انتخابات میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے


الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جنوری کے آخری ہفتے میں عام انتخابات کروانے کا اعلان کیا ہے۔ ایک اعلامیہ میں واضح کیا گیا ہے کہ نئی مردم شماری کے تحت حلقہ بندیوں کی حتمی فہرست 30 نومبر کو شائع ہوگی۔ اس کے بعد 54 دن کا الیکشن پروگرام مکمل ہو گا اور جنوری کے آخری ہفتے میں انتخابات کروا دیے جائیں گے۔ مکمل بے یقینی کے ماحول میں الیکشن کمیشن کا یہ اعلان خوش آئند ہے اگرچہ ابھی تک انتخابات کی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے شبہات موجود رہیں گے۔

قومی سطح کے علاوہ عالمی سطح پر اور مالیاتی اداروں کے خیال میں انتخابات پاکستان کو موجودہ بحران سے نکالنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس طرح فوری طور سے پیدا ہونے والا سیاسی ہیجان ختم ہو گا، ملک میں عبوری حکومت کی بجائے ایک منتخب حکومت کام کرنے لگے گی اور پارلیمنٹ میں اہم فیصلے کیے جا سکیں گے۔ پاکستان کی بیشتر سیاسی پارٹیاں مسلسل 90 دن کی مدت میں انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔ البتہ مسلم لیگ (ن) نے اس بارے میں پراسرار خاموشی اختیار کی ہے۔ اب نواز شریف کی لندن سے واپسی کے لیے 21 اکتوبر کی تاریخ دی گئی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) ، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے برعکس مقررہ آئینی مدت میں نہ تو انتخابات کروانے کا مطالبہ کر رہی ہے اور نہ ہی اسے توقع ہے کہ اس وقت کے اندر انتخابات منعقد ہوں گے۔ اسی لیے پارٹی کی طرف سے کوئی خاص سیاسی سرگرمی بھی دیکھنے میں نہیں آئی۔

صدر عارف علوی نے 13 ستمبر کو چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کے نام ایک خط میں 6 نومبر کو انتخاب کروانے کی تجویز دی تھی۔ بعض وکلا تنظیموں کے مشورہ کے برعکس صدر مملکت نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے سے گریز کیا تھا۔ تاہم اس خط میں چیف الیکشن کمشنر کو باور کروایا تھا کہ انہوں نے وزیر اعظم شہباز شریف کے مشورہ پر 9 اگست کو قومی اسمبلی توڑ دی تھی۔ آئین کی مقرر کردہ مدت 7 نومبر کو ختم ہو جائے گی۔ اس لیے مناسب ہو گا کہ انتخابات 6 نومبر کو منعقد ہوں۔ الیکشن کمیشن اس حوالے سے صوبائی حکومتوں سے مشورہ کے علاوہ سپریم کورٹ سے رہنمائی حاصل کر سکتا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ چیف الیکشن کمشنر نے اس خط کا جواب نہیں دیا اور آج کے اعلامیہ سے واضح ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن ملک میں انتخابات کے سوال پر صدر کو غیر متعلقہ فریق سمجھتا ہے۔

اس سے قبل اگست کے آخر میں صدر عارف علوی نے چیف الیکشن کمشنر کو انتخابات کے انعقاد کے سوال پر مشاورت کے لیے ملاقات کی دعوت دی تھی لیکن چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے یہ کہتے ہوئے ملاقات سے انکار کر دیا تھا کہ الیکشن ایکٹ میں ترامیم کے بعد انتخابات کی تاریخ کا تعین کرنا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے اور اس حوالے سے صدر کے مشورہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ صدر علوی نے بعد میں وزارت قانون سے قانونی پوزیشن واضح کرنے کی درخواست کی تھی لیکن وزارت قانون نے بھی الیکشن کمشنر کے موقف کی تائید کرتے ہوئے یہی کہا تھا کہ اب انتخابات کے بارے میں صدر کی بجائے الیکشن کمیشن فیصلہ کرنے کا مجاز ہے۔ واضح رہے کہ تحریک انصاف نے 90 دن کی مقررہ آئینی مدت میں انتخابات منعقد کروانے کے لیے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی تھی لیکن اس درخواست کو اعتراض لگا کر واپس کر دیا گیا تھا اور سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اس معاملہ میں مداخلت سے گریز کی پالیسی اختیار کی تھی۔

