۔

لاہور میں منعقد ہونے والی پریس کانفرنس میں جہانگیر ترین کا کہنا تھا کہ انہوں انہی مقاصد کی تکمیل کے لئے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی جو اب استحکام پاکستان پارٹی کا منشور قرار پائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’پی ٹی آئی کا منشور معیشت درست کرنا، دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا اور سب سے بڑھ کر احتساب کرنا تھا۔ ان ہی نعروں پر پارٹی وجود میں آئی اور ان ہی نعروں پر لوگوں نے اسے ووٹ دیا تھا۔ یہ سب نہ ہوسکا اور معاملات بگاڑ کی طرف چلے گئے‘ ۔ معاملات بگڑنے کی تفصیل بتاتے ہوئے جہانگیر ترین نے واضح کیا کہ ’اگر ہم نے 9 مئی کے منصوبہ سازوں اور شرپسندوں کو انجام تک نہ پہنچایا تو پھر سیاسی مخالفین کے گھروں پر بھی حملہ قابل قبول سمجھا جائے گا اور ہم یہ کبھی بھی نہیں ہونے دیں گے‘ ۔ جہانگیر ترین کے ان زریں خیالات کو اگر گزشتہ روز فارمیشن کانفرنس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ارشادات کے ساتھ ملا کر پڑھ لیا جائے تو تصویر زیادہ نکھر کر سامنے آ سکتی ہے۔

استحکام پاکستان پارٹی کے قیام سے واضح ہو گیا ہے کہ فوج بہر صورت تحریک انصاف کو ختم کرنے اور عمران خان کو سیاست سے نکال باہر کرنے کا عزم کرچکی ہے اور یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے وہ کسی بھی حد تک جانے پر آمادہ ہے۔ نئی پارٹی میں نمایاں چہرے دیکھنے کے بعد یہ سمجھنا بھی مشکل نہیں ہونا چاہیے کہ عسکری قیادت نہ صرف عمران خان سے مایوس ہو گئی ہے بلکہ وہ اس وقت برسر اقتدار سیاسی پارٹیوں پر بھی اعتبار کرنے پر تیار نہیں ہے۔ لاہور کے ایک ہوٹل میں قائم کی گئی سیاسی پارٹی کے قیام سے اب یہ بھی نوشتہ دیوار ہے کہ باجوہ ڈاکٹرائن کے ساتھ ساتھ سابق آرمی چیف کے وعدوں کو بھی فراموش کر دیا گیا ہے۔ اسٹبلشمنٹ یعنی عسکری اداروں نے اپنا ہاتھ دوبارہ قومی سیاسی نبض پر رکھ کر اس کی رفتار ماپنے اور مستقبل کا نقشہ تیار کرنے کا ارادہ کیا ہے۔

یہ صورت حال عمران خان یا تحریک انصاف سے زیادہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے لئے چیلنج ہونا چاہیے۔ فوج اگر تحریک انصاف کے مقابلے میں اتر رہی ہے اور اسے زمین بوس کرنے کا ارادہ کیے ہوئے ہے تو اس کی وجوہ بھی پیش نظر ہیں اور عمران خان نے ہتھیار بھی نہیں پھینکے ہیں۔ وہ نہ صرف شاہ محمود قریشی کے مشوروں اور پیغام رسانی کو مسترد کرچکے ہیں بلکہ الفاظ کی حد تک ہی سہی اسٹبلشمنٹ سے پنجہ آزمائی کا اعلان بھی کر رہے ہیں۔ یہ ایک علیحدہ سوال ہے کہ دریں حالات انتخابات کی صورت میں وہ کس حد تک سیاسی انتخابی کامیابی حاصل کر پاتے ہیں۔

لیکن یہ حقیقت بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہونی چاہیے کہ سیاسی کھیل میں انتخابی کامیابی حتمی اور فیصلہ کن نہیں ہوتی بلکہ عوامی حمایت اور قبولیت کو اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ عمران خان کو پہلے بھی ایک قابل ذکر طبقہ کی حمایت حاصل تھی لیکن انہیں سیاسی طور سے تنہا کرنے کی ریاستی کوششوں کے بعد ان کی حمایت میں ایسے عناصر بھی شامل ہوں گے جو بہر طور عوام کی رائے کو حتمی قرار دیتے ہیں اور اسی طریقے سے اقتدار حاصل کرنے کو جائز آئینی و جمہوری طریقہ مانتے ہیں۔ عمران خان اگر اپنے غم و غصہ پر قابو پاکر سیاسی میدان میں ڈٹے رہے تو 2023 کا مجوزہ یا متوقع انتخاب ملکی تاریخ کا آخری انتخاب نہیں ہو گا۔ اگلے ہی مرحلے پر عمران خان اپنی سیاسی جد و جہد کا پھل پا سکتے ہیں۔

البتہ پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کو ضرور تشویش ہونی چاہیے کہ استحکام پاکستان پارٹی قائم کرنے کا اعلان درحقیقت ان سیاسی گروہوں سے اسٹبلشمنٹ کی لاتعلقی ثبوت ہے۔ شہباز شریف کی قیادت میں قائم حکومت نے سانحہ نو مئی کے بعد فوج کی پشت پناہی کرنے میں تمام بنیادی جمہوری اقدار کو پامال کیا۔ شہریوں کو سزائیں دینے کے لئے فوج کے حوالے کیا جا رہا ہے، میڈیا کنٹرول کرنے کے تمام فرسودہ طریقے بروئے کار ہیں، سیاسی مخالفین کے علاوہ بنیادی انسانی حقوق کی بات کرنے والے عناصر کو نشان عبرت بنانے اور دھمکیاں دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ بطور خاص مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اس خوش فہمی میں فوج کی ہر خواہش پوری کرنے پر آمادہ دکھائی دیتی ہیں کہ نئے انتخابات میں انہیں ’خدمت‘ کا موقع دیا جائے گا۔ استحکام پاکستان پارٹی کا قیام ظاہر کرتا ہے کہ فوج کی خوشامد میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو منہ کی کھانا پڑی ہے اور عسکری قیادت ان پر بھروسا کرنے پر آمادہ نہیں۔

استحکام پاکستان پارٹی کے قیام سے انتخابات کے بعد ملکی سیاست کا نقشہ بنایا جائے تو صاف دکھائی دے گا کہ مرکز اور پنجاب میں کمزور مخلوط حکومتیں قائم ہوں گی۔ سیاسی بحران میں اضافہ ہو گا اور پاکستان استحکام پارٹی ملک مستحکم کرنے سے پہلے اسے مزید انتشار اور تقسیم کرنے کا سبب بنے گی۔ ایک نئی کنگز پارٹی معرض وجود میں آ چکی ہے۔ پوچھئے، کیا پاکستان میں کبھی کچھ تبدیل بھی ہو گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2582 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments