ڈیلی گیشن صاب، آپ ہمارے وائسرائے بن جائیں!


ایک زمانے کا ذکر ہے، ایک ملٹری اکیڈمی کے سیاہ ڈرل اسکویئر میں علی الصبح زیرِ تربیت کیڈٹس جسمانی مشقوں میں مصروف تھے، کہ کچھ گورے دور افقی کونے پر نمودار ہوئے۔ وہیں بلندی پر کھڑے وہ کیڈٹس کو ڈرل کرتے دیکھنے لگے۔ نیچے ڈرل سٹاف نے انہیں دیکھا تو کیڈٹس سے کہا، ’صاب، چست ہو جائیں، ‘ ڈیلیگیشن صاب ’آپ سب کو دیکھ رہے ہیں‘ ۔ لڑکوں نے شرارت میں پوچھا، ’سٹاف، یہ ڈیلیگیشن صاب کیا ہوتا ہے؟‘ سٹاف نے ایک نظر گوروں پر ڈالی اور ترنت بتایا، ’جب گورے لوگ ”وزٹ“ پر نکلیں تو اُسے ”ڈیلیگیشن صاب“ کہتے ہیں‘ ۔ ڈیئر ڈیلیگیشن صاب، برسوں پرانی بات بیٹھے بیٹھے یوں یاد آ گئی کہ وطنِ عزیز میں آج آپ جگہ جگہ ایک بار پھر آزاد گھوم پھر رہے ہیں۔ ایک دن آپ ایک اہم دفتر میں پائے جاتے ہیں تو اگلے روز گوادر کی بندرگاہ پر کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ اِدھر جاتی عمرہ میں بیٹھے ہیں تو اُدھر لاؤ لشکر کے ساتھ آپ کی دبنگ انٹری کہیں اور ہو رہی ہے۔ بد خواہ کہتے ہیں کہ ’ڈیلیگیشن صاب‘ سے ملنے والوں میں ایک صاحب بہادر وہ بھی ہیں کہ جنہیں اپنے ریاستی سربراہ خط لکھ کر ملاقات کی دعوت دیتے ہیں تو ملنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ بھائی، عشروں نوکری ہم نے بھی کی ہے۔ اور بہت بڑے ’نوکری باز‘ رہے ہیں۔ اب کسی کے ساتھ کس منہ سے گلہ کریں؟

ڈیلیگیشن صاب، وہی کیجئے جو مزاجِ یار میں آئے۔ ہم کون ٹھہرے پوچھنے والے؟ آج آپ کو مخاطب کرنے کی مگر واحد وجہ آپ کی توجہ خطے میں آپ کے بغل بچے کے حالیہ طرزِ عمل کی طرف دلانا مقصود ہے۔ آپ چاہیں تو اسے شکایت سمجھ لیں یا محض التجا! ڈیلیگیشن صاب، ہمارے پڑوس میں جس ملک کو آپ خطے میں اپنا تھانیدار بنانا چاہتے ہیں، بدقسمتی سے صدیوں کی غلامی کے بعد وہ حال ہی میں آسودہ حال ہوا ہے۔ صدیوں پہلے ایک مدبر مگر مکار سیاست دان نے اپنے مصاحبین کو سمجھایا تھا، ’ہمسائے کو دشمن جانو، ہمسائے کے ہمسائے کو دوست رکھو۔‘ جناب والا، 76 برسوں سے ہم تو ’چانکیہ دانش‘ بھگت رہے ہیں، آگے بھی بھگت لیں گے۔ مگر بدمعاش نودولتیا معاشروں کے عمومی رویوں کو آپ سے بہتر کون جانتا ہے؟ اب دیکھئے، آپ کے پڑوس میں کس قدر نفیس ہمسایہ بستا ہے۔ ایک شہری قتل ہوا، خود وزیرِ اعظم نے معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھا لیا۔ کہا، ہماری خود مختاری کا سوال ہے۔ صرف ایک شخص کے مرنے پر ملکوں ملکوں ’ڈیلیگیشن صاب‘ چیخ اٹھے ہیں۔ آپ بھی تو اُن میں شامل ہیں۔ لیکن ہم جانتے ہیں، یہ اُبال وقتی ہے کہ ہندوستان کی منڈی بہت بڑی ہے۔ دوسری بات یہ کہ آپ کو تو ابھی ابھی پتا چلا ہے کہ انڈین ایجنٹ غیرملکی سرزمینوں پر قتل کرواتے ہیں، ہم تو برسوں سے جانتے ہیں۔

یہ ٹھیک ہے کچھ خطے میں بدلاؤ کا اثر تھا، تو کچھ ہماری اپنی حماقتیں۔ ہمارے ہمسائے کے ساتھ آپ کے موجودہ تزویراتی تعلقات کی نیو سال 1999 میں رکھی گئی۔ اسی سال ہمارے حکمران بھی اس ’گیم پلان‘ میں شامل ہونے کو مرے جا رہے تھے۔ صرف کلنٹن صاحب سے نہیں، بھارتی حکمرانوں سے بھی ذاتی تعلقات استوار کرنے کی خواہش انہیں بے قرار کیے رکھتی۔ خواہش پوری بھی ہوئی۔ سیکیورٹی اداروں سے بالا بالا ریٹائرڈ کمانڈوز کے ذریعے اسامہ کو اغوا کیے جانے کا پلان بنا۔ دوسری طرف بھارتیوں سے ٹریک ٹو کے نام سے خفیہ سفارتکاری کا آغاز ہوا۔ اچھی بات تھی۔ سمت بالکل درست تھی، اگر فیصلے ایک خاندان نہ کرتا، ادارہ جاتی ہوتے۔ پھر کارگل ہو گیا۔ ’فاتح کشمیر‘ نے حالات ہاتھوں سے نکلتے دیکھے تو آپ کی طرف بھاگے۔ تنہائی میں ملنے پر مصر تھے۔ اکثر خفیہ ملاقاتیں ہی اُن کی پہچان ہے۔ پھر وقت نے کروٹ لی، اور میرا وطن ایک اور بحران کا شکار ہو گیا۔ جناب، ہمارے ہاں سر اٹھانے والا یہ پہلا بحران نہیں تھا۔ جناب، کہنے دیجئے، سات عشروں پر محیط ہماری مختصر قومی زندگی کے دوران ہم پر جتنی مصیبتیں اُتریں، اس میں ضرور ہماری اپنی نالائقیاں بھی شامل رہیں، مگر روز اوّل سے ہمارے ساتھ آپ کے آج کے اِس کلیدی اتحادی نے بھی کچھ کم نہیں کیا۔ آپ نے بھی ہمیں کبھی تنہا نہیں چھوڑا۔ آج تنزلی کی جس ڈھلوان پر ہم لڑھکتے سٹکتے اِن حالوں پہنچے ہیں، ڈیلیگیشن صاب، اب جی چاہتا ہے کہ آپ ہمیں واقعی تنہا چھوڑ دیں۔

ڈیلیگیشن صاب، آپ اور ہم سرد جنگ کے پرانے اتحادی رہے ہیں۔ نائن الیون کے بعد ہم مزید اتحادی بن گئے۔ اس اتحاد کا مزہ ہم آج تک لوٹ رہے ہیں۔ بس ڈیلیگیشن صاب، اب اس مزے سے بھی جی بھر گیا ہے۔ یوں تو گزرے تین عشرے ہی عہدِ زیاں کہلائے جانے کے قابل ہیں۔ پچھلا عشرہ تو مگر ہمیں توڑ کر گزر گیا ہے۔ آج ہم دنیا بھر میں بھیک مانتے پھر رہے ہیں۔ کوئی مدد کو تیار نہیں۔ پھر آپ اور آپ کے پھیلائے ہوئے اقتصادی نظام سے ہی ہمیں اچانک یوں ریلیف ملتا ہے۔ ڈیلیگیشن صاب، یہ اچانک کیوں ملتا ہے؟ اب کیا کریں آپ ہی ملک کے اخبار سٹوریاں چھاپتے اور بے پر کی اڑا رہے ہیں۔

صاب، لوگ آپ پر طرح طرح کے نامعقول الزامات دھرتے ہیں۔ کہتے پھر رہے ہیں کہ اس وقت ہمارے ملک میں آپ پھر وہی حکمران بندوبست واپس لانا چاہتے ہیں، جس کی آبیاری پچھلے پانچ برسوں میں آپ نے براستہ لندن عالمی ایجنٹوں اور ہمارے ہاں پائے جانے والے اپنے مقامی کارندوں کے ذریعے کی تھی۔ ہم جانتے ہیں آپ چانکیہ دانش کے وارث ملک کے ساتھ مل کر اس کے شمالی ہمسائے کی مشکیں باندھنا چاہتے ہیں۔ اس بیچ آپ کو ہمارا تعاون بھی درکار ہے۔ چلئے پھر ہمیں بھی آپ کا تعاون درکار ہے۔ دیکھئے، اہداف سارے درست ہیں۔ اب ہم بھی پر ُامن بقائے باہمی کی تلاش میں ہیں۔ لیکن کس قیمت پر؟ آپ کے بارے میں تو ڈیلیگیشن صاب، مشہور ہے کہ آپ تو مروّت کے ہاتھوں مجبور ہو کر بھی کسی کو مفت میں لنچ نہیں کرواتے۔ یادش بخیر، گوادر کی بندرگاہ پر لنچ کیسا رہا؟

وطنِ عزیز میں جاری کشمکش دیکھ کر تو ڈیلیگیشن صاب، انیسویں صدی کا افغانستان یاد آ جاتا ہے۔ تب ایک طرف زار تھا تو دوسری طرف وائسرائے۔ کابل پر مسلط کٹھ پتلیوں کے ذریعے کھیلی جانے والی ایک صدی پر محیط ’گریٹ گیم‘ نے ہزاروں بے گناہ انسانوں کا خون پی لیا۔ حاصل حصول؟ بالآخر سال 1914 کا بقائے باہمی کا معاہدہ! وہی بے رحم کھیل اب بھی جاری ہے۔ بس کھلاڑی بدل گئے ہیں۔ میدان بدل گیا ہے۔ کٹھ پتلیوں کے ذریعے خطے کو قبضے میں رکھنے کی روایت مگر وہی پرانی ہے۔

ڈیلیگیشن صاب، آپ کے ہاں دنیا کی بہترین یونیورسٹیاں ہیں۔ کیا وہاں پولیٹیکل سائنس نہیں پڑھائی جاتی؟ کیا کروڑوں انسانوں پر کسی کو یوں بھی مسلط کیے جانا ممکن ہے کہ اسی فیصد لوگ جہاں جسے شدت سے ناپسند کرتے ہوں؟ آج نہیں تو کل مل ملا کر کوئی ڈھونگ رچا بھی لیا گیا، تو نتیجے میں ہم پر مسلط کیا گیا بندوبست کب تک چلے گا؟ ڈیلیگیشن صاب، چھوڑیئے سب۔ اب ہم تو کہتے ہیں آپ ہی ہمارے وائسرائے کا عہدہ قبول کر لیں۔ ہم صدیاں وائسراؤں کے نیچے غلامی میں گزارنے کے عادی ہیں۔ یقین مانیے، ہم بہت اچھی رعایا ثابت ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments