قومی شیرازہ بندی کا ضروری کام
پاکستان کو دو دن میں یکے بعد دیگرے تین دہشت گرد حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ گزشتہ روز ڈیرہ اسماعیل خان اور گوادر میں ہونے والے حملوں میں بالترتیب پانچ پولیس اہلکار اور 14 فوجی جوان شہید ہو گئے۔ تاہم آج میانوالی ایئربیس پر حملہ میں ملوث تمام 9 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے لیکن نوعیت کے اعتبار سے یہ حملہ سب سے زیادہ سنگین ہے۔ دہشت گردوں نے ملک کی اہم دفاعی تنصیبات پر حملہ کیا۔ یہ براہ راست مسلح افواج کو جنگ کی دعوت دینے کے مترادف ہے۔
تاہم اس صورت حال اور جنگی کیفیت کا مقابلہ کرنے کے لیے جس قومی یک جہتی کی ضرورت ہے، وہ اس وقت ملک میں موجود نہیں ہے۔ اگرچہ کہنے کو انتخابات کے حوالے سے بے یقینی اور تحریک انصاف کی طرف سے 9 مئی کے واقعات میں دکھائی گئی بے اعتدالی کی وجہ سے سیاسی افتراق پایا جاتا ہے۔ ان معاملات پر نصابی لحاظ سے غور کیا جائے تو عدالتوں سے سانحہ 9 مئی کے قصور واروں کو سزائیں ملنے اور 8 فروری 2024 کو منعقد ہونے والے عام انتخابات کے بعد بظاہر بحرانی اور انتشار سے لبریز دکھائی دینے والی صورت حال معمول پر آ جائے گی۔
لیکن بدقسمتی سے زمینی حقائق اس تھیوری یا نصابی اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ایک تو سیاسی اختلاف کی بنیاد پر پائی جانے والی تقسیم اب محض نظریاتی اختلاف رائے تک محدود نہیں ہے بلکہ اس نے معاشرے کو سماجی سطح پر تقسیم کر دیا ہے۔ اختلاف نفرت اور ضد کا سبب بنا ہوا ہے اور وہ سیاسی پارٹیاں بھی اب ایک دوسرے کے بارے میں تند و تیز لب و لہجہ اختیار کر رہی ہیں جو چند ماہ پہلے تک مخلوط حکومت کا حصہ تھیں۔ تحریک انصاف کے حوالے سے سیاسی پارٹیوں اور پاکستانی عوام کے طرز عمل کا معاملہ زیادہ الجھا ہوا اور تشویشناک ہے۔
دوسری طرف ریاست اور اس کے اداروں کی طرف سے سانحہ 9 مئی کے بعد تحریک انصاف کو ایک بڑے خطرے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ملک میں اس وقت کوئی منتخب حکومت موجود نہیں ہے اور سپریم کورٹ کی مداخلت پر انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے تک آئندہ حکومتی انتظام کے بارے میں بھی شبہات موجود تھے اور نت نئی قیاس آرائیاں سننے میں آ رہی تھیں۔ البتہ سپریم کورٹ نے نہ صرف انتخابات کے لئے صدر مملکت اور الیکشن کمیشن میں اتفاق رائے کروایا اور انتخابات کی حتمی تاریخ کا فیصلہ کیا جا سکا بلکہ کل سپریم کورٹ سے جاری ہونے والے فیصلے میں میڈیا کو بھی متنبہ کیا گیا ہے کہ اب انتخابات کے حوالے سے بے بنیاد قیاس آرائیوں سے گریز کیا جائے ورنہ ایسے طرز عمل کی گرفت کی جائے گی۔ امید کی جانی چاہیے کہ اس حکم کا اطلاق سوشل میڈیا پر پیدا کی جانے والی بدگمانیوں اور بے بنیاد ’معلومات‘ کی ترسیل پر بھی ہو سکے گا تاکہ انتخابی مہم کے دوران کسی حد تک پرسکون ماحول فراہم ہو سکے اور ملک و قوم کو آئندہ سال کے شروع میں نئی منتخب حکومت دستیاب ہو جائے۔
منتخب حکومت قائم ہونے سے ملک سیاسی بے یقینی کی صورت حال سے ضرور باہر نکل سکے گا۔ نگران حکومت کے غیر طے شدہ دورانیہ کی وجہ سے اس وقت ملک کو عالمی سطح پر جس سفارتی تنہائی اور پریشانی کا سامنا ہے، اس میں بھی کسی حد تک کمی واقع ہوگی۔ البتہ یہ اندیشہ اپنی جگہ موجود رہے گا کہ مستقبل کی قومی اسمبلی میں اگر کسی ایک پارٹی کو واضح اکثریت حاصل نہ ہوئی اور بعض سیاسی گروہوں نے دھاندلی کا عذر تراش کر اگر ایک بار پھر احتجاج اور انتشار پیدا کرنے کے پرانے ہتھکنڈوں کا آغاز کیا تو کیا ملکی معیشت اور کمزور نظام حکومت میں اس سے نمٹنے کی سکت ہوگی؟
انتخابات صرف اسی صورت میں بہتر مستقبل کی طرف رہنمائی کرسکیں گے اگر یہ شفاف ہوں اور عوام کے حقیقی نمائندے ملک کی باگ ڈور سنبھالنے میں آزاد ہوں۔ البتہ پاکستان میں شفافیت کا تعلق بڑی حد تک سیاسی رویوں اور اقتدار میں ملنے والے حصہ سے بھی رہا ہے۔ ملکی عوام کے لیے یہ سوال بے حد اہم ہونا چاہیے کہ کیا سیاسی پارٹیاں بلوغت کی اس سطح پر پہنچ چکی ہیں کہ وہ جیت پر بے حال نہ ہوجائیں اور ایک پارٹی کی شکست کو ملک کی ناکامی قرار دینے کا چلن ترک سکیں۔
اس بارے میں شبہات موجود ہیں۔ ملکی سیاسی لیڈروں کے عمومی رویے چونکہ تضاد خیالی، الزام تراشی، کھوکھلے دعوؤں اور وعدوں سے لبریز ہوتے ہیں، اس لیے یہ اندیشہ پایا جاتا ہے کہ ایسے ماحول میں اگر دنیا کے بہترین معیار پر بھی شفاف انتخابات منعقد کروا لیے جائیں تو بھی سیاسی بحران اور سماجی انتشار کا خاتمہ ممکن نہیں ہو سکے گا۔ ایک تو پاکستان میں شاید ہی کوئی ذی شعور ہو جو یہ یقین کرنے پر آمادہ ہو کہ انتخابات شفاف بھی ہوسکتے ہیں۔
دوسرے سیاسی پارٹیوں کے درمیان مواصلت و مفاہمت کی کمی کی وجہ سے یہ خطرہ موجود ہے کہ انتخابی نتائج خواہ کچھ بھی ہوں، لیکن کم نشستیں حاصل کرنے والی سیاسی پارٹیاں لازمی اعتراض کریں گی اور اقتدار سنبھالنے والی پارٹی یا سیاسی اتحاد کو جعلی حکمران قرار دیا جائے گا۔ ماضی قریب کی طرح ان پر یہی الزام عائد ہو گا کہ اس پارٹی یا پارٹیوں نے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ملی بھگت سے اقتدار حاصل کیا ہے، یہ عوام کے حقیقی نمائندے نہیں ہیں۔
یادش بخیر 2013 کے انتخابات کے بعد تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے اور 2018 کے انتخابات کے بعد حکومتی اتحاد سے باہر رہنے والی تمام سیاسی پارٹیوں نے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیتے ہوئے اقتدار سنبھالنے والی پارٹی کو ناجائز حکمران قرار دیا تھا۔ عمران خان کے لیے تو ان کے پورے دور اقتدار میں ’نامزد وزیر اعظم‘ کی پھبتی کسی جاتی رہی تھی۔
ان حالات میں مستحسن طریقہ تو یہی ہو گا کہ تمام سیاسی پارٹیاں انتخابات سے پہلے تعاون کے کسی ایسے چارٹر پر متفق ہوجائیں جس میں باہمی احترام کا اقرار کیا جائے اور یہ وعدہ کیا جائے کہ سب سیاسی پارٹیاں کھلے دل سے عوام سے ووٹ مانگیں گی لیکن انتخابات میں جو بھی نتیجہ سامنے آئے، اسے خوش دلی سے قبول کر لیا جائے گا۔ اب یہ معاملہ چونکہ ملکی قانون یا آئین کی کسی شق کے تحت تو آتا نہیں ہے کہ سپریم کورٹ نے جیسے صدر مملکت اور الیکشن کمیشن میں ’صلح‘ کروا دی، اسی طرح کا کوئی اقدام کرتے ہوئے وہ سیاسی فریقوں کو بھی مل بیٹھنے اور اتفاق رائے کرنے کا ’حکم‘ جاری کرسکے۔
اس معاملہ کا تعلق تو بنیادی اخلاقیات، سماجی ذمہ داری اور ملکی بہبود کے بارے میں فرض شناسی سے ہے۔ اس کا کوئی کلیہ کسی فرد یا سیاسی گروہ پر نافذ نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ تمام تر پریشان خیالی کے باوجود سب لیڈروں و عناصر کی حب الوطنی پر اعتبار کرتے ہوئے امید ضرور کی جا سکتی ہے کہ اگر ایسا کوئی باقاعدہ اتفاق رائے نہیں بھی ہوتا تو بھی انتخابات میں مدمقابل ہونے والی سب سیاسی قوتیں بہترین قومی مفاد میں تنازعہ اور تصادم کو ہتھکنڈا بنانے سے گریز کرنے کا اہتمام ضرور کریں گی۔
البتہ اس حوالے سے دو پہلو بے حد اہم ہیں۔ ایک تو سیاسی لیڈروں کا ایک دوسرے کی نیک نیتی کے بارے میں سوچ کا طریقہ اور دوسرے سیاسی معاملات میں اسٹبلشمنٹ یا عسکری اداروں کی مداخلت کا شبہ۔ اس وقت بھی ملک میں نہ صرف ماضی کی حکومتوں کے حوالے سے یہ یقین کیا جاتا ہے کہ انہیں بنانے یا گرانے میں عسکری طاقت کا ہاتھ تھا بلکہ مستقبل کے حوالے سے بھی یہ شبہات سامنے آرہے ہیں کہ کون سے لیڈر یا گروہ کو ’کنگز پارٹی‘ کا درجہ حاصل ہو گا۔
یعنی اسٹبلشمنٹ کس سیاسی پارٹی کو اقتدار دلانا چاہتی ہے۔ عدلیہ کو چونکہ روایتی طور سے عسکری اسٹبلشمنٹ کا سانجھے دار سمجھ لیا گیا ہے اور اعلیٰ عدلیہ ابھی تک خود کو ماضی کے غلط فیصلوں کے بھیانک سائے سے باہر نکالنے میں کامیاب نہیں ہوئی، اس لیے بدقسمتی سے عدلیہ کے بارے میں بھی رائے عامہ تقسیم ہے۔ کسی کے نزدیک سپریم کورٹ عدل و انصاف کا اعلیٰ معیار قائم کر رہی ہے تو کسی دوسرے کی رائے میں اس کے فاضل ججوں کے فیصلے سیاسی وابستگی کی وجہ سے کیے جاتے ہیں۔ عدل و انصاف کے دو ہرے معیار کا تاثر بدستور گہرا ہے۔
ایسے میں اگر انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے ساتھ ہی سابق حکمران جماعت تحریک انصاف کے لیڈر اسد قیصر کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا جائے یا سابق وزیر اور پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری کو پولیس پراسرار طریقے سے اٹھا کر لے جائے تو شبہات کو یقین میں تبدیل ہوتے دیر نہیں لگتی۔ یوں تو ایسے اقدامات کا الیکشن کمیشن کو نوٹس لینا چاہیے اور پولیس اور دیگر اداروں کو سیاسی لیڈروں کے خلاف کارروائی سے روکنا چاہیے لیکن ایک پارٹی جب چیف الیکشن کمشنر کی نیک نیتی پر مسلسل سوال اٹھا رہی ہو تو ایسا کوئی اقدام ممکن نہیں ہو گا۔
ایسے میں نگران حکومت کو یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ کسی سیاسی لیڈر کے خلاف خواہ کیسا ہی سنگین الزام کیوں عائد نہ ہو، کسی ادارے کو اسے گرفتار کرنے یا ہراساں کرنے کی اجازت نہ دی جائے گی۔ اسی طرح جن لیڈروں کو زیر غور مقدمات میں قید رکھا گیا ہے، ان کی فوری رہائی کا کوئی عملی طریقہ اختیار کیا جائے۔ اس طرح نگران حکومت کم از کم اپنی غیر جانبداری کا ایک چھوٹا سا ثبوت فراہم کر سکتی ہے۔ ایسے ٹھوس اقدام سے انتخابات کی شفافیت کے بارے میں شبہات کسی حد تک رفع ہوسکتے ہیں۔
پاک فوج کو ایک طرف دہشت گردوں کا براہ راست سامنا ہے اور دوسری طرف سیاسی کردار کی وجہ سے عوام میں فوج کی نیک نیتی اور غیر جانبداری کے حوالے سے مسلسل سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ حالانکہ جس ملک میں دہشت گردی کا عفریت اس شدت سے سر اٹھا رہا ہو کہ اس کے منصوبہ ساز پاک فضائیہ کی تنصیبات پر حملے کرنے کے منصوبے بناتے ہوں، وہاں عوام میں اپنی مسلح افواج کے بارے میں کسی قسم کا کوئی شبہ موجود نہیں ہونا چاہیے۔ اس وقت فوج کو عوامی اعتماد اور دہشت گردوں سے مقابلہ کے دوہرے امتحان کا سامنا ہے۔
یہ ممکن ہے کہ بعض سیاسی لیڈروں کے ساتھ نرمی کا رویہ اختیار کرنے سے مرضی کے انتخابی نتائج حاصل نہ ہو سکیں لیکن اس کے برعکس اگر مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لیے عوامی بھروسے کا خون کیا گیا تو اس کے زیادہ دوررس اور اذیت ناک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ اس وقت فوج کا وقار بحال کرنے، قومی مفاد کے تحفظ اور سماجی انتشار سے نمٹنے لیے انتخابات میں شفافیت کو یقینی بنانا زیادہ ضروری ہے۔ یہی اقدام دہشت گردوں کے حوصلے پست کرے گا اور بکھری ہوئی قوم کی شیرازہ بندی ہو سکے گی۔
- عمران خان سے ’انتقام‘ لینے کا اعلان - 09/12/2023
- عدالتوں کو ایک دوسرے سے لڑانے کی افسوسناک کوشش - 08/12/2023
- اسرائیل دشمنی میں جہاد کے ناجائز نعروں سے گریز کیا جائے! - 07/12/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).