مسلمان حکمرانوں، مذہبی مقتدرہ اور عثمانی ترکوں کا سائنسی اور علمی رویہ
یورپ میں عیسائیت کو سرکاری حیثیت ملنے کے بعد وہاں عیسائیوں کے مذہبی پیشوا پاپائے روم طاقتور شخصیت بن گئے۔ جب اس نے مذہبی کے ساتھ سیاسی اختیارات بھی حاصل کرلئے تو وہاں پنپ رہی علمی کاوشوں کو اچانک مذہب کے حاوی ہونے سے شدید مشکلات سے دوچار ہونا پڑا۔ سینکڑوں سالوں سے قائم افلاطون کی اکیڈمی بند کردی گئی۔ کیونکہ مذہبی اہلکاروں کے نزدیک وہاں شرکیہ عقائد کی تعلیم دی جارہی تھی۔ وہاں سے اہل علم کو بھاگنا پڑا۔ اس طرح یونان میں اندھیرا چھا گیا۔
پھر اسلامی تمدن کا دور آگیا۔ مسلمان حصول علم کے متمنی ہوئے۔ انہون نے فلاسفہ یونان کے مخطوطات کے عربی میں تراجم کئے اور علمی خزانہ مسلمان ذہن کو منتقل ہوا عربوں نے علمی کاوشوں کو فروغ دیا۔ لیکن جلد ہی راسخ العقیدہ مسلمانوں کی جانب سے اس کے خلاف ردعمل دیکھنے میں آیا۔
ان مسلمان فلسفیوں کے خلاف اس وقت عملی اقدامات اٹھائے گئے جب حکمران طبقہ بھی اپنے بدلتے سیاسی رویے کی وجہ سے ان مذہبی رہنماؤں کا حامی بن گیا۔ پھر اس وقت کے مسلمان حکمرانوں اور ان کے حواریوں نے پوری طاقت سے عقلی علوم کے دروازے مسلمانوں پر بند کردئے۔ اب کوئی مسلمان فلسفہ اور سائنس نہیں سیکھ سکتا تھا۔ اس سلسلہ میں مذہبی مقتدرہ نے سختی سے قدغنیں لگائیں اور مسلمانوں میں سائنسی علوم کے ساتھ جو لگاؤ پیدا ہوچکا تھا۔ اس کو ختم کرنے کے لئے حکمرانوں کو مجبور کیا کہ مسلمان سائنسدانوں اور فلسفیوں کو سخت اور قرار واقعی سزائیں دی جائیں۔ اور مزہد پھیلاؤ سے اس دھارے کو روکنے کے لئے اقدامات کئے جائیں پھر وہی ہوا جو مذہبی اسٹیبلشمنٹ کی خواہش تھی۔ مسلمان بادشاہوں نے سائنس کا گلا گھونٹا۔ بڑے بڑے عالموں کو سخت ترین سزائیں دی گئیں۔ ان سے توبہ کرائی گئی کہ آیندہ عقل استعمال نہیں کریں گے۔ یعنی عقل سے نہیں دل سے سوچیں گے۔ اس سلسلہ میں بہت سے عالموں کی کتابیں ضائع کی گئیں۔ تاکہ ان کے بقول ان کتابوں میں چھپے کفری عقائد کے خطرناک ممکنہ پھیلاو کو روکا جاسکے۔ بات یہ ہے کہ مذہبی اجارہ دار سائنسی علوم سے کیوں ڈرتے تھے۔ وجہ کیا تھی کہ وہ سائنسدانوں کو سزائیں دینے پر تل گئے۔ اور سرزمین اسلام میں بوئے گئے عقل و دانش کے پودے کو جڑ سے اکھاڑنے کے درپے ہوگئے۔ اور جلد ہی وہ اہنے مقصد میں کامیاب بھی ہوگئے۔ سرزمین اسلام سے سائنسی علوم کے مراکز کا خاتمہ کیا گیا۔ سائنسدانوں کو ڈرایا دھمکایا گیا ان کو مارا پیٹا گیا۔ ان کو جھوٹا قرار دیا گیا۔ عوام سے کہا گیا کہ ان عالموں کے چہرے پہ تھوکیں اور ان کو ذلیل کریں۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس وقت مسلمان علماء سائنسی علوم کے میدان میں جھنڈے گاڑ رہے تھے۔ اس وقت مسلمانوں کے اندر مذھبی فرقے ایک دوسرے کو کافر۔ قرار دے کر امت کو تقسیم کر رہے تھے۔ ایک دوسرے کے گلے کاٹنے کے درپے تھے۔ اور اس نامقدس مشن کو مکمل کرنے کے لئے جھوٹی گڑی گئی حدیثیں بڑی تندہی سے پھیلا رہے تھے۔ فرقہ پرستی کا بازار خوب گرم تھا۔ مختلف فرقوں کے پیشواؤوں کے درمیان لایعنی موضوعات پر بحثیں ہورہی تھیں۔ اور بادشاہ وقت ان کو کج بحثی کرتے ہوئے دیکھ کر لطف اندوز ہورہے تھے۔ مابعدالطبیعی موضوعات پر بے پر کی اڑائی جارہی تھیں۔ ہر پیشوا کوشش کرتا تھا دوسرے کو نیچا دکھانے۔ اس کے لئے وہ بڑی سرگرمی سے لڑتا۔ اور دلائل کے انبار لگا دیتا. یہ حکمت عملی تھی کہ مخالف عقیدہ رکھنے والے کو نیچا دکھانا ہے۔ اسی کو ہی دین کی خدمت سمجھ لیا گیا تھا۔ لیکن اندر خانہ وہ حکمرانوں کے مقاصد پورے کرکے ان کی خوشنودی حاصل کر رہے تھے۔ اس ساری کشمکش سے مسلمانوں کے اندر مزید فرقے بن رہے تھے۔ اور اس بے کار محنت کے نتیجہ میں مسلمان مزید ایک دوسرے سے دور ہورہے تھے۔ شروعاتی دور میں مسلمان حکمرانوں کو علوم و فنون کے فروغ کا شوق ہوا تو انہوں نے دنیا کے دیگر خطوں جیسے چین، ہندستان، ایران اور یونان سے قدیم مخطوطات طلب کیں۔ ان میں جو مخطوطے علم و دانش اور سائنس سے متعلق تھے۔ وہ خطی نسخے الگ کئے گئے۔ ان کا عربی میں ترجمہ کرایا گیا ان تراجم نے مسلمانوں کو علم و دانش کی طرف راغب کیا۔ جس سے آگے چل کر مسلمانوں میں بڑے فلسفی، طبعیات دان اور طبیب پیدا ہوئے۔ جنہوں نے مسلمان معاشرہ میں فلسفہ، سائنس۔ طب و دیگر علوم کے بیج بو دئیے جس سے آگے چل کر تناور درخت تیار ہوئے۔ جن کے پھل سے مسلمانوں کو مستفید ہونا تھا۔ عقلی علوم کے پھلنے پھولنے سے تنقیدی شعور بڑھا۔ جس سے سوال و جواب کا سلسلہ قائم ہوا۔ سوال و جواب کے تنقیدی پہلو نے باہم دست وگریباں مذہبی طبقہ کے کان کھڑے کردئے۔ انہوں نے نقلی علوم کے مقابلہ میں عقلی علوم کے پھیلاؤ کو خود کے لئے خطرہ مان لیا۔ ان کے خیال میں تنقیدی علوم پروان چڑھے تو مذہب کے نام پر جاری کردہ ہماری فرقہ پرستانہ دوکانداری ختم ہوجائے گی۔ ہم کیا کریں گے اگر لوگوں نے ہم سے سوال کرنا شروع کر دئے۔ اس طرح تو ہماری روزی روٹی بند ہوجائے گی۔
فرقہ پرستوں کے مفادات کو جب خطرہ محسوس ہوا وہ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ سب سے پہلے انہوں نے حاکم وقت سے شکایت کی۔ کہ کفریہ عقائد پھیلانے والوں کا سدباب کرکے اسلام کو بچایا جائے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی ان فرقہ پرستوں کے مفادات کو خطرہ لاحق ہوا ہے۔ انہوں نے اسلام خطرے میں ہے کا نعرہ لگایا ہے۔ ہم بھی مانتے ہیں کہ اسلام خطرے میں ہے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ اسلام ان نام نہاد فرقہ پرستوں سے خطرے میں یے۔ کیونکہ اسلام کے سب سے زیادہ ٹکڑے انہی لوگوں نے کئے ہیں۔ اہل اسلام کو بہتر فرقوں میں انہوں نے بانٹا یے۔ اور جھوٹا الزام یہ باہر کے لوگوں پر لگاتے ہیں۔
ہماری تاریخ کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ حکمرانوں کو جب بھی ضرورت پڑی۔ انہوں نے مذہبی طبقے کو اپنے حق حکمرانی کو محفوظ بنانے کے لئے استعمال کیا۔ اور جب ضرورت ختم ہوئی۔ ان کو اٹھا کر باہر پھنک دیا۔ جب مذہبی طبقے کی صدائے احتجاج نے طول پکڑا تو حاکم وقت نے اس پر توجہ کی۔ ان کو محسوس ہوا کہ ان کی دشمنی ہمارے لئے اچھی نہیں۔ ان کی خوشنودی میں ہی ہماری عافیت ہے۔ پھر کیا ہوا یکدم حاکم وقت کی آنکھیں بدل گئیں۔ اس کی سوچ تبدیل ہوئی۔ اب اس کا مفاد اس میں تھا کہ مذہبی طبقے کا ساتھ دے۔ اور ان کے مخالفین کو کڑی سزائیں دے۔ تاکہ ان کی شورش ٹھنڈی ہو۔ بڑھتا دباؤ ختم ہو۔ اور اقتدار کو استحکام حاصل ہو۔
حکمرانوں کی ترجیحات بدلتے ہی مسلمانوں میں پنپ رہے جدید سوچ رکھنے والے عالموں کی شامت آگئی۔ ان کی سرپرستی بند ہوئی۔ ان کے جدید نظریات کو اسلام سے متصادم قرار دیا گیا۔ اور ان کو منع کیا گیا۔ ساتھ ہی سزاؤں کا سلسلہ شروع ہوا۔ جیسے طرح عیسائیت کے آنے سے یونان میں ارسطو کی اکیڈمی بند کی گئی تھی۔ اسی طرح ان کے ادارے بھی بند کر کئے گئے۔ ایک دم قدامت پرستوں کی جیت ہوئی۔ جدت پسند ہار گئے۔ حکمرانوں نے مذہبی طبقات کی خوشنودی کے حصول کے لئے ان کا ساتھ دیا۔ کچھ ہی عرصہ میں سائنسی اور فلسفی علوم کا ناطقہ بند کیا گیا۔ ان کی جڑیں کاٹ دی گئیں۔ ان عالموں کو جسمانی ایذائیں دی گئی۔ کوڑے لگوائے گئے۔ طرح طرح کی تکالیف دے کر ان کو سائنس و فلسفہ سے بے زار کیا گیا۔ جو کچھ ماضی میں یونان میں علوم و فنون کے ساتھ ہوا تھا۔ وہی حالات یہاں بھی دھرائے گئے اور پھر علوم و فنون کے سرچشمے سوکھ گئے۔ ترقی اور کمال کے جو سپنے دیکھے گئے تھے۔ وہ چکناچور ہوگئے اور مسلمان زوال کا شکار ہوگئے۔
دوسری طرف مسلمانوں نے جو یونانی تراجم یونانی سے عربی میں کئے تھے۔ وہ اہل یورپ کے ہاتھ لگے۔ کیونکہ وہ ان کی گمشدہ میراث تھی۔ اس کئے انہوں نے ان علوم کو دل و جان سے سیکھا۔ اہل یورپ کو اس سلسلہ میں عربوں کا احسان مند ہونا چاہئے۔ کہ یونان کے گمشدہ علوم عربوں کے ذریعے دوبارہ ان تک پہنچے۔ اور پھر انہوں نے انہی علوم کے بدولت ترقی کی منازل طے کیں۔ عربوں نے اس سلسلہ میں پل کا کردار ادا کیا۔ اگرچہ بعد میں مسلمان اس وقت کے جدید علوم سے کنار کش ہوئے۔ اور سپاہیانہ روش کو فروغ دیا۔ جہاد کے پہلو پر زیادہ توجہ ہوئی۔ خصوصاً سلطنت عباسیہ کے زوال کے بعد سلطنت عثمانیہ نے غیر مسلموں کے خلاف جہاد کی پالیسی اپنائی۔ اور یورپ کے اندر فتوحات کرنے کی کوششیں کیں۔
ماضی میں سلطنت عثمانیہ میں حالات اسقدر کربناک اور اندوہ ناک تھے۔ کہ اس طویل عرصہ میں سلطنت عثمانیہ میں ایک بھی بڑا آدمی پیدا نہیں ہوا۔ علمی لحاظ سے عثمانی بنجر تھے۔ علمی میدان میں ان کے یہاں کوئی بڑی ہستی پیدا نہیں ہو سکتی تھی۔ کیونکہ وہاں اس سلسلہ میں شدید مخالفت موجود تھی۔ وہاں ایک مسلمان اپنی اولاد کو عقلی علوم سکھانے کے بھیجتا۔ تو کہاں بھیجتا۔ کہ عثمانیوں کی پوری اسلامی سلطنت میں ایک بھی حقیقی عقلی علوم سکھانے والا مدرسہ و ادارہ موجود نہیں تھا۔ اس وقت جب یورپ میں یونیورسٹیز بن رہی تھیں۔ لوگ عقلی و سائنسی علوم کی آبیاری کر رہے تھے۔ یونان کا گمشدہ ورثہ ان کو عربوں کے وسیلے سے دوبارہ مل گیا تھا۔ اور وہ بڑی جانفشانی سے اپنے گمشدہ علمی میراث کو دریافت کر رہے تھے۔ یورپ تاریک کلیسائی دور کے ڈراونے خواب سے بیدار ہورہا تھا۔ عین اسی دور میں مسلمانوں کو خواب غفلت میں سلا کر رٹے لگانے پر لگا دیا گیا تھا۔۔
ادھر یورپ میں یونیورسٹیاں قائم ہونے لگیں۔ نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہوا۔ اس دفعہ یورپ والے سائنس سے بے زار ہونے کے بجائے مذہبی تنگ نظری سے بے زار ہوئے۔ یورپ میں وسیع پیمانے پر جدید علوم کی طرف لوگ راغب ہوئے۔ لیکن مسلمان پڑوس میں ہورہی ترقی سے ذرا بھی متاثر نہ ہوئے۔ وہ اپنی قدیم روایات سے جڑے رہے۔ جب جرمنی میں پریس ایجاد ہوا۔ تو بے شمار کتابیں چھاپی گئیں۔ انفارمیشن کا سیلاب آگیا۔ ترکی میں فتویٰ جاری ہوا۔ کہ پریس کا استعمال حرام ہے۔ اور آئندہ سینکڑوں سال تک اس فتویٰ پر عمل ہوا۔ اور قران سمیت دیگر کتب کو چھاپا نہیں جا سکتا تھا۔ کیونکہ یہ توہین آمیز تھا۔ اس طرح جدید علوم کی اب بھی ترکیہ سمیت دیگر مسلمان ملکوں میں مناہی تھی۔ مسلمان جدید علوم سے جو بے اعتنائی برت رہے تھے۔ اس کا نتیجہ مستقبل میں اچھا نہیں نکلنے والا تھا۔
آج فرق ہمارے سامنے ہے مسلمان ملک جدید علوم کے میدان میں دنیا کے جدید معاشروں سے بہت پیچھے ہیں۔ اور اس پسماندگی کی وجہ جھوٹے تفاخر کا وہ رویہ ہے۔ جو ماضی میں بہت شدت کے ساتھ اپنایا گیا۔ اور یہ سب کچھ خود کا کیا دھرا ہے۔ لہذا کسی کو الزام دینے کی ضرورت نہیں۔
Latest posts by نوید آرین (see all)
- ارشد ندیم اور سیاسی کھلاڑی - 17/08/2024
- شیخ حسینہ واجد کے فرار پر بنگلہ دیش میں جشن کا سماں - 06/08/2024
- شیخ حسینہ واجد ایک بے رحم ڈکٹیٹر کے روپ میں - 05/08/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).