الیکشن کمیشن کا موقف رہا ہے کہ سابقہ حکومت نے آخری دنوں میں مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس طلب کر کے مردم شماری کے نتائج کی توثیق کردی تھی۔ مردم شماری کا اعلان ہو جانے کے بعد الیکشن کمیشن نئی حلقہ بندیاں کرنے کا پابند ہے اور اس سے پہلے انتخابات منعقد نہیں کروا سکتا۔ جبکہ تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور وکلا کی قابل ذکر تعداد کا خیال ہے کہ قومی اسمبلی ٹوٹنے کے 90 دن کے اندر انتخابات کا انعقاد آئینی تقاضا ہے جبکہ حلقہ بندیوں کا کام الیکشن ایکٹ کے تحت ہوتا ہے۔ اس لیے الیکشن کمیشن انتخابات ملتوی کرنے کا مجاز نہیں ہے۔ تاہم سپریم کورٹ نے چونکہ اس بارے میں رائے دینے سے گریز کیا ہے، اس لیے 90 کی مقررہ مدت کی آئینی حرمت کا تعین نہیں ہوسکا۔ سپریم کورٹ کے گریز کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ پنجاب اور خیبر پختون خوا اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد مقررہ مدت میں انتخابات منعقد کروانے کے بارے میں عدالتی حکم پر عمل نہیں کیا گیا تھا۔ اس وقت الیکشن کمیشن اور حکومت اس معاملہ پر ایک ہی پیج پر تھے۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی طرف سے پنجاب میں 14 مئی کو انتخاب منعقد کروانے کے حکم کے خلاف نظر ثانی کی درخواست مسترد کردی تھی لیکن یہ فیصلہ یکم ستمبر کو جاری کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ یہ واضح کرنے میں ناکام رہی کہ واضح عدالتی حکم کے باوجود پنجاب میں انتخابات نہیں ہو سکے تھے، اس پر کیا کارروائی ہونی چاہیے۔

اب پیپلز پارٹی 90 دن کے اندر انتخابات کروانے کے مطالبے پر ڈٹی ہوئی ہے۔ گزشتہ ہفتہ کے دوران چئیر مین بلاول بھٹو زرداری نے اس حوالے سے اپنے والد اور پارٹی کے معاون چیئرمین آصف زرداری کے موقف کو بھی مسترد کر دیا تھا۔ جنوری کے آخر میں انتخاب کروانے کے بارے میں الیکشن کمیشن کے اعلان کے بعد پیپلز پارٹی نے اسے مسترد کر دیا ہے اور مقررہ آئینی مدت میں انتخابات کروانے کا مطالبہ دہریا ہے۔ پارٹی کے ترجمان فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ غیر آئینی ہے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے بیرون ملک سے واپسی پر پارٹی کی سنٹرل کمیٹی اس معاملہ پر غور کرے گی۔ اس فیصلہ کے خلاف عوامی احتجاج منظم کرنے یا سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کے سب آپشن کھلے ہیں۔ دوسری طرف جمعیت علمائے اسلام (ن) نے ایک بیان میں الیکشن کمیشن کے اعلان کا خیر مقدم کیا ہے لیکن متنبہ کیا ہے کہ ’اگر انتخابات میں 2018 کی تاریخ دہرائی گئی تو سخت مزاحمت کا سامنا ہو گا‘ ۔ گویا اپنے اپنے طور پر دونوں پارٹیاں سیاسی تصادم کا راستہ کھلا رکھنے پر بضد ہیں۔

الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابات میں تاخیر پر کوئی بھی موقف اختیار کیا جائے لیکن کسی سیاسی پارٹی کو ملک کے وسیع تر مفاد میں اسے تنازعہ کا سبب نہیں بنانا چاہیے۔ بے یقینی کی ایک طویل مدت کے بعد اب الیکشن کمیشن نے انتخابات منعقد کروانے کے لئے واضح ٹائم فریم دیا ہے۔ اب یہ مطالبہ ہونا چاہیے کہ اپنے ہی ٹائم فریم کی بنیاد پر الیکشن کمیشن انتخابات کی واضح تاریخ کا اعلان کرے تاکہ اس وقت میں رد و بدل کا شبہ ختم ہو جائے۔ البتہ اگر پیپلز پارٹی یا دوسرے سیاسی عناصر اس مسئلہ پر سیاسی تنازعہ کھڑا کرنے کی کوشش کریں گے تو اس سے بدمزگی میں اضافہ ہو گا۔ انتخابات تو شاید نومبر میں نہ ہو سکیں لیکن سیاسی عدم استحکام کی صورت حال سنگین ہو جائے گی جس کا ملکی معیشت پر منفی اثر مرتب ہو سکتا ہے۔

پاکستان میں انتخابات کے وقت کا اعلان سامنے آنے سے ایک روز پہلے ہی ایشیائی ترقیاتی بنک نے ایک جائزے میں سیاسی عدم استحکام کو پاکستانی معیشت کے لیے مہلک قرار دیا تھا۔ اس جائزے میں جنوبی ایشیا میں پیداواری صلاحیت میں اضافہ کا تخمینہ پانچ اعشاریہ چار فیصد لگایا گیا ہے جبکہ پاکستان کی معیشت میں اضافہ دو فیصد سے کم رہنے کا قیاس ہے۔ ایک طرف ملک کی آبادی میں اضافہ کی رفتار تیز ہے تو دوسری طرف مہنگائی بھی 25 فیصد تک رہنے کا اندیشہ ہے۔ یہ صورت حال کسی عدم استحکام کی صورت میں تبدیل بھی ہو سکتی ہے۔ ایسے میں یہ دیکھنا اہم ہو گا کہ پاکستان اگلے سال اپریل تک معاشی اصلاح کے منصوبوں پر کس حد تک عمل پیرا رہتا ہے۔ ایشین ڈیویلپمنٹ بنک کے جائزے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں انتخابات کے انتظار میں سیاسی بے یقینی جاری رہنے کا امکان ہے جو اہم معاشی اصلاحات کے نفاذ کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ پاکستان کو اعتماد سازی، پیداواری صلاحیت میں اضافے اور قرض ادا کرنے کی بہتر صلاحیت پیدا کرنے کے لیے اصلاحات کی شدید ضرورت ہے۔ پاکستان اگر آئی ایم ایف کے ساتھ موجودہ معاہدے کی شرائط پر پوری طرح عمل کر لیتا ہے تو معاشی بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔ عدم استحکام سے معاشی احیا مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے۔ البتہ اگر اصلاحات پر عمل ہوتا ہے اور ملک میں پرامن انتخابات منعقد ہو جاتے ہیں تو معیشت پر اعتماد بحال ہونے میں مدد مل سکتی ہے۔ اسی طرح درآمدات پر کنٹرول میں نرمی سے سرمایہ کاری میں اضافہ کی امید کی جا سکتی ہے۔ معاشی پابندیوں سے عمومی کھپت میں بھی کمی ہوتی ہے۔

ایشیائی ترقیاتی بنک کی رائے عام طور سے ملکی و عالمی معاشی ماہرین کی رائے سے مطابقت رکھتی ہے۔ معاشی استحکام و بہتری کے لیے ملک میں سیاسی تصادم اور بے چینی کا خاتمہ بے حد ضروری ہے۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اور لیڈر بلاشبہ ملک کو موجودہ معاشی مسائل سے باہر نکالنے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن بسا اوقات ان کے سیاسی فیصلوں یا جذباتی بیان بازی سے یہ مقصد حاصل ہونے میں مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ پیپلز پارٹی سمیت ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کو اس بارے میں چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ یہ ممکن ہے کہ 90 دن کے اندر انتخابات کروانے کی آئینی پوزیشن درست ہو لیکن اس وقت یہ اہم ہے کہ ایک تو ملک میں کوئی بڑا تصادم نہ ہو اور دوسرے انتخابات منعقد ہوجائیں۔ کسی غیر ضروری احتجاج کے نتیجہ میں الیکشن کمیشن یا دیگر عناصر کو انتخابات ملتوی کرنے کا عذر ہاتھ آ سکتا ہے۔

وسیع تر قومی مفاد، ملک میں جمہوری نظام کے تسلسل اور معیشت کی بحالی کے لیے تمام عناصر کو الیکشن کمیشن کے اعلان پر صاد کہنا چاہیے اور انتخابی عمل کو غیر ضروری پریشان حالی کا سبب بنانے کی بجائے حقیقی انتقال اقتدار کا ذریعہ بنانا چاہیے۔ تاکہ ملک میں عوام کی منتخب پارلیمنٹ کام کرنے لگے اور ایک ایسی حکومت ذمہ داریاں سنبھال سکے جو عوام سے ووٹ لے کر اس منزل تک پہنچی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2647 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments