بندیال صاحب کی رخصتی اور نئے چیف جسٹس سے توقعات


تاریخ کسی کے اعمال و کردار پردے میں نہیں رکھتی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال اپنی مدت ملازمت مکمل کر کے رخصت ہو چکے ہیں۔ ان کا دور منصفی عدل و انصاف کے حوالے سے کیسا رہا اور وہ اپنے منصب کے تقاضوں پر کتنا پورا اترے، جب بھی وطن عزیز کے نظام عدل پر بات ہوئی اس متعلق باتیں ضرور ہوں گی۔ یوں تو جسٹس منیر سے لے کر افتخار چوہدری ثاقب نثار گلزار احمد اور آصف سعید کھوسہ جیسی کئی نابغہ روزگار ہستیاں ہمارے نظام عدل کی تاریخ ”منور“ کرتی رہیں۔

نہایت افسوس سے مگر لکھنا پڑ رہا ہے کہ کسی حاضر سروس چیف جسٹس اور سپریم کورٹ پر اتنی کھلم کھلا تنقید کبھی نہیں ہوئی جتنی سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال صاحب اور ان کے دور کی سپریم کورٹ پر ہوتی رہی۔ معذرت کے ساتھ یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ اس تنقید کی بنیاد بھی خود سپریم کورٹ کی طرف سے ہی فراہم کی گئی ہے۔ اس منطق کی آج تک سمجھ نہیں آئی کہ ہر اہم بینچ میں چیف جسٹس کے بعد سینیارٹی لسٹ میں پہلے اور دوسرے نمبر کے ججز کو بینچ کا حصہ نہیں بنایا جاتا تھا اور پھر تیسرے، چوتھے، پانچویں اور چھٹے کے بعد ساتویں نمبر کے جج کو بھی چھوڑ دیا جاتا تھا۔

اسی طرح آٹھویں نویں اور دسویں کے بعد ڈائریکٹ سنیارٹی میں 14 نمبر کے جج کو بینچ کا حصہ بنایا جاتا۔ کاش کہ معزز عدالت اگر بنچز کی تشکیل میں ہی میرٹ کا خیال رکھ لیتی تو شاید نظام عدل سے متعلق شکوک و شبہات کو بڑھاوا ملنے میں اتنی آسانی نہ ہوتی۔ جناب عمر عطا بندیال صاحب کے ذہن میں یقیناً کچھ توجیحات ہوں گی مگر قانونی روایت بہرحال یہی رہی ہے کہ کوئی فریق اگر کسی جج کے بارے تحفظات کا اظہار کر دے تو وہ جج ازخود مقدمے سے لا تعلقی اختیار کر لیتا ہے۔

خود عمر عطا بندیال صاحب نے اس بات کو جواز بنا کر کہ تحریک انصاف کی حکومت میں قاضی فائز عیسی کے خلاف ریفرنس دائر ہوا تھا، انہیں تحریک انصاف اور عمران خان سے متعلق کسی متعلق کسی کیس میں شامل نہیں کیا۔ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ پی ڈی ایم جماعتوں کے اتحاد کے ہر کیس میں انہی مخصوص ججز پر مشتمل بنچ بنتا رہا جن کی سوچ پہلے سے ہر شخص کے علم میں تھی۔ پی ڈی ایم کے تحفظات بالکل جائز تھے کہ اس کی قیادت کے خلاف بیشتر مقدمات کی سماعت میں یہی ججز شامل رہے ہیں جس کا نتیجہ کبھی ان کے حق میں اچھا نہیں نکلا۔

ان حالات میں اگر عمر عطا بندیال صاحب جن ججز کے نام پر پی ڈی ایم کی حکومت کو اعتراض تھا کم از کم انہیں بینچ میں شامل نہ کرتے تو شاید آج ملک کی سب سے بڑی عدالت کے احکامات کا اس طرح تماشا نہ بنتا۔ یہ درست ہے کہ آئین میں نوے روز کے اندر انتخابات کرانے لازم قرار دیے گئے ہیں، اس کے ساتھ مگر آئین میں اور بھی بہت کچھ درج ہے۔ سابق چیف جسٹس اور کے ان ہم خیال ججز کا آئین پر عملدرآمد کرانے عزم قابل تحسین تھا لیکن سپریم کورٹ کے دیگر ججز جن کی بات عمر عطا بندیال صاحب نہیں سن رہے وہ بھی آئین کے تحفظ کا حلف اٹھا کر ہی ایوان عدل میں بیٹھے ہیں۔

جب سپریم کورٹ انتخابات کے حوالے سے پنچایت کا کردار ادا کرنے نکلی تھی، خواجہ آصف نے اس وقت درست کہا تھا کہ سیاستدانوں کے مابین پنچایت کا کردار ادا کرنے کی بجائے سپریم کورٹ کو پہلے خود اپنے اندر تقسیم کے تاثر کو زائل کرنا چاہیے۔ اس کی بنیاد یہی خدشہ تھا کہ خدانخواستہ سپریم کورٹ میں تقسیم کے تاثر کو ختم نہ کیا گیا تو پھر عدالتی فیصلوں کا احترام نہیں رہے گا۔

عدالتوں کے فیصلے کی ایک توقیر ہوتی ہے اور وہ دستیاب حقائق کی روشنی میں ہی حکم سناتی ہیں۔ عدالت کبھی بھی اس طرح کا فیصلہ نہیں دے سکتی جس پر عملدرآمد نا ممکن ہو۔ اس کے باوجود چیف جسٹس نے حکومتی اتحاد کے فل کورٹ کے مطالبے کو رد کر کے عجلت میں حکم سنایا جس کی وجہ سے ملک کی سب سے بڑی عدالت خود بند گلی میں پہنچ کر رہ گئی تھی۔ حیرت کی بات ہے کہ سابق چیف جسٹس صاحب کو اس بات کا ادراک نہیں ہوا کہ جب انہیں اپنے ادارے کی بھی مکمل حمایت حاصل نہیں تو وہ اپنے حکم پر عملدرآمد کرانے میں کس طرح کامیاب ہوں گے۔

کاش کہ اس وقت جب ملک کی تمام بار کونسلز اور خود سپریم کورٹ کے ججز کی طرف سے فل کورٹ کے قیام کا مطالبہ کیا جا رہا تھا عمر عطا بندیال صاحب یہ بات تسلیم کر لیتے تو نہ صرف ان کے منصب کی توقیر سلامت رہتی بلکہ سپریم کورٹ کے احکامات کا مذاق بھی نہ بنتا۔ محض متنازعہ ہونے کی وجہ سے عمر عطا بندیال صاحب کی اتھارٹی کمپرومائز ہوئی اور اسی لیے ان کی عدالت کے احکام ہوا میں اڑتے رہے۔ صرف پنجاب میں انتخابات سے متعلق کیس میں ہی نہیں بلکہ تقریباً ہر کیس میں وہ اپنے منصب کے تقاضے ایمانداری سے نبھانے میں ناکام رہے۔

اپنی خوش دامن کی اور ساتھی ججز کی آڈیو کے کیس کو انہوں نے جس طرح نمٹایا یہ نظیر بھی ہمارے نظام عدل پر شرمناک دھبے کی صورت موجود رہے گی۔ یہی نہیں بلکہ جاتے جاتے انہوں نے جس طرح پارلیمنٹ کی طرف سے نیب آرڈیننس میں کی گئی ترامیم ختم کیں، یہ بھی اپنے منصب سے زیادہ سیاسی عزائم سے اخلاص کو عیاں کرنے کے لیے کافی ہے۔

جناب قاضی فائز عیسی صاحب نے منصب سنبھالتے ہی نہ صرف پہلے دن سپریم کورٹ کے تمام ججز کو اپنے ساتھ بٹھا لیا بلکہ چیف جسٹس کی ذات سے متعلق بے لگام اختیارات سے متعلق اپنی سوچ بھی واضح کر دی۔ حالیہ فل کورٹ سماعت سے کیا آسمان ٹوٹ پڑا جس بچنے کے لیے سابق چیف جسٹس اپنے ادارے کی ساکھ خراب کرتے رہے؟ بہرحال بندیال صاحب رخصت ہو گئے اور قاضی فائز عیسی صاحب کی ماضی میں آئین و قانون بارے حساسیت مدنظر رکھتے ہوئے امید کی جانے چاہیے کہ، بندیال صاحب کا نظریہ بھی عدل کے ایوانوں سے رخصت ہو جائے گا۔

قاضی فائز عیسی صاحب سے ہر شخص الگ توقع وابستہ کیے بیٹھا ہے۔ کوئی چاہتا ہے عام انتخابات وقت پر ہوں، کوئی نیب کے ظالمانہ قانون کے خاتمے کے لیے پر امید ہے تو کسی کو فوجی عدالتیں کھٹک رہی ہیں۔ یہ باتیں اپنی جگہ اہم ہیں مگر امید رکھنی چاہیے کہ قاضی فائز عیسی صاحب کی تمام تر صلاحیتیں نظام عدل کو کسی ایجنڈے کی بجائے مکمل طور پر آئین و قانون کے تابع رکھنے میں صرف ہوں گی۔ وگرنہ تو پہلے بھی کئی چیف جسٹس آئے اور گزر گئے، ان ناموں میں ایک اور اضافہ ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments